منتخب کردہ کالم

گارڈ کی تبدیلی: اکرام سہگل

دنیا کے زیادہ تر ممالک میں نئے آرمی چیف کے تقرر کا میڈیا میں کوئی ذکر نہیں ہوتا اور نہ ہی عوام کی طرف سے اسے کوئی خاص توجہ ملتی ہے مگر پاکستان میں صورتحال مختلف ہے۔ واشنگٹن پوسٹ نے لکھا ہے ’’پاکستان جو کولڈ وار اور انسداد دہشت گردی میں امریکا کا اتحادی ہے وہاں 20 سال میں پہلی مرتبہ سب سے زیادہ طاقتور افسر اس منصب پر متمکن ہوا جس نے بروقت ریٹائر ہونے کا اپنا وعدہ پورا کر دیا اور یہ عہدہ اپنے جانشین کے سپرد کر دیا، جس کا انتخاب وزیراعظم نے کیا تھا‘‘۔ اگر جنرل راحیل شریف کے پیشرو بھی اپنی 3 سالہ مدت متعین کی پاسداری کرتے تو پاکستان کے آرمی چیفس کی تعداد 16 کے بجائے 21 ہوتی۔

جنرل راحیل شریف نے 29 نومبر کو نہایت پروقار انداز میں اپنے جوتے اتار دیے اور اس طرح اس باوقار ادارے کے لیے ایک ایسی مثال قائم کر دی جس کی ان کے جانشینوں کو پابندی کرنا ہو گی۔ اگرچہ سبکدوش ہونے والے جنرل کے لیے شاندار مواقع کی کوئی کمی نہ تھی لیکن انھوں نے جمہوریت کے کاز کی ترویج کی ہے۔ ایک نہایت پروقار تقریب میں جنرل قمر جاوید باجوہ نے پاکستان آرمی کے نئے سی او اے ایس کا منصب سنبھالا۔ سبکدوش ہونے والے چیف آف آرمی اسٹاف انتہائی باصلاحیت پیشہ ور افسر تھے جنھیں عوام کی طرف سے بے مثال مقبولیت حاصل ہوئی کیونکہ وہ اپنی بات کے بہت کھرے تھے اور جو کہتے تھے اس پر عمل کرتے تھے۔

یہ بھی جنرل راحیل شریف کے کریڈٹ کی بات ہے کہ انھوں نے سبکدوش ہوتے ہی آرمی سے فاصلہ پیدا کر لیا جب کہ اس سے قبل جنرل مشرف نے پورے 8 سال تک ملک کے سیاسی عمل پر اپنا کنٹرول قائم رکھا جس کے لیے انھوں نے آئینی ذمے داریوں کو نظر انداز کر دیا۔ جنرل راحیل شریف نے جنرل مشرف کے 8 سالہ دور، نیز جنرل کیانی سے جنہوں نے اپنے عہدے میں توسیع قبول کر لی تھی، سبق سیکھتے ہوئے بروقت ریٹائرمنٹ کا دانشمندانہ فیصلہ کیا۔ فوجی افسران کی اکثریت ادارہ جاتی حدود اور آئینی پابندیوں پر عمل کرتے ہوئے ملک پر حکومت کرنے کا کوئی شوق نہیں رکھتی۔ نئے آرمی چیف جنرل باجوہ پہلے ہی آرمی کی سیاست میں مداخلت کے خلاف بیان دے چکے ہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ آرمی منظر عام پر آئے بغیر حکومت کو مشورہ دے سکتی ہے یا نصیحت کر سکتی ہے۔

جنرل راحیل شریف نے پاکستانی پالیسیوں پر اپنا اثرورسوخ قائم رکھا اور کھلے عام مداخلت کے بغیر ایک کلیدی کھلاڑی کے طور پر فرائض سر انجام دیتے رہے۔ یہی وجہ ہے کہ جنرل راحیل شریف نے اپنی اعلیٰ کارکردگی کی جو مثال قائم کی ہے ان کے بعد آنیوالوں کو اس معیار پر پورا اترنا خاصا کٹھن ہو سکتا ہے۔ جنرل قمر باجوہ کو چیف آف آرمی اسٹاف کے منصب پر بیٹھ کر تزویراتی سمتوں کو اچھی طرح سمجھنے میں تھوڑا وقت ضرور لگے گا۔ ان کی پہلی ترجیح چند میجر جنرلوں کو لیفٹیننٹ جنرلز کے رینکس پر پروموٹ کرنا ہو گا تاکہ خالی پوسٹوں کو پر کیا جا سکے۔

لیفٹیننٹ جنرل اشفاق ندیم جنھیں چیف آف جنرل اسٹاف (سی جی ایس) تعینات کیا گیا ہے ان کا ملٹری کیریئر حد درجہ متاثر کن ہے۔ یہ وہی تھے جنہوں نے ضرب عضب کے لیے ’’بلیو پرنٹ‘‘ تیار کیا جو کہ دہشت گردوں کے خلاف جنگ ہے۔ انھوں نے سوات اور وزیرستان میں بریگیڈئیر اور میجر جنرل کے رینک پر خدمات انجام دیں۔ جنرل جاوید اقبال رمدے میرے یونٹ نمبر4 سندھ میں میرے ساتھ تھے اور مجھے اس غیر معمولی سولجر کے اتنے بلند منصب پر پہنچنے کی بہت خوشی ہوئی ہے۔ جی او سی سوات کے طور پر وہ زخمی ہو گئے تھے کیونکہ 2011ء میں آپریشن ’’راہِ نجات‘‘ کے دوران ان کا ہیلی کاپٹر فائرنگ کا نشانہ بن گیا تھا۔ 2012ء میں انھیں نیشنل ڈیفنس یونیورسٹی (این ڈی یو) میں تعینات کیا گیا جو اگلے سال اس یونیورسٹی کے صدر بن گئے۔ 2015ء میں انھوں نے 31 کور بہاولپور کے کمانڈر کی ذمے داریاں سنبھالیں۔

جنرل باجوہ کو 16 بلوچ رجمنٹ میں کمیشن حاصل ہوا۔ اس رجمنٹ کو ان کے والد بھی کمان کرتے رہے تھے۔ جنرل باجوہ کے پاس تجربے کا ایک بڑا خزانہ ہے اور ایک پیشہ ور سولجر کے طور پر ان کا بڑا نام ہے۔ وہ انفنٹری اسکول کے کمانڈنٹ رہے۔ اور انھیں اندرونی عسکریت پسندی کے خطرے سے نمٹنے کا خاص ملکہ حاصل ہے۔ کمانڈر 10 کور کے طور پر ان کی ذمے داریوں میں حد سے زیادہ حساس معاملات بھی شامل تھے جیسے لائن آف کنٹرول کی مینجمنٹ۔ ان کی آخری پوسٹنگ انسپکٹر جنرل آف ٹریننگ اینڈ اویلیوایشن (آئی جی ٹی ای) جی ایچ کیو تھی۔

ان کے رفقائے کار انھیں ایک غیرمعمولی صلاحیتوں کا حامل سولجر تصور کرتے ہیں جو پروٹوکول کی پابندیوں سے بالاتر ہو کر اپنے رفقائے کار کے ساتھ گھل مل جاتا ہے۔ بھارت کے سابق آرمی چیف جنرل بکرم سنگھ اقوام متحدہ کے تحت تعینات کیے جانے والے فوجی دستے میں ان کے سینئر تھے جنہوں نے پریس ٹرسٹ آف انڈیا سے بات کرتے ہوئے پاکستان کے ساتھ اپنے اچھے تعلقات کا ذکر کیا اور بتایا کہ جنرل باجوہ ایک سچے پیشہ ور سولجر ہیں جنہوں نے کانگو میں اپنی تعیناتی کے دوران غیر معمولی کارکردگی کا مظاہرہ کیا۔ جنرل باجوہ نے اپنی پہلی تعیناتی لیفٹیننٹ جنرل عامر ریاض کی کمانڈر ساؤدرن کمان میں سی جی ایس کے طور پر کی جو کہ اس بات کی علامت ہے کہ وہ جنرل راحیل شریف کی روایت کو جاری رکھیں گے۔

جنرل عامر ریاض نے جنرل اشفاق ندیم کے ساتھ ڈی جی ایم او کے طور پر آپریشن ضرب عضب میں کام کیا۔ یہاں میں 5 دسمبر 2013ء کو شایع ہونے والے اپنے آرٹیکل Changing the Guard کا حوالہ دینا چاہتا ہوں۔ ’’ایک دفعہ مجھ سے پوچھا گیا تھا کہ چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کمیٹی کا گزارہ آخر کیسے ہوتا ہے۔ اس وقت طارق مجید نے اس بات کا برا منایا جس کی وجہ سے میرے آئی ایس پی آر کے سربراہ میجر جنرل اطہر عباس کے ساتھ تعلقات قدرے متاثر ہو گئے تھے۔

جدید دور کی جنگ کے تناظر میں ساری مسلح افواج کے لیے ایک متحدہ اعلیٰ کمان ہونی چاہیے۔ مزید برآں اس حقیقت کو ضرور زیر غور لایا جانا چاہیے کہ کیا چیف آف آرمی اسٹاف کا طاقتور منصب ملک کے وجود سے بھی زیادہ اہمیت رکھتا ہے؟ اس بات کا سہرا یقیناً میاں نواز شریف کے سر ہے کہ انھوں نے سوشل میڈیا پر نئے سی او اے ایس کے بارے میں ہونے والی بحث کا کوئی غلط اثر قبول نہیں کیا اور میرٹ پر نئی تعیناتی کی۔ جن امیدواروں کو شارٹ لسٹ کیا گیا وہ سارے کے سارے بے حد باصلاحیت تھے جب کہ جنرل باجوہ نے جمہوری نظام کی حمایت کا اعلان کر کے اس بات کی وضاحت کر دی کہ سول حکومت کے ساتھ ان کے ورکنگ ریلیشنز زیادہ بہتر ہونگے۔