گدھا شناسی اور گدھا پروری کا شکریہ
اگر ناگوار نہ گزرے تو آج ہم آپ کو اپنے ایک بغیر سینگوں والے کثیرالمقاصد جانور کے بارے میں کچھ بتائیں؟
اللہ معاف کرے! ہم دیہاتی لوگ اپنے گدھوں سے وہی ناروا سلوک روا رکھتے ہیں جو کسی نامعلوم ملک کے رہنما اور حکمران اپنے عوم سے۔ اگر کبھی آپ کو دور دراز دیہات کا سفر در پیش ہوا ہے تو آپ نے دیکھا ہو گا کہ سڑک کنارے جا بجا پناہ گزینوں جیسی صورت لیے ایک مخلوق لمبی رسیوں سے بندھی گھاس کھاتی نظر آتی ہے۔ یہ ہماری گدھیاں اور گدھے ہوتے ہیں۔ اب آپ سے کیا چھپانا، ہم نے انہیں جھانسہ دے کر مطمئن کیا ہوا ہے کہ انہوں نے یہ گھاس کھا کر ایٹم بم بنایا ہے، تاہم خدا کا شکر ہے کہ ہمارے گدھے جواب میں ہم سے یہ نہیں کہتے کہ ہر بوجھ ہماری ہی کمر پر کیوں لادا جاتا ہے اور تم خود کیوں من و سلویٰ اڑاتے ہو؟ گدھے تو خیر یہ بھی نہیں سوچتے کہ وہ برس ہا برس سے دوسرے جانوروں کے لیے بہترین چارہ اور خوراک ڈھونے کا فریضہ کیوں انجام دے رہے ہیں؟ نیز مالکوں کی طرف سے ذلت آمیز سلوک کے باوجود وہ بار برداری کے ہر موقع پر تازہ بہ تازہ اور نو بہ نو کیوں حاضر ہو جاتے ہیں؟ محض مثال کے طور پر عرض ہے، ہمارے گدھوں کو ایک آدھ دن کے لیے کسی کی استقبالیہ ریلی میں لے جانا تو معمولی بات ہے، آپ یقین فرمائیں کہ یہ ایسا بے زبان جانور ہے کہ اگر کبھی ہم انہیں ہانک کر کسی کے دھرنے میں لے جائیں اور وہاں مہینوں کھڑا رکھیں تو بھی یہ ہم سے نہیں پوچھیں گے کہ انہیں وہاں کس مقصد کے لیے لے جایا گیا اور اب واپس کیوں لایا گیا ہے؟ البتہ واپسی پر سر جھکا کر یہ ضرور کہیں گے ”شکریہ گدھا پرور‘‘!
براہِ کرم یہ نہ سمجھیے کہ ہم اپنے گدھوں کو بے وقوف ثابت کرنا چاہتے ہیں۔ وہ بے وقوف نہیں ، مہا بے وقوف ہوتے ہیں۔ ایک گدھا گاڑی نے چوک کا سرخ سگنل کراس کیا تو ٹریفک پولیس کے اہلکار نے اسے روک لیا۔ گدھا گاڑی کا ”ڈرائیور‘‘ ترلے کرنے لگا ”معاف کر دیں جناب! میں نے تو بہت کوشش کی مگر یہ گدھا رُکا نہیں، گدھا جو ہوا‘‘ سپاہی اسے معاف کرنے پر آمادہ نہ ہوا تو ڈرائیور نے اپنی بے گناہی کے مزید دلائل دیئے ”دیکھیں سر جی! یہ پہلا گدھا تو ہے نہیں جس نے ٹریفک کا سگنل توڑا ہو، گدھے تو ہمیشہ ہی سرخ بتیاں کراس کرکے نکل جاتے ہیں، گدھے جو ہوئے‘‘ بتانا یہ مقصود ہے کہ ہمارے گدھے کبھی ٹریفک قوانین کی پابندی نہیں کرتے، لائن نہیں بناتے، ایمبولینس کو راستہ نہیں دیتے، اخلاقیات کی پروا نہیں کرتے، صفائی کا خیال نہیں رکھتے، منتشر اور باہم برسرِ پیکار رہتے ہیں، باہمی احترام کی بجائے ایک دوسرے کو دولتیاں جھاڑنے میں دلچسپی رکھتے ہیں، سوچنے سمجھنے سے عاری ہوتے ہیں اور تخریبی شور شرابے یعنی ڈھینچوں ڈھینچوںکے عادی ہوتے ہیں۔ ہمارے خیال میں گدھوں کی ذہنی پرداخت میں کوئی نہ کوئی نقص ضرور ہے ورنہ وہ نسل در نسل گدھے ہی کیوں رہتے؟ تاہم اپنے تمام تر ناہنجار خصائصِ بالا کے باوجود گدھے صابر و شاکر مخلوق بھی واقع ہوئے ہیں۔
آج کل گدھوں کا گوشت کھانے کا رواج بھی فروغ پا رہا ہے۔ ہر روز میڈیا میں خبریں آتی ہیں کہ فلاں شہر میں گدھے کا گوشت فروخت ہو رہا ہے اور خوب نوچ نوچ کر کھایا جا رہا ہے۔ اس حرکت پر سب کو اعتراض ہے‘ سوائے گدھوں کے۔ خدا معلوم اس فیصلے کا کیا بنا، جس کے تحت گزشتہ گدھا پرور حکومت نے گدھوں کی نسل کو بچانے کے لیے ان کی کھالیں برآمد کرنے پر پابندی عائد کی تھی۔ اس کا ایک مقصد تو گدھے کے حرام گوشت کی فروخت کی حوصلہ شکنی کرکے ملک میں گدھوں کی مطلوبہ تعداد کو برقرار رکھنا تھا تاکہ وہ بوقت ضرور کام آئیں جبکہ دوسرا مقصد یہ تھا کہ ملک کے اندر گدھے کے چمڑے کی مصنوعات تیار کرکے زیادہ سے زیادہ غیر ملکی زرِ مبادلہ کمایا جا سکے؛ تاہم ہمارے گدھوں کو آج بھی کوئی اعتراض نہیں کہ ان کے چمڑے کو خام مال کی صورت یا مصنوعات تیار کرکے برآمد کیا جائے۔ انہیں تو ٹریفک سگنلز توڑنے اور ایک دوسرے کو دولتیاں جھاڑنے جیسی مصروفیات ہی سے فرصت نہیں۔
امریکیوں کی نسبت ہمارے گدھے منکسرالمزاج ہوتے ہیں۔ گزشتہ انتخابات میں وہاں ٹرمپ کے ہاتھی کے جیتنے کے باوجود ڈیموکریٹک کا گدھا سر بلند ہے اور اس کی قدر و منزلت میں کمی نہیں آئی؛ البتہ ہمارے ہاںکوئی گدھا بخوشی خود کو گدھا کہلوانا پسند نہیں کرتا۔ حتیٰ کہ اگر تمام گدھے مل کر سیاسی جماعت بنا لیں تو بھی وہ انتخابی نشان گدھا لینا ہرگز پسند نہیں کریں گے۔ یہاں پر ایک اور مسئلہ بھی ہے، چونکہ دو نمبری ہمارا تاریخی اثاثہ ہے، لہٰذا اکثر اصلی اور دو نمبر گدھوں میں فرق کرنا مشکل ہو جاتا ہے‘ جیسے ملا نصیرالدین نے منڈی میں جا کر گدھا خریدا اور اپنے گدھے پر بیٹھ کر، نئے گدھے کو اس کے پیچھے باندھے چل پڑے۔ راستے میں دو ٹھگ کھڑے تھے۔ ایک پچھلا گدھا کھول کر چلتا بنا اور دوسرا اس کی رسی اپنے گلے میں ڈالے ملا کے پیچھے چل پڑا۔ گھر پہنچ کر ملا نے دیکھا تو بہت حیران ہوئے۔ ”گدھے‘‘ نے ان کی حیرانی دور کرتے ہوئے انکشاف کیا کہ میں انسان ہوں مگر ماں کی نافرمانی سے گدھا بن گیا، اب ایک نیک انسان نے مجھے خریدا تو دوبارہ انسان بن گیا۔ ملا نے اسے توبہ کرنے اور آئندہ ماں کی فرمانبرداری کرنے کی شرط پر چھوڑ دیا۔ دوسرے دن ملا نصیرالدین دوبارہ منڈی گئے تو وہی گدھا کھڑا تھا۔ انہوں نے غصے سے اس کا کان پکڑ کر کہا ”کم بخت! تم نے وعدہ خلافی کی، پھر ماں کا کہنا نہ مانا… لعنت ہو تم پر‘‘۔ ملا تو کب کے گزر چکے لیکن تاریخ کا فیصلہ ابھی باقی ہے کہ اصل گدھا ملا خود تھا یا گدھا؟ اسی تناظر میں اکبر لہوری ؔ نے یہ نظم کہی تھی:
اک بندہ سی نموجھانا منڈی وِچ کھلوتا
آکھے مینوں لوڑی دا اے اک بندہ، اِک کھوتا
کسی کیہا لے یارا تینوں ایسی چیز دوائیے
جو بندے دا بندہ ہووے تے کھوتے دا کھوتا
اوہنے کیہا ایہہ گل نئیں مینوں اُکا وَارا کھاندی
اِکو جنس لوڑیندی مینوں، اُٹھ ہووے یا بوتا
مر جَاواں پر دوغلیاں دے ویہڑے پیر نہ پاواں
بندہ اصلی بندہ لوڑاں تے کھوتا اصلی کھوتا
ہماری ناقص فہم کے مطابق ہمارا سب سے بڑا مسئلہ ہی یہی ہے۔ اس ملک میں حقیقی تبدیلی اس دن آئے گی، جب ہم لوگوں کو اصلی بندے اور اصلی کھوتے کی پہچان کا فن آ گیا۔ ویسے تب تک اس بات شکر ادا کرتے رہنا چاہیے کہ ہمارے گدھوں کے ووٹ نہیں بنے، ورنہ جن کی اپنی عزت کوئی نہیں، ان کے ووٹ کی کیا خاک حرمت ہوتی؟ کوئی بھی سیاسی رہنما ان کے ووٹ کو بے توقیر کرنے کی خاطر کہہ سکتا تھا کہ میرے مخالف کو ووٹ دینے والے گدھے ہیں۔ کیا عجب کہ ہمارے گدھوں کے ووٹ لے کر یہ رہنما نجی محفلوں میں قہقہے لگاتے اور ایک دوسرے کے ہاتھ پر ہاتھ مارتے ہوئے کہتے کہ ہمیں ووٹ دینے والے بھی تو گدھے ہی ہیں؟ جواب میں گدھے حسب عادت سر جھکا کر یہی کہہ سکتے تھے… گدھا شناسی اور گدھا پروری کا شکریہ حضور!
اس ملک میں حقیقی تبدیلی اس دن آئے گی، جب ہم لوگوں کو اصلی بندے اور اصلی کھوتے کی پہچان کا فن آ گیا۔ ویسے تب تک اس بات شکر ادا کرتے رہنا چاہیے کہ ہمارے گدھوں کے ووٹ نہیں بنے، ورنہ جن کی اپنی عزت کوئی نہیں، ان کے ووٹ کی کیا خاک حرمت ہوتی؟