گرمیوں کے الیکشن میں ٹھنڈ پروگرام….خالد مسعود خان
الیکشن میں اب صرف چھ دن باقی ہیں۔ میں یہاں آسٹریلیا میں ہوں لیکن روزانہ کم از کم آدھا گھنٹہ ملتان میں دو عدد دوستوں سے ضرور بات ہوتی ہے۔ مقصد اور کچھ نہیں صرف اور صرف ملتان کی سیاسی صورتحال کے بارے میں تازہ ترین معلومات لیتا ہوں۔ گزشتہ دو روز سے ان میں سے ایک دوست باقاعدہ تنگ آ چکا ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ کیا روزانہ تم ملتان کے چھ قومی حلقوں بارے ایک ہی بات کا پتا کرتے رہتے ہو۔ بولا دو چار دن میں کیا صورتحال تبدیل ہو سکتی ہے؟
لیکن ایک بات طے ہے کہ اس سے ٹھنڈے الیکشن کم از کم ہم نے اپنی ہوش میں تو نہیں دیکھے۔ اوپر سے گرمی بے تحاشا ہے۔ صبح کے وقت کارنر میٹنگز اور کیمپین ہوتی ہے اور پھر شام کو۔ لیکن یہ بات بھی پہلی بار نہیں ہوئی۔ ملتان اور گرمی لازم و ملزوم ہیں اور ملتان والے بھلا گرمی سے کب گھبراتے ہیں؟ اگر ملتان والے گرمی کے خوف سے کام چھوڑ دیں تو کام کیسے چلے گا؟ گرمی میں پہلے بھی الیکشن آئے ہیں مگر محض گرمی سے ایسا کبھی نہیں ہوا کہ الیکشن اتنے ٹھنڈے ہو جائیں۔ ملتان کے چھ حلقے ہیں۔ میرا مطلب ہے‘ چھ قومی حلقے ہیں۔ ان چھ حلقوں میں سے ایک حلقے میں تو مسلم لیگ محض پراکسی لگوا رہی ہے۔ یہ پراکسی حلقہ این اے 154 ہے اور یہاں سے انہوں نے گزشتہ الیکشن میں پی ٹی آئی کی طرف سے الیکشن لڑنے والے سلمان قریشی کو بالکل آخری دن ٹکٹ دے کر اپنی جان چھڑوائی ہے۔ تین حلقوں سے پیپلز پارٹی فارغ ہے۔ چھ میں سے تین حلقوں میں پیپلز پارٹی ٹھیک نظر آ رہی ہے اور پیپلز پارٹی بھی کیا؟ گیلانی خاندان ہی ہے جو نظر آ رہا ہے۔ این اے 154 میں عبدالقادر گیلانی، این اے 157 میں علی موسیٰ گیلانی اور این اے 158 میں خود سید یوسف رضا گیلانی ہیں۔ ایمانداری کی بات ہے کہ کسی قسم کی بیرونی مداخلت، خلائی مخلوق کی مدد اور پری پول رگنگ وغیرہ کا کوئی الزام کم از کم ملتان کی حد تک تو نظر نہیں آ رہی۔
پی ٹی آئی کے چھ امیدواران چھ قومی حلقوں میں زور آزمائی کر رہے ہیں۔ ان چھ امیدواروں میں سے چار امیدواروں کو تو اب پرانا ہی کہنا چاہئے۔ شاہ محمود قریشی، محمد ابراہیم خان اور احمد حسین ڈیہڑ کو تو اب پرانا ہی تصور کیا جا سکتا ہے۔ بلکہ گزشتہ ایک الیکشن (ضمنی) پی ٹی آئی کی طرف سے لڑنے کے بعد عامر ڈوگر کو بھی پرانا ہی کہنا چاہئے۔ زین قریشی پیدائشی پی ٹی آئی کا ہی سمجھیں۔ شاہ محمود قریشی کا صاحبزادہ اپنی سیاسی زندگی کا پہلا الیکشن پی ٹی آئی کی طرف سے لڑ رہا ہے۔ اس سے پہلے اس کی کسی سیاسی پارٹی سے وابستگی نہیں رہی۔ لہٰذا چھ میں سے پانچ امیدوار تو وہ ہیں جو پی ٹی آئی کے پرانے ورکر ہیں۔ صرف ایک امیدوار رانا قاسم نون‘ جو حلقہ این اے 159 سے پی ٹی آئی کا امیدوار ہے ”الیکٹ ایبل‘‘ والی تشریح کے زمرے میں آتا ہے۔ اب الیکٹ ایبل سے مراد گزشتہ الیکشن والے لوٹے ہیں۔
مسجد میں مولوی صاحب نے اعلان کیا کہ کل رات کوئی مسجد کے باتھ رومز سے تین الیکٹ ایبل چوری کر کے لے گیا ہے‘ لوگوں میں خوفِ خدا بالکل ہی ختم ہو گیا ہے۔
اگر این اے 154 سے ملک سکندر بوسن کو پی ٹی آئی کا ٹکٹ مل جاتا تو یار لوگوں کو یہ موقعہ مل جاتا اور وہ کہہ سکتے کہ ملتان کے اس حلقہ سے کسی نے پی ٹی آئی کے لیے الیکٹ ایبل کا بندوبست کر دیا تھا مگر ملک سکندر بوسن اس حلقے سے بہر حال پی ٹی آئی کا ٹکٹ حاصل نہ کر سکا۔ اس میں بھی اس کی ذاتی غلطیوں کا زیادہ دخل ہے۔ اگر وہ صرف دس پندرہ دن پہلے اپنی وفاقی وزارت سے مستعفی ہو کر بنی گالہ میں مفلر گلے میں ڈال لیتا تو کوئی مائی کا لعل اس کی ٹکٹ نہیں روک سکتا تھا‘ مگر وہ آخری دن تک نہ صرف وزارت کے مزے لیتا رہا بلکہ اکتیس مئی کو حکومت کی رخصتی کے بعد بھی پی ٹی آئی میں باقاعدہ شمولیت اختیار کیے بغیر ٹکٹ کے حصول کی کوشش کرتا رہا‘ اور ایک بار تو ٹکٹ اسے مل بھی گیا مگر پھر واپس ہو گیا۔ خیر یہ اب سب ماضی ہے۔ حال یہ ہے کہ ملتان کے چھ میں سے پانچ حلقوں میں پی ٹی آئی کے امیدوار اس کے پرانے یعنی ”نان الیکٹ ایبل‘‘ امیدوار ہیں۔ ایک امیدوار براستہ بٹھنڈہ آیا ہے یعنی ”جنوبی پنجاب صوبہ محاذ‘‘ کے نام پر آنے والوں میں شامل ہے اور ٹکٹ ماری ہے۔
نام لیے بغیر میں ملتان کے امیدواروں کی مجموعی صورتحال بتاتا چلوں کہ چھ میں سے پانچ حلقوں میں پی ٹی آئی کی پوزیشن فی الحال بہتر ہے۔ لفظ ”فی الحال‘‘ صرف اس لیے استعمال کیا ہے کہ ابھی الیکشن میں چھ دن باقی ہیں۔ بقول شاہ جی‘ الیکشن میں چلنے والی ”ہوا‘‘ بڑے بڑوں کے اندازوں پر پانی پھیر دیتی ہے۔ حالانکہ اب ہوا چلنے کا نہ تو وقت باقی رہا ہے‘ اور نہ ہی کوئی جواز باقی ہے‘ مگر احتیاط کا تقاضا یہی ہے کہ منہ سے بڑی بات نہ نکالی جائے۔ ویسے بھی دعویٰ خام خیالی کے علاوہ اور کچھ نہیں۔
جو صورت نظر آ رہی ہے اس کے مطابق تو مسلم لیگ ن کو ملتان سے شاید ایک سیٹ بھی نہ ملے۔ ہاں یہ ممکن ہے کہ پیپلز پارٹی ایک سیٹ نکال لے۔ شروع میں زین قریشی کی حالت زیادہ اچھی نہیں لگتی تھی مگر اس کے نتیجے دونوں ایم پی ایز یعنی ملک مظہر راں اور ڈاکٹر اختر ملک کی پوزیشن بہت ہی اچھی ہے۔ بلکہ یہ کہنا زیادہ مناسب ہے کہ ان دونوں امیدوارانِ صوبائی اسمبلی کے مقابلے کے امیدوار بہت ہی ہلکے ہیں۔ مسلم لیگ ن کے گزشتہ الیکشن میں خاصی بھاری اکثریت سے جیتنے والے دودھ فروش امیدوار غفار ڈوگر کی حالت خاصی پتلی ہے‘ اور اس کی واحد وجہ صرف یہ نہیں کہ اس کی حلقے میں شہرت بڑی خراب ہے بلکہ یہ بھی ہے کہ اس نے اپنے نیچے دونوں صوبائی امیدواروں سے ”جاتے چور کی لنگوٹی سہی‘‘ کے مصداق نقدی لے کر ٹکٹیں دلوائی ہیں۔ سو نتیجہ بھی وہی نکلنے کی امید ہے جو نظر آ رہا ہے۔ ان دو امیدواروں میں ایک تو وہی جعلی کھاد فروش رانا اقبال سراج ہے جس کے طفیل ”محکمہ زراعت‘‘ کو عالمی شہرت نصیب ہوئی۔
تین سیٹوں پر پی ٹی آئی کا مقابلہ کم از کم مسلم لیگ ن سے تو نہیں ہے۔ شہر کی دو سیٹوں اور ایک نواحی سیٹ پر البتہ پی ٹی آئی کا مقابلہ مسلم لیگ ن سے ہو گا۔ میرا مطلب ہے دوسرے نمبر پر مسلم لیگ ن رہے گی‘ لیکن ملتان کی چھ قومی اسمبلی کی نشستوں میں سے فی الحال مجھے مسلم لیگ ن کسی بھی سیٹ پر جیتتی نظر نہیں آ رہی۔ صوبائی نشستوں کا کچھ کہا نہیں جا سکتا۔ احسان الدین قریشی کی طرح ممکن ہے دو تین امیدوار مقابلہ کر جائیں اور سیٹ نکال لیں لیکن بقول شاہ جی مسلم لیگ ن والوں کا مورال بڑا ڈائون ہے اور میاں نواز شریف کی آمد اور گرفتاری کے بعد تو یہ مورال مزید ڈائون ہو گیا ہے اور روز بروز یہ صورتحال ٹھیک ہونے کے بجائے مزید خراب ہوتی جا رہی ہے۔
ڈیڑھ دو ماہ ہوتے ہیں امریکہ سے شفیق نے اپنا تفصیلی تجزیہ ارسال کیا تھا اور ملتان کی چھ قومی نشستوں میں سے مسلم لیگ ن کو تین اور پی ٹی آئی کو محض دو نشستوں پر کامیاب قرار دیا تھا۔ ایک نشست “OTHERS” کے کھاتے میں ڈال دی تھی۔ دیکھتے ہیں اس کا تجزیہ درست نکلتا ہے یا اس عاجز کا لیکن وہی بات… دعویٰ ہرگز نہیں‘ محض اندازہ‘ اس کے علاوہ اور کچھ نہیں۔
الیکشن میں صرف چھ روز باقی ہیں۔ اس الیکشن میں نظریاتی کشمکش، پیسہ، الیکٹ ایبلز، خلائی مخلوق اور اداروں کی مداخلت کے باوجود نہ گہما گہمی ہے اور نہ ہی گرما گرمی۔ اگر گرمی ہے تو صرف ملتان کی۔ اس لا تعلقی کا کیا سبب ہے؟ یہ جاننا بہت ضروری ہے‘ وگرنہ آئندہ الیکشنوں کو چھوٹی سی اقلیت اغوا کر لیا کرے گی۔ اس کا توڑ نہایت ضروری ہے۔