گالف سٹک … کالم جاوید چوہدری
’’بے گناہوں کو سزا کیوں ملتی ہے؟‘‘ میں نے عرض کیا اور خاموشی سے ان کی طرف دیکھنے لگا‘ وہ غور سے میری طرف دیکھنے لگے‘ ان کی آنکھوں میں حیرت‘ پریشانی اور ملال کے ملے جلے رنگ تھے‘ وہ چند لمحے خاموش رہے اور پھر نرم آواز میں پوچھا ’’ کیا مطلب میں سمجھا نہیں‘‘ میں نے عرض کیا ’’ جناب پتنگ کوئی اڑاتا ہے لیکن گلہ کسی معصوم اور بے گناہ بچے کا کٹ جاتا ہے‘ جرم کوئی کرتا ہے لیکن قید کوئی دوسرا بھگتتا ہے۔
اللہ تعالیٰ اگر دلوں کے بھید جانتا ہے تو پھر اس کی خدائی میں معصوم اور بے گناہ لوگوں کو سزا کیوں ملتی ہے‘ میں قدرت کی اس بے انصافی پر حیران ہوں‘‘ میں خاموش ہو گیا‘ وہ مسکرائے‘ انھوں نے مجھے غور سے دیکھا اور فرمایا ’’ یہ ایک وسیع اور باریک موضوع ہے‘ میں تمہیں سمجھانے کے لیے ایک چھوٹی سی مثال دیتا ہوں‘ احمد ایراچدی مراکش کا مسلمان تھا‘وہ لندن کے ایک ریستوران میں شیف تھا‘ وہ اٹھارہ سال تک شیف کا کام کرتا رہا ‘اس دوران اس کی فیملی مراکش میں مقیم رہی۔
2001ء کے شروع میں اس کا بچہ بیمار ہو گیا‘ احمد نے ڈاکٹروں سے رابطہ کیا‘ پتہ چلا بچے کا آپریشن ہو گا‘ احمد کے پاس بچے کے آپریشن کے لیے رقم نہیں تھی‘ اس دوران اس کی ملاقات ایک پاکستانی تاجر سے ہوئی‘ یہ تاجر یورپ سے مختلف مصنوعات خرید کر پاکستان درآمد کرتا تھا‘ پاکستانی تاجر نے احمد کو پریشان دیکھا تو اس نے اسے مشورہ دیا وہ اگر اپنی جمع پونجی سے لندن سے ادویات‘ وٹامنز اور کاسمیٹک خریدے اور یہ اشیاء پاکستان لے جا کر فروخت کردے تو اسے ٹھیک ٹھاک بچت ہو جائے گی اور یوں وہ بچے کے آپریشن کے قابل ہو جائے گا۔
Advertisement
احمد مجبور تھا اس نے پاکستانی تاجر کی بات مان لی‘ اس نے لندن سے مختلف اشیاء خریدیں‘ پاکستان کا ویزہ لگوایا اور لاہور آ گیا‘ لاہور میں اسے معلوم ہوا وہ اگر یہ اشیاء پاکستان کی بجائے افغانستان میں بیچ دے تو اسے دوگنا منافع مل سکتا ہے‘ احمد ایراچدی نے سامان اٹھایا‘ بس پر بیٹھا اور افغانستان چلا گیا‘ احمد جوں ہی افغانستان میں داخل ہوا وہاں کے حالات خراب ہو گئے‘ امریکا نے افغانستان پر حملہ کر دیا‘ شمالی اتحاد کی فوجیں کابل کی طرف بڑھیں اور انھوں نے دارالحکومت پر قبضہ کر لیا۔
احمد ایراچدی نے افغانستان سے نکلنے کی کوشش کی لیکن وہ کامیاب نہ ہوسکا‘ شمالی اتحاد نے کابل پر قبضہ کیا تو احمد ایراچدی ان کے ہتھے چڑھ گیا‘ احمد ایراچدی برٹش لہجے میں انگریزی بولتا تھا چنانچہ شمالی اتحاد نے اسے ’’ برٹش طالبان‘‘ ڈکلیئر کیا اور پانچ ہزار ڈالر کے عوض امریکی فوج کو بیچ دیا‘ امریکی فوج نے اسے طالبان تسلیم کر لیا‘ امریکیوں نے اسے شروع میں بگرام میں رکھا اور بعد ازاں گوانتانا موبے شفٹ کر دیا۔
احمد اس سارے عرصے اللہ تعالیٰ سے اپنا جرم پوچھتا رہا‘ وہ اللہ تعالیٰ سے گڑگڑا کر عرض کرتا تھا یا پروردگار میرا کیا قصور ہے‘ آخر مجھے کس جرم کی سزا مل رہی ہے؟ لیکن اللہ تعالیٰ کی طرف سے کوئی جواب نہیں ملتا تھا‘‘ وہ رکے‘ میری طرف دیکھا اور پوچھا ’’ تم بتائو اس بے چارے کا کیا قصور تھا‘‘۔
میں نے لمبی آہ بھری اور ان سے عرض کیا ’’ جناب عالی میں بھی تو یہی پوچھ رہا ہوں قدرت بے گناہ اور معصوم لوگوں کو کس جرم کی سزا دیتی ہے‘‘ وہ مسکرائے اور رواں لہجے میں بولے ’’ میں اس کا جواب آگے چل کر دوں گا‘ سرے دست تم احمد ایراچدی کی داستان پر توجہ دو‘ احمد ایراچدی کی انگریزی اچھی تھی‘ وہ برطانیہ میں بھی رہا تھا چنانچہ گوانتانا موبے میں امریکیوں کے ساتھ بحث کرتا تھا‘ ان کے ساتھ الجھتا رہتا تھا‘وہ ان سے قیدیوں کے حقوق مانگتا تھا۔
امریکی اس کی بحث سے تنگ تھے چنانچہ انھوں نے اسے جنرل کا خطاب دے دیا‘ وہ گوانتانا موبے میں جنرل احمد کے نام سے مشہور ہوگیا‘ گوانتانا موبے میں ٹیری ہولڈ بروک نام کا ایک افسر تھا‘ یہ ملٹری پولیس کی کمپنی 463 میں خدمات سرانجام دے رہا تھا‘ ٹیری ہولڈ بروک صبح سے رات تک قیدیوں کے ساتھ رہتا تھا‘ رات کے وقت جب کام ختم ہو جاتا تھا تو وہ شدید بوریت کا شکار ہو جاتا تھا‘ٹیری نے بوریت کے خاتمے کے لیے ایک دلچسپ مشلغہ اپنا لیا‘ وہ قیدیوں کی بارکوں کے قریب جاتا اور آہنی دروازے کے دوسری طرف کھڑے ہو کر ان کے ساتھ گپ شپ لگاتارہتا‘ اس مشغلے کے دوران ٹیری ہولڈ بروک کا احمد ایراچدی کے ساتھ رابطہ ہو گیا۔
احمد ایراچدی کی بیرک کے دروازے میں ایک چھوٹا سا سوراخ تھا‘ ٹیری ہولڈ بروک دروازے کے باہر بیٹھ جاتا تھا اور احمد ایراچدی دوسری طرف اور یہ دونوں رات بھر اس سوراخ کے ذریعے ایک دوسرے کے ساتھ گفتگو کرتے رہتے‘ یہ سلسلہ کئی ماہ تک چلتا رہا یہاں تک کہ ٹیری ہولڈ بروک نے احمد سے اسلام کے بارے میں پوچھنا شروع کر دیا اور احمد غیر محسوس طریقے سے اسے تبلیغ کرنے لگا‘ اس تبلیغ کے دوران ایک دن ٹیری ہولڈ بروک نے سوراخ کے ذریعے کاغذ کا ایک چھوٹا سا ٹکڑا اور قلم اندر پھینکا اور احمد نے کاغذ کے ٹکڑے پر کلمہ طیبہ لکھ کر باہر لٹکا دیا۔
ٹیری نے فوراً کلمہ پڑھا اور اسی وقت مسلمان ہو گیا‘‘ وہ رکے اور میری طرف دیکھنے لگے‘ میں دلچسپی سے ان کی طرف دیکھ رہا تھا‘ وہ دوبارہ گویا ہوئے ’’ ٹیری ہولڈ بروک نے اسلام قبول کرنے کے بعد مصطفی نام رکھا‘ فوج سے استعفیٰ دیا اور یہ آج کل یونیورسٹی آف فونکس کے اسلامک سینٹر سے وابستہ ہے‘ یہ وہاں نو مسلموں کی رہنمائی کرتا ہے‘ تم اس مثال کو سامنے رکھتے ہوئے مجھے اب بتاؤ اگر احمد ایراچدی کا بیٹا بیمار نہ ہوتا۔
اگر اسے پاکستانی تاجر نہ ملتا‘ اگر وہ سامان لے کر پاکستان اور پاکستان سے افغانستان نہ جاتا‘ اگر وہ بے گناہی کے باوجود گرفتار نہ ہوتا اور وہ گوانتانا موبے نہ پہنچتا تو کیا ٹیری ہولڈ بروک مسلمان ہوتا؟ وہ یقیناً نہ ہوتا چنانچہ احمد ایراچدی کی بے گناہی اور اس بے گناہی کی سزا نے ٹیری کو مصطفیٰ بنا دیا اور یہ مصطفیٰ آج کل امریکا میں سیکڑوں عیسائیوں اور یہودیوں کو اسلام کی ترغیب دے رہا ہے ‘‘۔
وہ خاموش ہو گئے‘ میں نے عرض کیا ’’ جناب آپ کی مثال بہت دلچسپ ہے لیکن میں ابھی تک اس کی گہرائی میں نہیں جا سکا‘‘ انھوں نے قہقہہ لگایا اور بولے ’’ نادان انسان بے گناہوں کی تمام سزائوں کا تعلق طائف کے واقعے سے ہوتا ہے‘ طائف کے لوگوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پر پتھر برسائے تھے‘ تم بتائو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا کیا قصور تھا؟ وہ طائف کے لوگوں کو سیدھا راستہ دکھانا چاہتے تھے مگر بدبختوں نے انھیں پتھروں سے زخمی کر دیا۔
اس واقعے کے بعد جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے آسمان کی طرف دیکھا تو جبرائیل امین زمین پر آئے اور عرض کیا آپ اگر اجازت دیں تو ہم اس پوری بستی کو دو پہاڑوں کے درمیان پیس دیں لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا‘ نہیں شاید ان کی اگلی نسل میں سے کوئی مسلمان ہو جائے چنانچہ بے گناہوں اور معصوموں کو ملنے والی ننانوے فیصد سزائوں کا مقصد اگلی نسلوں کو فائدہ پہنچانا ہوتا ہے۔
قدرت ایک معصوم شخص کو جیل میں ڈال کر کروڑوں لوگوں کو تباہی سے بچاتی ہے اور کسی ایک شخص کو مشکل حالات میں ڈال کر لاکھوں لوگوں کے لیے آسانیاں پیدا کردیتی ہے‘ تم کبھی غور کرنا ایک معصوم بچے کی جان جانے سے پورا پورا قانون بدل جاتا ہے جس سے سیکڑوں ہزاروں بچے بچ جاتے ہیں‘ احمد ایراچدی کی طرح کوئی معصوم اور بے گناہ شخص جیل میں جاتا ہے اور سیکڑوں ہزاروں لوگوں کی زندگیوں کا رخ بدل جاتا ہے‘ یہ چھوٹے چھوٹے واقعات دراصل گالف اسٹک کا کام کرتے ہیں‘ یہ ہٹ ادھر کرتے ہیں اور بال ادھر ہول میں جاتا ہے۔
ہم سب کی قسمت میں احمد ایراچدی کی طرح کوئی نہ کوئی ٹیری لکھا ہوتا ہے اور ہم معصومیت اور بے گناہی کی سزا بھگتتے ہوئے اس ٹیری تک پہنچ جاتے ہیں چنانچہ تم جب بھی بے گناہی اور معصومیت کے باوجود کسی نہ کسی مسئلے میں الجھنے لگو یا تم معصومیت اور بے گناہی کی سزا بھگتنے لگو تو تم ٹیری اور احمد ایراچدی کا یہ واقعہ ذہن میں لے آئو اور حالات کو نئے زاویے سے دیکھنا شروع کر دو‘ تم یہ دیکھ کر حیران رہ جائو گے قدرت برائی کو کس خوبصورتی سے اچھائی میں تبدیل کرتی ہے‘ وہ سزا کو کس خوبصورتی سے جزا میں بدل دیتی ہے‘‘۔
وہ رکے‘ انھوں نے لمبا سانس لیا اور نرم آواز سے بولے ’’ قدرت کا یہی کمال ہے یہ برائی کو اچھائی میں تبدیل کردیتی ہے‘ یہ خرابی کو خوبی میں بدل دیتی ہے‘ یہ اللہ کا کمال ہے وہ کیچڑ میں دودھ کی بالائی لے آتا ہے اور دودھ کو بدبودار کیچڑ بنا دیتا ہے چنانچہ جب بھی بے گناہی کی سزا پانے لگو تو اللہ کا شکر ادا کرو کیونکہ اللہ نے تمہیں احمد ایراچدی جیسے لوگوں کے گروپ میں شامل کرلیا ہے‘ اس نے تمہاری زندگی کو مقصد دے دیا ہے‘