منتخب کردہ کالم

گرم پانی سے گرم پانی تک: آغا مسعود حسین

سابق سوویت یونین (حال روس)کی افواج دسمبر1979ء میں افغانستان کی کمیونسٹ حکومت کی دعوت پر وہاں وارد ہوئیں، اور تقریباً 9سال تک موجود رہیں۔ اس دوران ان کے خلاف افغان مجاہدین کے علاوہ افغان عوام کی اکثریت نے زبردست مزاحمت کی ، لاکھوں افرادمارے گئے ، پاکستان نے مجاہدین کی نہ صرف حمایت کی بلکہ بہت سے پاکستانیوں نے بھی مجاہدین کے ساتھ شامل ہوکر روس کو افغانستان سے پسپا ہونے پر مجبور کیا، اس وقت امریکہ مجاہدین کی حمایت کررہا تھا بلکہ مجاہدین کو امریکہ اور بعض اسلامی عرب ممالک کی جانب سے غیر معمولی مالی اور اسلحہ کی امداد ملی تھی، چنانچہ غیر معمولی مزاحمت کے پیش نظرفروری 1989ء میں سوویت فوجیں جنیوا معاہدے کے بعد وہاں سے چلی گئیں، یہ معاہدہ مرحوم وزیراعظم محمد خان جونیجو کی سربراہی میں ہوا تھا، اسوقت مرحوم جنرل ضیاء الحق نے جونیجو پر زور دیا تھا کہ وہ یہ معاہدہ نہ کریں بلکہ کچھ عرصہ کے لئے موخر کردیں، لیکن جونیجو صاحب نے ضیاء صاحب سے اتفاق نہیں کیا، اور سوویت یونین کے ساتھ سوویت فوجیوں کے انخلا کا معاہدہ کرلیا، جب سوویت یونین کی فوجیں افغانستان وارد ہوئی تھیں تو اسوقت عام خیال یہ تھا کہ سوویت یونین بلوچستان کے راستے گرم پانی( سمندر) تک رسائی حاصل کرنا چاہتا ہے، تاکہ وہاں پہنچ کر پاکستان ،ایران اور دیگر عرب ممالک کے توانائی کے ذخائر پر قبضہ کرلے، چنانچہ یہی وجہ تھی کہ سوویت فوجوں کو افغانستان کے عوام کی جانب سے زبردست مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا تھا اس دوران پاکستان اور کچھ عرب ممالک کے سوویت یونین کے ساتھ سیاسی تعلقات خراب ہوگئے تھے، یہاں تک کہ تجارتی تعلقات بھی تقریباً رک چکے تھے، افغانستان میں سوویت یونین کو مداخلت بہت مہنگی پڑی، اس کی معیشت تباہ ہوگئی، داخلی طور پر کمزور ہونے کے سبب سوویت یونین ٹوٹ گیا، جو بیسویں صدی کا ایک اہم تاریخی واقعہ ہے، روسی عوام اس سانحہ کو آج تک نہیں بھول سکے، اب 2016ء میں روس پاکستان سے دوستی کا خواہش مند ہے، پاکستان بھی اس خطے میں نئے ابھرتے ہوئے سیاسی حالات کے پیش نظر روس کے ساتھ سیاسی ، تجارتی اور دفاعی تعلقات قائم کرنا چاہتا ہے، روس نے حال ہی میں پاکستان کے سی پیک کے عظیم منصوبے میںشامل ہونے کی خواہش ظاہر کی جو پاکستان نے منظور کرلی ، اس سلسلے میں روس کی انٹیلی جنس کے سربراہ نے پاکستان کا دورہ کیا، اس نے پاکستان کے اہم پالیسی سازوں کے ساتھ ملاقات کرکے اقتصادی راہداری کے ہر پہلو پر تبادلہ خیال کیا تھا، جس کے بعد روس نے اس منصوبے میں شامل ہونے کا اعلان کردیا ہے، چین جو اس منصوبے کا اصل خالق ہے 53بلین ڈالر خرچ کررہاہے، اس کو بھی روس کی اس اقتصادی منصوبے میں شمولیت پر کوئی اعتراض نہیں ہے، بلکہ چین اور روس کے درمیان نہایت ہی خوشگوار تعلقات قائم ہیں ،حلانکہ ماضی میں یعنی 1960ء کی دہائی میں ان دونوں ملکوں کے درمیان سرحدی جھڑپیں ہوئی تھیں، لیکن اب یہ سب کچھ قصہ پارینہ بن چکا ہے، چین اور روس کے درمیان روزافزوں تجارت میں اضافہ ہورہاہے، جس میں دفاعی تعلقات بھی شامل ہیں۔
اب روس پر امن طریقے سے سیاسی اندا ز میں اقتصادی راہداری کے ذریعہ بحیرہ عرب کے گرم پانیوں تک پہنچ رہاہے، اس کے اس طریقے کار، سوچ اور حکمت عملی سے پاکستان اور چین دونوں کو کوئی اعتراض نہیںہے، بلکہ اس طرح ان تینوں ملکوں یعنی پاکستان، روس اور چین کو غیر معمولی تجارتی ومعاشی فوائد حاصل ہوسکیں گے، نیز روس کے سی پیک میںشامل ہونے کی وجہ سے اس خطے کی سیاسی ومعاشی اور دفاعی صورتحال یکسر تبدیل ہوجائے گی، بھارت جو رو ز اول سے سی پیک کے خلاف ہے، اس کو ناکام بنانے کے لئے بلوچستان میں اپنے ایجنٹوں کے ذریعہ توڑ پھوڑ کراتا رہتاہے، اب وہ شاید ایسا نہ کرسکے گا، کیونکہ بظاہر روس اور بھارت کے درمیان اچھے تعلقات ہیں۔ وہ نہیں چاہے گا کہ روس کی ا س عظیم اقتصادی منصوبے میں شمولیت کے بعد وہ اس کو ناکام بنانے کے لئے سازشیں کرتارہے، جہاں تک امریکہ کا تعلق ہے اس کو روس کی سی پیک میں شمولیت سے بہت زیادہ تعجب ہوا ہے، امریکہ کا یہ خیال تھاکہ بھارت کے وزیراعظم کے ساتھے سٹریٹیجک تعلقات قائم کرنے کے بعد جنوبی ایشیا میں امریکہ اور بھارت کا بول بالا ہوگا، لیکن روس کی سی پیک میں شمولیت کے بعد جنوبی ایشیاکی معاشی ، سیاسی اور دفاعی صورتحال یکسر بدل جانے کے واضح امکانات موجود ہیں ، امریکہ پہلے ہی مشرق وسطیٰ میںخصوصیت کے ساتھ شام میں روس کی شامی صدر بشارالاسد کی حمایت سے بہت زیادہ ناراض ہے، جبکہ روس کی فضائیہ باقاعدہ امریکہ کے حمایت یافتہ باغیوں کا صفایا کررہی ہے، روس کا بحری بیڑہ شام کے ساحل پر موجود ہے، جس کی وجہ سے مشرق وسطیٰ میں امریکہ کی بالادستی تقریباً ختم ہورہی ہے، امریکہ کو یہ امید نہیں تھی کہ روس اتنے بڑے پیمانے پر امریکہ کی مشرق وسطیٰ میں حکمت عملی کو چیلنج کریگا، لیکن اس ایسا ہورہاہے، امریکہ کی مشرق وسطیٰ میں عوام دشمن پالیسوں کی وجہ سے ترکی بھی اسکے خلاف ہوگیاہے، اور روس کے ساتھ اپنے تعلقات استوار کررہاہے، حال ہی میں ترکی کے صدر اردوان نے روس کا دورہ کیا جس کے بعد ان کے تعلقات میں مزید گہرائی پیدا ہوگئی ہے، اسطرح امریکہ کے مفادات مشرق وسطیٰ سے تقریباً معدوم ہورہے ہیں، یہاں تک کہ اسرائیل بھی روس کے مشرق وسطیٰ میں دوبارہ بڑھتے ہوئے اثرات کی وجہ سے اسکی طرف دوستی کا ہاتھ بڑھارہاہے، یقینا امریکہ کی سامراجی پالیسیاں ہر جگہ آہستہ آہستہ دم توڑ رہی ہیں، ان بدلتے ہوئے سیاسی ومعاشی حالات کے پیش نظر روس کی سی پیک میں شمولیت کی وجہ سے جنوبی ایشیا میں طاقت کا ایک نیا توازن پیدا ہورہاہے، جس میں پاکستان، چین اور روس باہم مل کر ترقی اور امن کا یک نیا زون تشکیل دینے میں کامیاب ہوجائیں گے، ایران پر بھی روس کی سی پیک میںشمولیت سے اچھے اثرات مرتب ہونگے، ایران بھی سی پیک میں شامل ہونا چاہتا ہے، روس اورایران کے مابین اچھے تعلقات ہیں۔ ایران نے گوادر کے صنعتی زون میں آئل ریفائنری تعمیر کرنے کا اعلان کیاہے، جبکہ ایران پاکستان گیس پائپ لائن پر بڑی تیزی سے کام ہورہاہے، انرجی سے مالا مال خطے میں یہ ساری تبدیلیاں پاکستان کی مجموعی معاشی ترقی میں ہر لحاظ سے معاون ومدد گار ثابت ہوں گی۔
– See more at: http://dunya.com.pk/index.php/author/aga-masood-hussain/2016-11-29/17692/65954682#tab2