منتخب کردہ کالم

گرمی اور گرما گرمی…!! (سچ یہ ہے) الیاس شاکر

کراچی اس وقت چومکھی لڑائی لڑرہاہے،ایک طرف سڑکوں کا براحال ہے تو دوسری جانب انہی سڑکوں پرلوگ پانی کی خالی بوتلیں‘مٹکے اور دیگر سازوسامان اٹھائے احتجاجی مظاہرے بھی کررہے ہیں۔سونے پہ سہاگہ یہ کہ موسم بھی کراچی والوں کو دوپہر بارہ سے سہ پہر تین بجے تک باہر نکلنے نہیں دے رہا ۔ گرمی جیسے ہی بڑھی تو حسب روایت بجلی غائب ہو گئی ۔کراچی کا ہر پارہ ہائی ہے۔ چاہے وہ سیاسی ہو یا پھر تھرمامیٹر کا!!سندھ کے حکمرانوں کے بعد اب سورج نے بھی کراچی کو آنکھیں دکھانا شروع کردی ہیں۔”ٹمبر مافیا‘‘نے کراچی سے اتنے درخت کاٹے ہیںکہ اب موسم ”کنٹرول‘‘میں آنامشکل ہے ،نئے درخت لگائے ہی نہیں گئے کہ جون اور جولائی کو برداشت کیا جاسکتا ۔اب تو اپریل پر بھی جون کا شبہ ہونے لگا ہے۔جس اپریل میں ملکہ کوہسار مری میں برف باری ہورہی ہو وہیں شہر قائد کا درجہ حرارت 42ڈگری سینٹی گریڈ کو چھورہا ہے ۔سندھ حکومت نے کراچی کے شہریوں کے مقدرمیں گزشتہ دو سال سے مٹی اور دھول لکھ رکھی ہے ۔ٹھیکیداروں کوجو ادائیگیاں کی جانی تھیں وہ کہیں ”اور‘‘کردی گئیں اور اب کئی ترقیاتی کام ٹھپ پڑے ہیں ۔ملیر فلائی اوور اورگولیمار انڈر پاس منصوبے تو کسی صورت مکمل ہوتے نظر نہیں آرہے ۔ سڑکیں چوڑی کرنے کا منصوبہ کراچی والوں پر ایسا بھاری پڑرہا ہے کہ انہیں اب پرانی سڑکیں ہی یاد آرہی ہیں ۔
تھائی لینڈ اور دبئی میں ”جنات ‘‘کام نہیں کرتے لیکن وہاں کے عوام اور سیاحوں کو کسی لمحے تکلیف اور پریشانی کا احساس تک نہیں ہوتا ۔ترقیاتی کاموں والی جگہیں اس طرح ”سیل‘‘کی جاتی ہیں کہ وہاں کے پڑوسیوں کو بھی مٹی اور دھول کا ”ذائقہ‘‘تک نہیں چکھنا پڑتا۔وہاں مٹی ڈھونڈے سے بھی نہیں ملتی۔ وہاںبڑے بڑے پروجیکٹ راتوں رات کھڑے کردیئے جاتے ہیں۔اس کے برعکس سندھ حکومت نے سست ترین پروجیکٹس بناکر ریکارڈ قائم کئے ہیں۔ سندھ حکومت پھرتی بھی دکھاتی ہے لیکن اس کیلئے ایک شرط ہے کہ کوئی ایسا قدیم اسکول گراناہوجس میں ہزار سے زائد بچے زیر تعلیم ہوں تویہ کام چند گھنٹے میں باآسانی ہوسکتا ہے۔ہم اتنے تخریبی ہوچکے ہیں کہ تعمیرہمارے لئے مشکل ترین عمل بنتا جارہا ہے ۔سندھ کے آثار واقعی آثار قدیمہ والے ہیں،بنی بنائی سڑکیں اُکھاڑ کر ان سے بھی خراب سڑک بنوانی ہوں تو حکومت سے رابطہ کیا جاسکتا ہے ۔شارع فیصل کا ”سیمپل‘‘سب کے سامنے ہے۔
کراچی میں سیاسی جماعتوں کااحتجاج روز بروز بڑھتا جارہا ہے۔شہر قائد میں جتنے مسائل ہیں اس کیلئے تو احتجاج کی ”سیریز‘‘شروع ہوتی نظر آرہی ہے ۔پہلے جماعت اسلامی سڑکوں پر نکلی پھر ایم کیو ایم پاکستان کا وائٹ پیپر سامنے آگیا ۔ اس کے بعد پاک سرزمین پارٹی نے بھی کراچی کے مسائل کی فہرست کراچی پریس کلب کے باہر آویزاں کی اور دھرنا دے دیا۔ایم کیو ایم پاکستان بھی احتجاج کیلئے آستینیںچڑھارہی ہے۔ایسی صورتحال میں پیپلز پارٹی کے لیے سندھ حکومت چلانا بھی مشکل ہوجا ئے گا۔ کراچی کی سیاسی جماعتوں کو واقعی شہر کے مسائل حل کرانے ہیں تو آپس میں اتحاد کرنا پڑے گا ۔ایک دوسرے کے ساتھ اختلافات بالائے طاق رکھتے ہوئے صرف ”ون پوائنٹ ایجنڈا‘‘پر متفق ہونا پڑے گا۔کبھی ایک جماعت احتجاج کرے اور کبھی دوسری تو مسائل اپنی جگہ ہی رہتے ہیںلیکن ”پوائنٹ اسکورنگ‘‘کا الزام ضرور لگ جاتا ہے۔
سندھ حکومت کا ”ڈبل اسٹینڈرڈ‘‘بھی گزشتہ دنوں سامنے آیا جب اس نے جماعت اسلامی کے احتجاجی دھرنے پر لاٹھی چارج کروایا ۔ایم کیو ایم پاکستان کے وائٹ پیپر کے جواب میں پوری پیپلز پارٹی میدان میں آگئی اور درجنوں وائٹ پیپرز جاری کرنے کی دھمکی دے دی لیکن اس کے برعکس پاک سرزمین پارٹی کے سا تھ مفاہمتی پالیسی اختیار کی گئی ۔وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ نے صوبائی وزیر ٹرانسپورٹ ناصر حسین شاہ کو بھیجااور معاملات طے کرنے کی کوشش بھی کی گئی ۔
بلدیاتی نمائندے بھی سندھ حکومت سے ناراض ہیں ۔ان کو اختیارات دینے کی بجائے صفائی ستھرائی کیلئے جہاں ایک جانب چینی کمپنی کو ٹھیکہ دیا گیا ہے تو دوسری جانب ایک کنسٹرکشن کمپنی کو ضلع وسطی کی صفائی کا کام سونپا گیا ۔بڑے بڑے انجینئرز کچرے کا ”سائز‘‘ناپ کر اُسے اٹھاتے رہے اور پھر باغ ابن قاسم بھی اسی کمپنی کے حوالے کردیا گیا جس پر عدلیہ کو مداخلت کرنا پڑی اور باغ ابن قاسم بھی ”اسٹے آرڈر‘‘پر آگیا۔سندھ پاکستان کا واحد صوبہ ہے جہاں سب سے زیادہ حکومتی فیصلے ”اسٹے آرڈر‘‘کا شکار ہورہے ہیں ۔آئی جی سندھ بھی اب تک ”اسٹے آرڈر‘‘پر ہیں ۔
سندھ حکومت کو چاہیے کہ وہ بلدیاتی اداروں سے تنائو کی کیفیت کو ختم کرے اور صلح کرلے ۔اس سے سندھ حکومت کوبہت فائدہ ہوگا لیکن ایسا لگتا ہے کہ اتنی گہرائی سے سوچنے والا سندھ حکومت میں کوئی بھی نہیں ۔نہ ہی کسی کو اس بات کی فکر ہے کہ سندھ کے اندر کھنچائو کی فضا ختم ہو۔سندھ کی صنعتی ترقی کیلئے ضروری ہے کہ یہاں پر حکومت ‘ بلدیہ اور عوام کا ”ٹرائکا ‘‘مل کر صوبے کی خدمت کرے اور ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کی سیاست سے گریز کیا جائے تا کہ صحیح معنوں میں ایک ایسا پر امن ماحول تخلیق پا جائے جس کا بنیادی مقصد سندھ میں صنعتی ترقی کے رکے ہوئے پہیے کو رواں دواں کرنا ہو۔
کراچی سمیت سندھ بھر میں آبادی بڑھ رہی ہے،کارخانے ‘ صنعتیں اور تجارتی ادارے بند ہورہے ہیں اور نئے بھی نہیں لگ رہے۔ضرورت اس امرکی ہے کہ سندھ کی صنعت و تجارت میں زرخیزی لائی جائے تاکہ نئی نسل کیلئے روزگار کے مواقع پیدا ہوں جس معاشرے میں نوجوان نسل بے روزگار ہوتی ہے وہ معاشرہ مسلسل بے چین رہتاہے ۔ابھی تک کوئی ایسا ”رستم خان‘‘پیدا نہیں ہواجو اخباری بیانات کے ”شعلوں‘‘سے کسی صوبے کو خوشحال صوبہ ڈیکلیئرڈ کردے اور زمانہ اُسے مان بھی لے۔کراچی سمیت سندھ بھر میں گرمی کی لہر کا مقابلہ تو نہیں کیا جاسکتا لیکن اس سے بچنے کی تدابیر ضرور کی جاسکتی ہیں،کہیں ماضی کی طرح” ہیٹ اسٹروک‘‘ایک بار پھر سندھ کو اپنے نشانے پر نہ لے لے۔