منتخب کردہ کالم

گاڈفادرزڈے .. کالم بلال غوری

گاڈفادرزڈے .. کالم بلال غوری

اطالوی ازرہ تفنن کہتے ہیں کہ یہ دنیا بہت کٹھور ہے اس لئے دیکھ بھال کے لئے ایک باپ کافی نہیں،یہی وجہ ہے کہ ”گاڈفادر‘‘ جنم لیتے ہیں۔ شہرہ آفاق ناول ”گاڈ فادر‘‘ کے اطالوی مصنف ماریو پوزوکا قول ۔
پاناما کی تفتیش کرنے والی جے آئی ٹی نے سپریم کورٹ میں جو درخواست دائر کی ہے اس میں سو سے زائد صفحات الیکٹرانک ،پرنٹ اور سوشل میڈیا کے اقتباسات پر مشتمل ہیں،یہاں تک کہ سوشل میڈیا کے ٹرینڈز میں جے آئی ٹی کے الفاظ پر بھی اعتراض کرتے ہوئے یہ موقف اختیار کیا گیا ہے کہ تبصرہ اور تنقید کرنے والے حضرات جے آئی ٹی پر اثر انداز ہونے کی کوشش کررہے ہیں۔چنانچہ معاملے کی حساسیت کے پیش نظر میں نے آج کے کالم میںنوازشریف کی جے آئی ٹی کے روبرو پیشی سمیت کسی بھی متنازع موضوع پر بات نہیں کرنی۔میں آج جنوبی امریکہ کے چھوٹے سے ملک پیرو کا ذکر کرنا چاہتا ہوں جو ہے تو جمہوری ملک مگر وہاں ایک عرصے تک جمہوریت کے لبادے میں آمریت مسلط رہی ہے۔ایکواڈور،کولمبیا،برازیل ،بولیویااور چلی میں گھرا یہ ملک اب تو ترقی اور خوشحالی کی راہ پر گامزن ہے مگر ماضی میں اسے بدترین حالات کا سامنا رہا ہے۔البرٹو فیوجی مورجو 28جولائی 1990ء میں برسر اقتدار آئے،بظاہر تو جمہوری طریقے سے صدر منتخب ہوئے مگر بعد میں پیش آنے والے واقعات نے ثابت کیا یہ جمہوری عمل کٹھ پتلی تماشے کا حصہ تھا ۔البرٹو فیوجی جلد ہی مطلق العنان حکمران بن گئے اور انہوں نے دس برس تک دھونس،دھاندلی ،دبائو، تشدد، طاقت اور رشوت کے زور پر حکومت کی ۔ان کے دور اقتدار میں عوام کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کے لئے انتخابات بھی ہوتے رہے مگر عملاً البرٹو ہی پیرو میںسیاہ و سفید کے مالک رہے۔انہوں نے اپنے اقتدار کو برقرار رکھنے کی خاطر ملک کو بدعنوانی اور رشوت ستانی کی طرف دھکیل دیا ۔البرٹو فیوجی مور کی کامیابی کے پیچھے ملک کے سب سے بڑے حساس ادارے نیشنل انٹیلی جنس سروس کے سربراہ ولادی میر مونٹی سینو کا بہت بڑا ہاتھ تھا۔اس کی سربراہی میں اس خفیہ ادارے نے بااثر افرادکی ذاتی زندگیوں کا ریکارڈ مرتب کرنا شروع کیا۔اہم شخصیات کے فون ٹیپ کئے جاتے،ان کی نقل و حرکت پر نظر رکھی جاتی اور کمزوریاں تلاش کی جاتیں تاکہ وقت آنے پر انہیں آئینہ دکھا کر بلیک میل کیا جا سکے۔صرف یہی نہیں بلکہ ہر ادارے اور ہر فرد کی وفاداری کو دولت کے عوض خرید لیا جاتا ہے۔جو ترغیب اور دبائو کے ذریعے نہ پھانسا جا سکتا ،اسے انتہائی مہارت سے راستے سے ہٹا دیا جاتا۔
ولادی میر مونٹی سینو نے اپنے ادارے کی کارکردگی کا ریکارڈ بھی مرتب کروایا جو بعد میں تہلکہ خیز انکشافات کا سبب بنا ۔22نومبر 2000ء کو جب البرٹو فیوجی مور کی حکومت ختم ہوئی اور پیرو میں ایک مرتبہ پھر جمہوریت بحال ہوئی تو سب سے بڑے حساس ادارے نیشنل انٹیلی جنس سروس کا یہ خفیہ ریکارڈ منظر عام پر آگیا ۔اس خفیہ ریکارڈ نے سب کا پول کھول کر رکھ دیا ۔لیک ہونے والی ان دستاویزات سے معلوم ہوا کہ سیاست ہی نہیں، صحافت، وکالت اور عدالت سمیت تمام ادارے کٹھ پتلیاں ہلانے والوںسے اپنی قیمت وصول کر رہے تھے۔سپریم کورٹ کے جج صاحبان ان حقیقی ”گاڈفادرز‘‘ کی جیب میں پڑے رہتے اور ہر جج کو نیشنل انٹیلی جنس سروس کی طرف سے ماہانہ پانچ ہزارسے دس ہزار ڈالر نذرانہ پیش کیا جاتا ۔یوں ”گاڈفادرز‘‘ جب جسے ناک آئوٹ کرنا چاہتے عدالتی فیصلے کے ذریعے اسے دودھ میں سے بال کی طرح نکال کر باہر پھینک دیا جاتا۔جب کوئی پالتو اور وفادار سیاستدان بغاوت کی طرف مائل ہوتا ،احتساب کے نام پر اس کی مشقیںکس دی جاتیں اور اسے نشان عبرت بنادیا جاتا۔مختلف سیاسی جماعتوں کے قائدین ان کی مٹھی میں دھرے رہتے اور افادیت کے اعتبار سے ہر سیاستدان کو اس کی وفاداری کی قیمت اداکی جاتی۔چونکہ تلبیس اطلاعات کے اس زمانے میں پروپیگنڈا بہت اہمیت کا حامل ہے اور میڈیا لوگوں کی ذہن سازی میں کلیدی کردار ادا کرتا ہے اس لئے دور اندیش ”گاڈفادرز‘‘نے سب سے زیادہ سرمایہ کاری میڈیا کے شعبے میں کی۔لیک ہونے والی دستاویزات سے انکشاف ہوا کہ میڈیا انڈسٹری سے منسلک بیشتر اہم افراد کی حیثیت ایک ”حوالدار‘‘ کی سی تھی جو وہاں سے موصول ہونے والے احکامات کی روشنی میں رائے عامہ ہموار کرتے۔ایک موقع پر ایک بڑے میڈیا ہائوس کو 9ملین ڈالر جبکہ دوسرے مقبول ترین ٹی وی نیٹ ورک کو 10ملین ڈالر کی رقم رشوت کے طور پر دی گئی۔اسی طرح پرنٹ میڈیا کا منہ بھی دولت کے انبار سے بند کر دیا گیا۔ان دستاویزات سے معلوم ہوا کہ سب سے بڑے خفیہ ادارے نے ایک موقع پر ملک کے سب سے بڑے اخبار کو اپنا دست و بازو بنانے کے لئے ایک ملین ڈالر رشوت کے طور پر ادا کئے۔اخبار اور ٹی وی میں خبر لگوانے یا خبر رکوانے کے لئے باقاعدہ نرخنامہ طے تھا۔اخبار اور ٹی وی کی ریٹنگ کی مناسبت سے تین سے آٹھ ہزار ڈالر فی خبر ادا ئیگی کی جاتی۔مشاہرہ موصول کرنیوالے، رپورٹرز، کالم نگار اور اینکرز مداری کا اشارہ موصول ہوتے ہی ڈگڈگی بجانے لگتے اور پورے ملک میں بیک وقت ایک بیانئے کی ترویج و تبلیغ ہونے لگتی ۔خفیہ ادارے کے سربراہ ولادی میر مونٹی سینو کے وفادار جنرل بیلو نے ایک موقع پر اپنی اس پالیسی کی اہمیت بیان کرتے ہوئے کہا تھا”اگر ہم میڈیا کو کنٹرول نہیں کرتے تو اس کا مطلب ہے کچھ بھی ہمارے کنٹرول میں نہیں‘‘۔
جب میں نے پاناما کے ”گاڈفادرز‘‘ کے کارنامے پڑھے تو بہت حیرت ہوئی اور خیال آیا کہ بعض ”گاڈفادرز‘‘ کس قدر بودے اور شودے ہوتے ہیں؟ٹھیک ہے پھانسنے کے لئے کبھی دانہ بھی ڈالنا پڑتا ہے لیکن اس قدر ناز نخرے اٹھانے اور پھنس جانے والے پرندوں کو اس قدر عیش کروانے کی کیا ضرورت ہے؟یہ سب تردد اور تکلف کرنے کے باوجود بھی بیچارے ایک عشرے تک ہی اپنی کٹھ پتلیوں کونچا پائے ۔ارے صاحب!’گاڈفادر‘‘تو وہ ہوتے ہیںجو صاف چھپتے بھی نہیں اور سامنے آتے بھی نہیں۔ ان ”گاڈ فادرز‘‘ کاتونام ہی کافی ہوتا ہے اور لوگ ان کے رعب اور دبدبے سے تھر تھر کانپنے لگتے ہیں۔”گاڈ فادر‘‘ تو وہ ہوتے ہیں جن کی دہشت کا یہ عالم ہوتا ہے کہ لوگ ان کانام لینے سے یوں شرماتے ہیں جیسے کوئی نئی نویلی دلہن اپنے شوہر کا نام لینے سے ہچکچاتی ہے۔اس لئے انہیں کبھی ”اسٹیبلشمنٹ ‘‘ کے نام سے پکارا جاتا ہے ،کبھی نادیدہ قوتوں کا استعارہ استعمال کیا جاتا ہے ،کبھی خفیہ ہاتھ کہہ دیا جاتا ہے توکبھی کٹھ پتلیوں کے کھیل کہہ کر اشاروں کنایوں میں بات کی جاتی ہے۔بقول ماریو پوزو یہ دنیا اس قدر کٹھور اور ظالم ہے کہ اکلوتے باپ سے کام نہیں چلایا جا سکتا ،اس لئے لوگوں کو گاڈفادرز کی ضرورت پڑتی ہے۔ویسے میں سوچ رہا ہوں جس طرح ہر سال ”فادرز ڈے ‘‘ منایا جاتا ہے اور اس مرتبہ اتوار کو فادرز ڈے منایا جا رہا ہے تو کیوں نہ عالمی سطح پر ”گاڈفادرزڈے‘‘ منانے کا اہتمام بھی کیا جائے؟

جے آئی ٹی تعریف کی مستحق.. کالم ایاز امیر
گاڈفادرزڈے گاڈفادرزڈے گاڈفادرزڈے گاڈفادرزڈے گاڈفادرزڈے گاڈفادرزڈے گاڈفادرزڈے گاڈفادرزڈے گاڈفادرزڈے گاڈفادرزڈے گاڈفادرزڈے