گروی اثاثوں سے متعلقہ تفصیلات؟…. محمود شام
جسٹس ایم آر کیانی کے حوالے سے مشہور ہے کہ وہ اپنی تقریروں میں کہا کرتے تھے۔ پہلی حکومتیں ہمیں سبز باغ دکھایا کرتی تھیں۔ یہ حکومت ہمیں کالا باغ دکھاتی ہے۔یہ ایوبی دَور کے تذکرے ہیں۔
اب ہمارے وزیر اعظم بھی ہمیں ایک دم 63سال پیچھے ایوبی عہد میں لے گئے ہیں کہ 1960ءکا سبز انقلاب اب دوبارہ لانے کا وقت ہوگیا ہے۔ انہوں نے ہمیں جنرل ایوب کے مارشل لاء کی یاد دلادی ہے۔1960ءمیں وزیر اعظم 9سال کے ہونگے۔ خوش قسمت ہیں کہ انہوں نے لڑکپن میں سبز انقلاب دیکھ لیا۔ یہ انقلاب کب تک چلا۔ اب جہاں پاکستان ہےاس وقت یہاں کی آبادی صرف 4کروڑ تھی۔ اور ایک ڈالر ساڑھے چار روپے کا۔ ہمارے صدر اور کمانڈر انچیف ایک ہی تھے۔ ایوب خان سے اختلاف ہوسکتے تھے۔ مگر وہ ایک وژن کے ساتھ پاکستان پر قابض ہوئے تھے۔ پاکستان کو صنعتی اور زرعی طور پر انہوں نے بہت مضبوط کیا۔ یہ بیسویں صدی کا وسط تھا۔ کرپشن کا تصور نہیں تھا۔ ایسے ایسے زرعی ماہرین تھے جنہیں پاکستان کے قابل کاشت اور ناقابل کاشت رقبوں کا علم تھا۔ خدا بخش بچہ یاد آتے ہیں۔ بلند قامت بھی تھے بلند خیال بھی۔ پھر ہماری زرعی اراضی ہائوسنگ اسکیموں میں تبدیل نہیں ہورہی تھی۔ ہمارے نوجوان کشتیوں میں غیر ملکی سمندروں میں جانیں نہیں دے رہے تھے۔ ہمارے اثاثے گروی نہیں تھے۔ ہم آئی ایم ایف کا در نہیں کھٹکھٹاتے تھے۔ ہم جرمنی اور جاپان کو قرض دیتے تھے۔ ہمارے پڑوس میں دبئی۔ وغیرہ صرف ریگستانی بستیاں تھے۔
عزم بہرحال خوش آئند ہے۔ مگر سوال یہی ذہن میں آتا ہے کہ پی ڈی ایم کی اتحادی حکومت کی دونوں بڑی پارٹیوں میں سے پی پی پی کی حکمرانی 1971 ءسے مختلف ادوار میں رہی ہے۔ 1985 ء سے میاں نواز شریف مختلف برسوں میں سرکار میں رہے۔ اس وقت تو 1960ءبہت قریب تھا۔تو یہ سبز انقلاب ان طویل برسوں میں کیوں نہ لایا جا سکا۔ اب جب ہماری معیشت سخت دبائو میں ہے ملک میں ایک بحرانی کیفیت ہے۔ ڈالر 250 سے 300 کے درمیان رقص کرتا رہتا ہے۔ فیکٹریاں بند ہورہی ہیں۔ لوڈ شیڈنگ اوربے یقینی زوروں پر ہے۔ الیکشن کا وقت تو آیا ہوا ہے لیکن یہ علم نہیں ہوتا کہ الیکشن ہونگے کہ نہیں۔ الیکشن ہوں گے تو پُر امن ہوں گے یا فسادات کیساتھ۔ انتخابی نتائج خوشدلی سے تسلیم ہوں گے یا نہیں۔ ساری پارٹیوں کو الیکشن میں کھل کر حصّہ لینے دیا جائے گا یا نہیں۔ ایسی صورت حال میں ایسے اعلان صدا بہ صحرا ہوتے ہیں۔
سوشل میڈیا پر افواہوں کا طوفان برپا رہتا ہے۔ آئی ایم ایف کے معاہدے کے حوالے سے بھی نہ جانے کیسی کیسی جعلی خبریں چلتی رہتی ہیں۔ بہت ہی وثوق سے بتایا جاتا ہے کہ فلاں ہوٹل گروی رکھ دیا گیا ہے ۔ یہ ایئرپورٹ رہن رکھ دیاگیا ہے۔ ایسی اطلاعات سے معیشت پر مزید دبائو آتا ہے۔ پاکستان میں 22کروڑ میں سے قریباً 7کروڑ غربت کی لکیر سے نیچے جاچکے ہیں۔ اس وقت یقیناً ایک اقتصادی جہاد کی ضرورت ہے۔ اگر قوم، ادارے، سیاسی رہنما، ماہرین سنجیدہ ہوں تو انہیں سب کچھ چھوڑ کر صرف معیشت کو مستحکم کرنے پر لگ جانا چاہئے۔ یہ حقیقت ہے کہ آج کل دنیا میں عزت اسی ملک کی ہے جس کی اقتصادیات مستحکم ہوں۔ پاکستان کی بد قسمتی یہ ہے کہ یہاں چند خاندانوں کی معیشت تو بہت مضبوط ہے ۔ ان کے پاس سونا بھی ہے، ملک اور بیرون ملک املاک بھی ہیں۔ ان کے دیوالیہ ہونے یا مالی طور پر زبوں حال ہونے کا کوئی خدشہ نہیں لیکن ملک کی معاشی حیثیت میں استحکام نہیں ہے۔ پاکستان کے معاشی، قانونی، تہذیبی، علمی اشاریے حوصلہ افزا نہیں ہیں۔ اس لئے بحیثیت ریاست پاکستان کی عالمی سطح پر پیشرفت نہیں ہے۔
ایسی اقتصادی بد حالی، معاشی بحران، اخلاقی پستی، اور افراتفری کے عالم میں جب سوشل میڈیا پر مختلف اثاثوںکے گروی رکھی جانے کی خبریں آتی ہیں تو ہم جیسے معمر پاکستانی کرب میں مبتلا ہوجاتے ہیں۔ اور ہمارے نوجوان ان ملکوں کے ویزےکیلئے قطار میں لگ جاتے ہیں جن کے اثاثے گروی نہیں ہیں۔
اسلئے ہماری گزارش ہے کہ ریاست اور حکومت واہگہ سے گوادر تک پاکستانیوں کو اعتماد میں لے ۔ انہیں یہ تو اندازہ ہے کہ قرضے بڑےلوگ لیں۔ آئی ایم ایف سے ہوں یا کسی برادر ملک سے۔ ان کی ادائیگی تو غریب پاکستانیوں اور بالخصوص تنخواہ دار لوگوں کو ہی کرنا ہوگی کیونکہ جتنے ٹیکس بھی لگیں گے یا لیوی۔ وہ ٹیکس کے دائرے میں آئے ہوئے تنخواہ دار طبقے سے ہی آسانی سے وصول کئے جاسکیں گے۔
مہذب ملکوں میں حکومتوں کی روایت ہوتی ہے کہ وہ ہر منصوبے کے بارے میں اپنے لوگوں کو با خبر رکھتی ہیں۔ سڑکوں بلڈنگوں یا میگا پروجیکٹس کے باہر واضح طور پر لکھا ہوتا ہے کہ یہاں کتنے اخراجات ہوں گے،کتنے قرض سے پورے ہوں گے، کتنے سود پر قرض لیا گیا ہے، کب تک ادائیگی ہے،ہر قسط کتنے کی ہوگی، یہ منصوبہ کتنے عرصے میں مکمل ہوگا۔
اب جب سوشل میڈیا پر یہ خبریں گرم ہیں کہ بہت سے قیمتی اثاثے قرضوں کے عوض رہن رکھ دیے گئے ہیں۔ ان میں بندرگاہوں، انکی جیٹیوں، ایئرپورٹوں، موٹر ویز، اداروں اور بلڈنگوں کے نام لئے جارہے ہیں۔ جن میں روز ویلٹ ہوٹل بھی شامل ہے تو پاکستانی بہت مضطرب ہیں۔ ایسے عالم میں جب اسمبلی اور سینیٹ کے اجلاس بھی ہورہے ہیں تو کسی ممبر کو یہ سوال ضرور کرنا چاہئے کہ پاکستان کے کون کون سے اثاثے گروی رکھے گئے ہیں۔ ان کی مالیت کا کیا تعین کیا گیا ہے۔ ان کے عوض کتنا قرضہ لیا گیا ہے۔ اس کا سود کتنا ہے۔ اس کی ادائیگی کب تک کرنا ہے۔ یہ قرضے کن مقاصد کے لئے لئے گئے ہیں۔ ان میں سے کتنے صرف سود کی ادائیگی کیلئے لئے گئے ہیں۔ کیا ان قرضوں سے کوئی ڈیم بن رہے ہیں یا نئے موٹر وے تعمیر ہورہے ہیں۔ کوئی نیاایئرپورٹ وجود میں لایا جارہاہے، کیا کوئی نئے ریلوے ٹریک بن رہے ہیں؟ریاست اور حکومت کی طرف سے اپنے طور پر کبھی ایسے واضح اعداد و شُمار دے دیے جائیں تو یہ افواہیں دم توڑ سکتی ہیں۔ جھوٹی خبروں کا خاتمہ ہوسکتا ہے۔ جھوٹی خبریں اتنی مہارت سے دی جاتی ہیں ،ان کے اعداد و شُمار ایسے مرتب کئےجاتے ہیں کہ سادہ لوح پاکستانی ان پر یقین کرلیتے ہیں اور وہ مزید مایوسی اور قنوطیت کا شکار ہو جاتے ہیں۔
یہ بھی قوم کو بتایا جائے کہ قومی تحویل میں لئے گئے جن اداروں کو پاکستان کی معیشت پر بوجھ بتایا جارہا ہے کیا انہیں پرائویٹائز کیا جا رہا ہے۔ یا رہن رکھا جارہا ہے۔ موجودہ حکومت اگر اس صورت حال پر ایک مصدقہ دستاویز جاری کرے تو پاکستان میں بے یقینی کی صورت حال ختم ہوگی اور سبز انقلاب صرف سبز باغ نہیں ایک روڈ میپ سمجھا جائے گا