کیا قوم سے جھوٹ بولنے والا صادق اور امین ہے؟…خالد مسعود خان
سفر اس عاجز کے لیے کوئی مشکل امر نہیںہے۔ اگر مشکل ہوتا‘ تو اسے کب کا تیاگ دیا گیا ہوتا‘ مگر یہ اب زندگی کا لازمہ ہے۔ گزشتہ ہفتے بھی سفر در پیش تھا‘ لیکن یہ وہ والا سفر تھا‘ جو انگریزی والا Suffer ہوتا ہے۔ گاڑی خود چلانی تھی۔ ملتان سے لاہور‘ پھر لاہور سے اسلام آباد اور پھر ملتان واپس۔ ملتان سے اسلام آباد براستہ لاہور کے سفر میں چھوٹی بیٹی ہمراہ تھی اور اسلام آباد سے واپسی پر اسدکو بھی ساتھ ہونا تھا۔ملتان تا لاہورسڑک ٹھیک ہے۔لاہور سے اسلام آباد موٹر وے ہے اور واپسی پر بھی گوجرہ تک موٹر وے ہے اور گوجرہ سے آگے وہی پرانی سڑک۔ گوجرہ سے ملتان تک کا روٹ بھی تھوڑا عرصہ پہلے تک طے تھا۔ موٹروے سے اتر کر جھنگ‘ جھنگ سے شورکوٹ‘ کبیر والہ اور ملتان‘ لیکن اب جھنگ سے شورکوٹ تک کی سڑک موہنجوداڑو کا نقشہ پیش کر رہی ہے۔ گزشتہ ایک سال سے تو ٹوٹ پھوٹ اس تیزی سے ہوئی ہے کہ اب اس سڑک پر سفر کرنا باقاعدہ جوکھم کا کام ہے۔
اس جھنگ والے خراب ٹکڑے کے باعث ملتان سے اسلام آباد کا سفر قریباً ایک گھنٹہ بڑھ گیا ہے اور اس ایک گھنٹے کے اضافے کے علاوہ‘ جو تکلیف اور اذیت اٹھانی پڑتی ہے وہ ایک علیحدہ قصہ ہے۔ ویسے تو یہ سڑک بننے کے فوراً بعد بیٹھنا شروع ہو گئی تھی اور مکمل ہونے کے تھوڑے ہی عرصہ بعد مرمت پر لگ گئی تھی‘ لیکن پھر یوںہوا کہ سرکار کو مرمت کروانا بھی بھول گیا۔ ویسے بھی حکمران صرف موٹروے کو ہی سڑک سمجھتے ہیں اس کے علاوہ دیگر شاہرات‘ کیونکہ حشرات الارض ٹائپ عوام کے زیر استعمال ہوتی ہیں‘ لہٰذا ان کی تعمیر و مرمت اور دیکھ بھال موٹروے فہم حکمرانوں کی ذمہ داری ہی نہیں لگتی تھی۔ سو یہ سڑک اب ایسی حالت میں ہے کہ کئی کئی میل تک سوگز بھی مسلسل ایسے نہیں ملتے ‘جو ٹوٹ پھوٹ اور گڑھوں سے پاک ہوں۔
عمومی طور پر شریف اور معقول سمجھے جانے والے سابقہ (عارضی والے) وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کی رخصتی اکتیس مئی کو تھی اور انہوں نے اپنی رخصتی سے قبل بطورِ وزیراعظم پاکستان کے تمغے کو غنیمت جانا اور جاتے جاتے بطورِ وزیراعظم پاکستان موٹرویز پر اپنے نام کی ”پھٹی‘‘ لگوانے کا ارادہ فرمایا۔ حکمرانوں کے ارادے بہر حال ایسے نہیں ہوتے کہ آسانی سے ٹالے جا سکیں۔ سو ان کی اس خواہش کے احترام میں دوڑیں لگ گئیں‘ جس طرح میاں شہباز شریف نے جاتے جاتے نا مکمل اور ادھوری اورنج ٹرین کا افتتاح فرما دیا‘ اسی طرح شاہد خاقان عباسی نے بھی جاتے جاتے موٹر وے کی تختیوں پر ہاتھ صاف کرنے کا اعلان فرما دیا اور ایک چھوڑ تین تین موٹر ویز پر اپنے نام کی تختیاں سجانے پر تیار ہو گئے۔
تختیوں کا شوق بھی بڑا واہیات ہے۔ ملتان میں ایک سڑک ہے‘ جو اب ”غوث الاعظم روڈ‘‘ کہلاتی ہے۔ پہلے اس سڑک کا کیا نام تھا؟ کم از کم مجھے تو یاد نہیں۔ ہو گا کوئی۔ اس سڑک پر سید یوسف رضا گیلانی کا گھر ہے۔ سو انہوں نے اس سڑک کا نام اپنے جد امجد کے نام پر رکھ دیا۔ بالکل ویسے ہی جیسے اچھی بھلی ”ملتان یونیورسٹی‘‘ کانام اٹھا کر بہائو الدین زکریا یونیورسٹی رکھ دیا گیا۔ مجھے اب بالکل سمجھ نہیں آتی کہ میں اپنی بی اے کی ڈگری کا کیا کروں؟ اس پر ملتان یونیورسٹی چھپا ہوا ہے اور اب اس نام کی یونیورسٹی کہیں بھی موجود نہیں۔ خیر بات کہیں اور چلی گئی ہے۔ سید یوسف رضا گیلانی قومی اسمبلی کے سپیکر بنے تو اس سڑک کا جو صدیوں نہ سہی ‘کم از کم ایک صدی تو ضرور پرانی تھی‘ افتتاح کر مارا۔ ظاہر ہے افتتاح کی پھٹی لگتی ہے‘ جو سید یوسف رضا گیلانی بطور ”سپیکر قومی اسمبلی پاکستان‘‘ لگا دی گئی‘ پھر یوں ہوا کہ صدر پاکستان کسی غیر ملکی دورے پر پاکستان سے باہر گئے‘ تو آئین کے مطابق سپیکر نے قائم مقام صدر کا عہدہ سنبھال لیا۔ سید یوسف رضا گیلانی سے چار روزہ عبوری صدارت کو غنیمت جانا اور پھر اسی سڑک کا بطور ”صدرِ پاکستان‘‘ افتتاح کھڑکا دیا اور اس عہدے والی تختی لگوا دی۔ ابھی شاید یہ تختی اگلے کئی عشرے چلی جاتی‘ لیکن خوش قسمتی سے یوسف رضا گیلانی پاکستان کے وزیراعظم بن گئے۔ انہوں نے وزیراعظم بنتے ہی اپنی کوٹھی کے بیچے گئے اڑھائی کنال بھی واپس خرید لیے اور منہ مانگے داموں خریدے اور سرکاری خرچے پر ایک بلند و بالا‘ سریے اور کنکریٹ والی حفاظتی دیوار بھی بنوا لی اور اپنی سڑک کا تیسری بار بطور وزیراعظم پاکستان پھر افتتاح پھڑکا دیا۔ ایک تختی اب کافی عرصہ سے نظر نہیں آتی‘ البتہ دو تختیاں ابھی تک اس سڑک پر موجود ہیں۔ بات موٹرویز کے افتتاح کی ہو رہی تھی۔ شاہد خاقان عباسی نے جاتے جاتے تختیوں کی بہتی گنگا میں اپنے ہاتھ دھونے کا ارادہ فرمایا اور تین عدد موٹروے کے سیکشنز کا افتتاح فرما مارا۔ تین سیکشن تھے۔ ملتان تا شجاع آباد‘ مورخہ 23 مئی۔ گوجرہ تا شورکوٹ مورخہ 25 مئی اور لاہور تا عبدالحکیم 28 مئی 2018ئ۔ انہوں نے الحمد للہ اپنی دی گئی تاریخوں پر ان سیکشنوں کا افتتاح فرما بھی دیا۔ آج مورخہ 14 مئی 2018ء کو ملتان شجاع آباد سیکشن کے افتتاح کو بائیس دن‘ گوجرہ شورکوٹ سیکشن کو بیس دن اور لاہور عبدالحکیم سیکشن کے افتتاح کو سترہ دن ہو چکے ہیں۔ ظاہر ہے یہ سیکشن اب فعال ہونگے اوور ان پر گاڑیاں ”زوں زوں‘‘ کر کے فراٹے بھی بھر رہی ہونگی۔
ملتان سے لاہور جاتے ہوئے میں نے سوچا کہ خانیوال سے آگے کچا کھوہ سے عبدالحکیم چلا جائوں گا اور وہاں سے لاہور اڑھائی تین گھنٹوں میں پہنچ جائوں گا۔ شوکت گجر سے ذکر کیا‘ تو وہ کہنے لگا: بھائی کل مہر ظہور تھراج کا فون آیا تھا بتا رہا تھا کہ سڑک نا مکمل ہے۔ سفر ناممکن ہے۔ انٹرچینج زیر تعمیر ہے۔ موٹروے کے دونوں اطراف والی دیوار بھی نہیں بنی۔ بلڈوز کئی جگہ ابھی تک مٹی کو پریس کر رہے ہیں۔ کئی جگہ سڑک کا نام و نشان نہیں ہے۔ مہر ظہور اسی علاقے کا رہنے والا ہے۔ سو یقین کرنے کے علاوہ اور کوئی چارہ نہیں تھا۔ ملتان لاہور سفر جی ٹی روڈ پر کیا۔
مسئلہ واپسی کا تھا۔ گوجرہ سے آگے ملتان تک پہنچنا اب ایک کارِ داردہے۔ گوجرہ شورکوٹ سیکشن کے افتتاح سے خوشی ہوئی کہ جھنگ تا شورکوٹ برباد ترین سڑک سے بچت ہو جائے گی۔ واپسی پر فیصل آباد ایم تھری کے آغاز پر ٹکٹ دینے والے سے پوچھا کہ شورکوٹ سیکشن کا کیا حال ہے؟ جواب ملا :چل رہا ہے۔ گوجرہ سے دو کلو میٹر پہلے بورڈنے بتایا کہ موٹروے کا افتتاح ہوا چاہتا ہے۔ ملتان والے بورڈ پر سرخ رنگ کا کراس لگا ہوا تھا اور شورکوٹ کا کہیں بورڈ نہیں لگا ہوا تھا۔ میں نے موٹروے والوں کی شان میںتبرا کرنے سے گریز کیا کہ روزے کی حالت میں صبر سے کام لینے کا حکم ہے اور اس کا اجر بھی بہت زیادہ ہے‘ تاہم غصہ آیا کہ وزیراعظم بیچارہ جاتے جاتے بھاگ دوڑ کر کے اس سیکشن کو چالو کر گیا ہے اور کسی کو نئے ”شورکوٹ سیکشن‘‘ کا بورڈ لگانے کی توفیق ہی نہیں ہوئی۔ آگے گیا تو سڑک کے اختتام پر سیمنٹ کے بڑے بڑے بلاک پڑے تھے اور سڑک بند تھی۔
ٹال پلازہ پر بیٹھے نوجوان سے پوچھا کہ شورکوٹ سیکشن کے لئے کہاں سے چڑھنا ہے؟ اس نے روزے کا احترام کیے بغیر دو گالیاں نکالیں اور کہنے لگا: ہر بندہ یہی پوچھ رہا ہے اور وہ بے ایمان لوگ جاتے ہوئے ہمیں خوار کروا رہے ہیں۔ سڑک مکمل نہیں ہے اور ایک منٹ کے لیے بھی نہیں چلی۔ آج چودہ دن ہو گئے ہیں(مورخہ گیارہ جون کو) لوگ ہمیں برا بھلا کہہ ہے ہیں۔ ہم کیا کریں وزیراعظم نے جھوٹ بولااور ہم بھگت رہے ہیں۔
واپسی پر بڑی خواری ہوئی۔ گوجرہ سے ٹوبہ ٹیک سنگھ ‘ رجانہ‘ کمالیہ‘ چیچہ وطنی‘ خانیوال اور ملتان آتے ہوئے روزہ راستے میں کھل گیا۔ آج جلالپور پیروالہ کے ایم پی اے مہدی عباس کے بڑے بھائی قاسم لنگاہ سے شجاع آباد سیکشن کا پوچھا‘ تو اس نے بھی وہی جواب دیا‘ مگر مہذب انداز میں۔ تینوں میںسے ایک سیکشن بھی نہیں چل رہا اور افتتاح پر کروڑوں روپے کا جاتے جاتے الگ سے خرچہ ڈال گئے۔
جناب چیف جسٹس اور چیئر مین الیکشن کمیشن صاحب کیا قوم سے بولے گئے‘ اس جھوٹ کے بعد بھی شاہد خاقان عباسی صادق اور امین باقی رہ گیا ہے؟ اگر نہیں تو اس کے کاغذات نامزدگی پر اس کالم کو باقاعدہ اعتراض تصور کیا جائے۔ اس ملک میں کسی کو جھوٹ بولتے ہوئے ‘رتی برابر شرم نہیں آتی اور جھوٹ بھی وہ‘ جس پر قوم کے کروڑوں روپے ضائع ہو گئے۔