گندگی کے ڈھیر؟….ھارون الرشید
پانچ جولائی کے حوالے سے جاری بحث میں‘ پیپلزپارٹی کے ایک رہنما نے جب اس مفہوم کے الفاظ کہے کہ جنرل محمد ضیاء الحق گندگی کا ڈھیر تھے، تو صدمہ پہنچا اور اس پر احتجاج کیا۔ یہ وہ صاحب ہیں‘ جو 1977ء میں برپا تحریک میں حکمران پارٹی کو چھوڑ گئے تھے۔ پھر ایئرمارشل اصغر خان سے وابستہ ہوئے‘ جنہوں نے بھٹو کوکو ہالہ کے پل پر پھانسی دینے کا اعلان کیا تھا۔ اب وہ جناب آصف علی زرداری کے دست و بازو ہیں‘ جن کے بارے میں کچھ عرض کرنا‘ وقت ضائع کرنے کے مترادف ہے۔
جنرل محمد ضیاء الحق کے گیارہ سالہ دورِ اقتدار میں اس ناچیز اخبار نویس نے کبھی ان کی حمایت میں نہیں لکھا۔یہ ایک سادہ سی بات ہے کہ کوئی بھی قلمکار ایک فوجی آمر کی تائید نہیں کر سکتا…مگر گندگی کا ڈھیر؟
انسانوں کا عمومی مزاج یہ ہے کہ جب وہ ایک ہیرو چن لیتے ہیں تو اس کے مخالفین کو شیطان ثابت کرنے پہ تل جاتے ہیں۔ اس کی حمایت میں کہانیاں گھڑتے ہیں اور اس کے مخالفین کو حقیر اور مستقل طور پر ادنیٰ ثابت کرنے کی کوشش میں لگے رہتے ہیں۔ جنرل محمد ضیاء الحق چونکہ بے اولاد مرے‘ ان کا دفاع کرنے والا کوئی نہیں‘ لہٰذا یہ کارِخیر اور بھی سہل ہے۔ جن اخبار نویسوں اور سیاستدانوں نے ان سے فیض پایا۔ جو ان کی وفات کے بعد بھی برسوں ان کا مشن مکمل کرنے کا اعلان کرتے رہے‘ حالات کی کروٹ نے انہیں خاموش رہنے پر آمادہ کردیا ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ نجی گفتگوئوں میں گاہے وہ جنرل کا دفاع کرتے اور ذوالفقار علی بھٹو کو ملک دشمن قرار دیتے ہیں۔ عمومی فضا مگر ایسی ہے کہ سکوت ہی میں وہ عافیت پاتے ہیں۔ کیا جنرل محمد ضیاء الحق واقعی ایک شیطان اور ذوالفقار علی بھٹو فرشتہ تھے؟۔
پہلی بات یہ ہے کہ جولائی 1977ء کے اوائل میں پاکستان قومی اتحاد اور مسٹر بھٹو کے درمیان جو معاہدہ طے پایا تھا‘ کس نے اسے سبوتاژ کرکے‘ ” جمہوری نظام‘‘ کے تابوت میں آخری کیل ٹھونکی‘ آدھا پاکستان جس کے خلاف سڑکوں پہ تھا۔ یہ کوئی راز نہیں کہ ایئرمارشل اصغر خان‘ مولانا شاہ احمد نورانی اور نیشنل عوامی پارٹی کی نمائندگی کرنے والی نسیم ولی خان نے اس سمجھوتے کو قبول کرنے سے انکار کردیا تھا۔ انہوں نے کچھ نئے نکات اٹھائے۔ بجا طور پر اس پہ بھٹو نے کہا کہ اگر وہ ایسا کریں گے تو انہیں بھی نئی تجاویز پیش کرنے کا حق ہوگا۔ یہ وہ دن تھے‘ جب اپوزیشن کے 50 ہزار سے زیادہ کارکن جیلوں میں پڑے تھے۔ عبدالولی خان اور باغی شاعر حبیب جالب سمیت سرحد اور بلوچستان کے بیشتر لیڈر حیدر آباد کے زندان میں تھے۔
تحریک نظام مصطفیٰ میں 329 شہری شہید کیے جا چکے تھے۔ مخالفین کا تاثر یہ تھا کہ ازسر نو الیکشن اگر منعقد ہوئے تو اس میں بھی ذوالفقار علی بھٹو دھاندلی کا ارتکاب کر سکتے ہیں۔ دونوں فریق ایک دوسرے کی گردن کاٹنے پر تلے تھے۔ ان میں کوئی دوسرے کو برداشت کرنے پہ تیار نہ تھا۔ سمجھوتے کا امکان موجود تھا مگر یہ یقین کسی کو نہ تھا کہ پوری طرح اس پہ عمل درآمد ہو سکے گا۔یہ ذوالفقار علی بھٹو تھے‘ جن کی پھانسی نے صورتِ حال کو بدل ڈالا۔ ان کے حق میں ہمدردی کی ایسی لہر اٹھی کہ استعمار کے ہاتھوں جنرل محمد ضیاء الحق کے قتل ہوتے ہی بھٹو کی بیٹی اقتدار میں آگئی۔
انسانی خون ایک عجیب چیز ہے۔ پھانسی چڑھنے والے کبھی اتنے طاقتور ہو جاتے ہیں کہ اپنی قبروں سے انسانوں پر حکومت کرتے ہیں۔ امریکی دانشور نوم چومسکی نے حال ہی میں لکھا: عالمی طاقتیں دو ہیں‘ امریکہ جو اپنی عسکری قوت کے بل پر‘ یورپ‘ مشرقی اور وسطی ایشیا پہ حکومت کرتا ہے اور دوسری عالمی رائے عامہ۔ کبھی کبھی اچانک جو بروئے کار آتی ہے‘ مگر حالات کا رخ یکسر بدل دیتی ہے۔
ایک دلچسپ مثال تصوف کی تاریخ میں پائی جاتی ہے۔ تصوف کے جلیل القدر اکابرین‘ سیدالطائفہ جنید بغدادؒ‘ امام شاذلیؒ‘ شیخِ ہجویر علی بن عثمان ہجویریؒ اور شیخ عبدالقادر جیلانیؒ میں سے کبھی کسی نے بغداد کے باغی حسین بن منصور حلاج کی تحسین نہ کی۔ یہی وہ چراغ ہیں‘ جن کی روشنی میں آئندہ ادوار میں رہِ سلوک کے مسافروں نے منزلیں سر کیں۔ حیرت انگیز بات یہ ہے کہ اس کے باوجود‘ بارہ سو برس سے تمام مسلم زبانوں کی شاعری اور فکشن میں حسین بن منصور ایک لہکتا ہوا استعارہ ہے۔ اردو کے شاعر نے تو یہاں تک کہہ دیا۔
موسم آیا تو نخل دار پہ میر
سر منصور ہی کا بار آیا
اس عہد کے صوفیا نے‘ حسین کو کبھی درخور اعتنا نہ سمجھا۔ اسے وہ ایک دیوانہ سمجھتے تھے۔ اصلاً وہ شاعر تھا۔ اس کی فکر پہ ہندو اور مسیحی تصوف کے اثرات تھے۔ خود وہ اپنے ہی خیالات کی دنیا میں گم، اپنے گھر میں اس نے ایک چھوٹا سا ”کعبہ‘‘ بنا رکھا تھا‘ جس کا طواف کیا کرتا۔ دریائے دجلہ کے کنارے گھومتے رہنے والے شبلیؒ نے اسے اظہار خیال تک سے منع کیا تھا۔ جہاں تک اس دور کے امام جناب جنیدؒ کا تعلق ہے‘ حسین بن منصور سے انہوں نے یہ کہا تھا : میں لکڑی کے ایک ٹکڑے کو دیکھتا ہوں ، اپنے لہو سے، جسے تم سرخ کرو گے۔ اس کے باوجود مسلم شاعروں نے اسے ایثاراور بے غرضی کا استعارہ کیوں بناد یا؟ اس لئے کہ ظالم بادشاہوں کے حکم پروہ تختہ دار تک پہنچا تھا …اور ، خون ایسی چیز ہے کہ سر چڑھ کر بولتا ہے اور کبھی صدیوں تک بولتا ہی رہتا ہے۔
ذوالفقار علی بھٹو کو ، احمد رضا قصوری کے والد نواب محمد احمد خان کے قتل میں پھانسی دی گئی۔ انہیں معصوم ثابت کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ اس سوال کا جواب کوئی نہیں دیتا کہ بھٹو کی ذاتی فوج‘ ایف ایس ایف کے دلاوروں نے نہیں تو احمد رضا خان کے والد کو آخر کس نے قتل کیا تھا؟ کیا بھٹو کے خلاف آئے دن غداری اور سفاکی کا الزام عائد کرنے والے احمد رضا قصوری پہ بار بار حملے نہ ہوا کرتے۔ کیا ایک سے زیادہ بار ان پر فائرنگ نہ ہوئی تھی؟ … اور ایک بار تو انہیں ادھ موا کر کے چھوڑ دیا گیا تھا۔ احمد رضا قصوری آج بھی زندہ سلامت ہیں۔ آج بھی اپنے موقف پر وہ قائم ہیں کہ بھٹو اگر وفاقی حکومت میں حصہ طلب نہ کرتے ‘ جمہوری روایات کے مطابق اگر 300 میں سے قومی اسمبلی کی 161 سیٹیں جیتنے والے شیخ مجیب الرحمن کو اقتدار سونپ دیا جاتا‘ مغربی پاکستان میں پیپلزپارٹی کا مقبول عام سربراہ اگر پنجاب اور سندھ کی صوبائی حکومتوں پر اکتفا کرتا تو پاکستان کبھی نہ ٹوٹتا۔
جواب میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ شیخ مجیب الرحمن نے بھارت سے ساز باز کر رکھی تھی‘ اگر وہ تحمل سے کام لیتے ‘اگر مزید چند ماہ وہ صبرکرتے، پرتشدد تحریک کی بجائے، اگرجمہوری انداز سے احتجاج کرتے تو آخر کار اقتدار پکے ہوئے پھل کی طرح، ان کی جھولی میں گرتا۔ ہوس اقتدار کے مارے ذہنی مریض، جنرل آغا محمد یحییٰ خان با اختیار صدر بننے پہ اگر مصر نہ ہوتے تو سانحہ کبھی رونما نہ ہوتا۔ان دلائل کی اہمیت سے انکار نہیں کیا جا سکتا‘ مگر یہ سوال اپنی جگہ پر قائم رہتا ہے کہ کیا خود ذوالفقار علی بھٹو پہ بھی وحشت سوار نہ تھی؟ کیا وہ بھی جنون کی حد تک ہوس اقتدار میں مبتلا نہ تھے؟ آخر خود انہوں نے شیخ مجیب الرحمن کو اقتدار سونپنے کا مطالبہ کیوں نہ کیا۔ ان کی گرفتاری پہ احتجاج کی صدا کیوں بلند نہ کی؟ (جاری)