منتخب کردہ کالم

گرمی ‘بجلی اورکے الیکٹرک!!…الیاس شاکر

انٹرنیشنل کرکٹ کی واپسی کا سہرا ؟

گرمی ‘بجلی اورکے الیکٹرک!!

کراچی ایک بار پھر اُسی عذاب سے دوچار ہے۔ جس سے سردی نے تین ماہ کیلئے نجات دلائی تھی۔کراچی میں تو موسم کا اندازہ بھی بجلی کی ”گمشدگی‘‘سے ہوجاتا ہے ۔ کسی سے پوچھنا نہیں پڑتا کہ آج گرمی زیادہ ہے؟ بلکہ پنکھوں کا ٹھہرائو اور”سیاہ بلب ‘‘درجہ حرارت تک بتادیتے ہیں۔ عالم اسلام کے سب سے بڑے اِس شہر کا کیا ہوگا کسی کونہیں معلوم؟ سب گناہ گار اور قصور وار ہیں؟ شکوہ تو اپنوں سے کیا جاتا ہے، لیکن یہاں تو کوئی اپنا نظر ہی نہیں آتا۔ مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی تو کراچی دشمن جماعتیں ہیں ، لیکن ایم کیو ایم جو خود کو کراچی کا ہمدردکہتی نہیں تھکتی تھی، اس نے بھی کراچی کے ساتھ کوئی اچھا سلوک نہیں کیا۔ کراچی کو ٹارگٹ کلنگ سے نجات دلانے والی فوج ہے ۔ بھتہ خوروں کو ان کے ”بلوں‘‘میں واپس بھی فوج نے بھیجا۔ آج کا پرامن کراچی صرف اور صرف پاک فوج کی وجہ سے ہے ۔ جو یہ کہتے ہیں کراچی میں امن انہوں نے قائم کیا، وہ صرف ایک بات کا جواب بھی نہیں دے پاتے کہ بارہ مئی 2007ء کو جب پرویز مشرف اسلام آباد میں مکے لہرارہے تھے، اس وقت وہ تمام سیاستدان کہاں تھے اورکراچی میں امن قائم کیوں نہیںکر پارہے تھے؟
روشنیوں کے شہر کراچی کی سب سے بڑی بدقسمتی یہ ہے کہ اِس کی روشنیاں ہی ”پرائیوٹائزڈ‘‘کردی گئیں۔ پی ٹی سی ایل کی نجکاری سے کسی پر کوئی خاص فرق اس لئے نہیں پڑا کہ اسی عرصے کے دوران موبائل فون آگئے اور وائرلیس فون نے تاروں کا جھنجھٹ خود ہی ختم کردیا۔ پی ٹی سی ایل کی لینڈ لائنز صرف دفاترکے استعمال کیلئے رہ گئیں۔ جو لوگ پی ٹی سی ایل کا بل نہیں بھرتے تھے، وہ موبائل فون میں ہزاروں روپے کے کارڈ لوڈ کررہے ہیں ۔اور ان کی جیب پر یہ بھاری بھی محسوس نہیں ہورہا۔ پی آئی اے کی نجکاری اب تک نہیں کی گئی، حالانکہ اس سے کراچی کو خاص فرق نہیں پڑے گا۔ یہی صورتحال پاکستان اسٹیل ملز کی ہے۔ ان اداروں کی نجکاری سے وہاں کام کرنے والے لوگ اور ان کے خاندان ضرور متاثر ہوں گے، لیکن کے ای ایس سی کی نجکاری دراصل پورے کراچی کی نجکاری ہے۔ ڈھائی کروڑ آبادی کو مفلوج کردیا گیا ۔ پورے ملک میں بجلی سستی ہوتی ہے ۔ یونٹس کے ریٹ کم کئے جاتے ہیں ۔ کوئی اور اسکیم بھی متعارف کرائی جاتی ہے، لیکن اس کا اطلاق کراچی والوں پر نہیں ہوتا۔ ایسا لگتا ہے کہ کراچی پاکستان کا حصہ ہی نہیں۔
کراچی میں ابھی گرمی کا آغاز بھی نہیں ہوا کہ بجلی اپنے انجام کو پہنچ گئی۔ کے الیکٹرک نے 36سے 38ڈگری سینٹی گریڈ کا بھی وہ فائدہ اٹھانے کی کوشش کی کہ اللہ کی پناہ۔ ابھی چوالیس اور پچاس ڈگری کی گرمی ایک سے ڈیڑھ ماہ کے فاصلے پر ہے۔ بجلی کا بل ادانہ کرنے والے صارفین پر قہر بن کر ٹوٹنے والی کے الیکٹرک خود سوئی سدرن گیس کمپنی کی نادہندہ ہے، لیکن کمال ہوشیاری دیکھئے کہ کراچی میں گرمی کے آغاز کے ساتھ ہی کے الیکٹرک کی جانب سے غیر اعلانیہ لوڈشیڈنگ میں اضافہ کردیا گیا۔ کے الیکٹرک نے سوئی سدرن پر گیس کم فراہم کرنے کا الزام لگایا ہے۔ بتایا گیا ہے کہ 100 ایم ایم سی ایف ڈی گیس شارٹ فال سے پلانٹس متاثر ہیں اورگیس سپلائی میں کوئی بہتری نہیں آرہی۔ صارفین سے رسمی معذرت کے ساتھ کے الیکٹرک نے ”مجبوراً اضافی لوڈشیڈنگ‘‘جاری رکھی ہوئی ہے۔ جب کہ سوئی سدرن کا کہنا ہے کہ کے الیکٹرک لوڈشیڈنگ میں اضافے کا ذمہ اسے نہ ٹھہرائے ۔
یہ بھی کراچی کے ساتھ اْسی ”پرانی دشمنی‘‘کا نتیجہ ہے جو پہلے وفاق اور اب سندھ حکومت نے جاری رکھی ہوئی ہے۔ جب کے ای ایس سی کی نجکاری کی جا رہی تھی تو بوسیدہ نظام کی جگہ نئے نظام کی تنصیب کی یقین دہانی کرائی گئی، لیکن جس وقت کاپر کے تار ہٹا کر المونیم کے تار لگائے جا رہے تھے توکراچی کے بیشتر شہری ”گیم ‘‘سمجھ چکے تھے، لیکن پیپلز پارٹی ‘ ایم کیو ایم اوراے این پی تینوں جماعتیںاُس وقت خاموش رہیں ۔اور وہی ”مجرمانہ خاموشی‘‘آج کراچی کے شہریوں کیلئے چھوٹے عذاب سے بڑے عذاب میں تبدیل ہورہی ہے ۔ آج وہی المونیم کے تار نہ 45 ڈگری کی گرمی برداشت کر سکتے ہیں اور نہ ہی بارش کی چند بوندیں۔ پورے شہر سے تانبے کے تار اُتار کر فروخت کرنے سے اربوں روپے وصول کئے گئے جس کا ذکر کے الیکٹرک کی کسی سالانہ رپورٹ میں نہیں ہے۔ ان تانبے کے تاروں کی جگہ لوہے کے تاروں کے لائن لاسز بھی زیادہ ہیں اور ان کی مدت بھی محض دس برس ہے۔ چونکہ یہ تار جلد گرم ہوجاتے ہیں اس لیے فالٹس کی تعداد بھی بڑھتی جارہی ہے۔
کے ای ایس سی کی نجکاری کراچی کے ڈھائی کروڑ شہریوں کا سودا تھا، کیونکہ یہ سب بجلی کے صارفین تھے۔ یہ نہ ہوتے تو سودا بھی نہ ہوتا۔ جو حکومت اور ایک پرائیویٹ ادارے کے درمیان ہوا۔ کے الیکٹرک کا دعویٰ ہے کہ یہ لائن لاسز کو چالیس فیصد سے کم کرکے پچیس فیصد پرلے آئی ۔ مگر لائن لاسزکم کرنے کی ترکیب تودیکھیں ۔ سوکھی لکڑیوں کے ساتھ گیلی لکڑیاں جلنے کا محاورہ آپ نے ضرور سنا ہوگا، لیکن کے الیکٹرک نے اس پر عمل کر کے دکھایا۔ جتنی بجلی جس علاقے میں چوری ہوتی ہے وہ سارا بل کے الیکٹرک اس علاقے کے تمام صارفین پر تقسیم کرکے وصول کرلیتی ہے۔ یہ نسخہ کمپنی پہلے روز سے استعمال کررہی ہے۔ بجلی چوری نہ کرنے والے صارفین کا کیا قصور ہے؟ لیکن کے الیکٹرک اپنی نااہلی کی سزا بھی باقاعدگی سے بل اداکرنے والوں کوہی دیتی ہے۔ کے الیکٹرک پر مجموعی طور پر مختلف قرضے ہیں۔ جن میں این ٹی ڈی سی‘ پی ایس او‘ سوئی سدرن گیس شامل ہیں۔ کے الیکٹرک خود تو بھاری لیٹ سرچارج وصول کرتی ہے، مگرقرضہ دینے والے ان اداروں کو کسی بھی قسم کا سود یا سرچارج دینے پر راضی نہیں ہوتے۔یہ بھی اطلاعات ہیں کہ کے الیکٹرک نے حکومت پاکستان سے سیکڑوں ارب روپے زرتلافی اور قرض کے نام پر بٹور رکھے ہیں۔
سوال یہ نہیں کہ کے الیکٹرک یہ سب کچھ کرتی رہی۔ بلکہ اصل سوال یہ ہے کہ کے الیکٹرک یہ سب کچھ کیسے کرتی رہی؟ یہ سب مشرف‘زرداری ‘ نواز شریف اورالطاف حسین کی مرضی کے بغیر ممکن ہی نہیں تھا۔ نچلی سطح پر بیورو کریسی کو خریدا گیا۔ عوام کو قابو کرنے کیلئے ایم کیو ایم ‘ پیپلزپارٹی اور اے این پی کی لیڈرشپ کو بھاری تنخواہوں پر نوکری کی رشوت پیش کی گئی۔ انگریز برصغیر میں صرف پانچ ہزار تھے، لیکن وہ ہندوستانیوں کے تعاون سے سو برس سے زائد حکومت کرتے رہے ۔ یہی صورتحال کے الیکٹرک کی بھی ہے۔ یہ بھی آج کی ایسٹ انڈیا کمپنی بنتی جارہی ہے ۔کے الیکٹرک نے بجلی کا بل بھی تبدیل کرلیا۔ نئے بل کو دیکھ کربخوبی اندازہ ہوجاتا ہے کہ کے الیکٹرک کی پوری توجہ وصولی پر ہے۔ اگراس سے آدھی توجہ بھی بجلی پیدا کرنے پر دی جاتی تو آج کراچی لوڈشیڈنگ فری ہوچکا ہوتا۔
سمجھنے والے وزیراعلیٰ سندھ کااب تک کے الیکٹرک کی طرف جھکائو بخوبی سمجھ رہے ہیں۔ مراد علی شاہ کے الیکٹرک کے ترجمان بنے ہوئے ہیں ۔ وزیراعلیٰ سندھ نے وزیر اعظم کو لکھے گئے خط میں خبردار کیا ہے کہ سوئی سدرن کی جانب سے کے الیکٹرک کو گیس کی فراہمی میں کمی سے عوام کو سخت گرمی میں لوڈ شیڈنگ کا عذاب جھیلنا پڑ رہا ہے۔ معاملے کو حل نہ کیا گیا تو شہر میں امن و امان کے خدشات پیدا ہوسکتے ہیں۔ مراد علی شاہ نے وزیر اعظم خاقان عباسی سے درخواست کی ہے کہ وہ سوئی سدرن کو یومیہ 276 ملین مکعب فٹ گیس کے الیکٹرک کو فراہم کرنے کے لئے پابند کریں۔ایک سال قبل 12اپریل 2016ء کو وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ نے ہی سندھ اسمبلی میں خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ: ”سندھ کو گیس نہ ملی تو سب کی گیس بند کردیں گے۔ سوئی سدرن کے دفاتر کراچی ہی میں ہیں ‘ انتظام خود سنبھال لیں گے۔‘‘انہوں نے وفاق اور سوئی سدرن کو وارننگ دیتے ہوئے کہا کہ: ”ہمارا صوبہ 70ستر فیصد گیس پیدا کرتا ہے، لیکن شہر میں گیس کی صورتحال سب کے سامنے ہے۔ گیس نہ ملی توسوئی سدرن گیس کے دفترپردھاوابول دیں گے۔‘‘
چار روز قبل مراد علی شاہ نے کے الیکٹرک اور سوئی سدرن گیس کے ذمہ داروں کو وزیر اعلیٰ ہائوس طلب کیا تھا ، لیکن ان کی ہمدردیاں کے الیکٹرک کی طرف تھیں۔ انہوں نے یہاں بھی سوئی سدرن کو گیس کی سپلائی فراہم کرنے کا حکم تو جاری کیا، لیکن کے الیکٹرک کو یہ تک نہ کہا کہ وہ بارہ روپے سے بیس روپے یونٹ والی بجلی فرنس آئل سے کیوں پیدا نہیں کررہے؟ کے الیکٹرک بھی وہ بس ہے جوسی این جی پر چلتی ہے، لیکن کرایہ ڈیزل کا وصول کرتی ہے