گِرتے کو اَب کیا مارنا…ایاز امیر
نون لیگ پہ بُرے دن تو آئے ہوئے تھے لیکن اب حالت بہت ہی پتلی ہو گئی ہے۔ ممبئی حملوں پہ بیان شیر کی آخری دھاڑ تھی۔ یہ کہہ کے کہ مجھے احتساب کا نشانہ اس لئے بنایا گیا کہ میں جنرل مشرف پہ غداری کا مقدمہ چلانا چاہتا تھا، شیر کی دھاڑ بکری کی آواز میں تبدیل ہو چکی ہے۔ مشرف والی بات اتنی بھونڈی ہے کہ فیصلہ کرنا مشکل ہے کہ ہنسا جائے یا رویا جائے۔
وہ غداری کا مقدمہ قصۂ پارینہ ہے۔ نہ فوج کو اُس کی پروا ہے نہ جنرل قمر جاوید باجوہ کیلئے وہ کوئی مسئلہ ہے۔ اگر نواز شریف نے آخری دلیل کے طور پہ اُس مقدمے کو بھولے ہوئے گڑھوں سے نکالنے کی کوشش کی ہے تو صاف مطلب ہے کہ اُن کے پاس کہنے کو کچھ نہیں رہا۔ پھر یہ کہ میرے بیٹے جوان اور خود مختار ہیں اور اپنا کاروبار خود سنبھالے ہوئے ہیں‘ میرا اُن کے کاروبار سے کوئی واسطہ نہیں۔ اس پہ بھی وہی مخمصہ سامنا آتا ہے کہ رویا جائے یا ہنسا جائے۔ اِس اِستدلال کے بعد نون لیگ کے پُرجوش حامیوں کے دلوں میں بھی یہ شک نہیں رہنا چاہیے کہ اُن کی کہانی تمام ہو رہی ہے۔
نواز شریف اَب اِس بات پہ بھی اُتر آئے ہیں کہ کسی کی بیٹی کو کٹہرے میں لانا اچھی روایت نہیں‘ اوروں کے ساتھ اگر ایسا ہوا تو وہ برداشت نہیں کر سکیں گے۔ شاید وہ بینظیر بھٹو کی ملک عبدالقیوم کے سامنے پیشیاں بھول گئے جب بینظیر بھٹو کی تذلیل کا اہتمام ہوا کرتا تھا۔ ایک دن ایسا ہوا کہ بینظیر بھٹو پیشی بھگت کے عدالت سے باہر آئیں اور رو پڑیں اور اُن کے آنسو بوساطت میڈیا ساری قوم نے دیکھے۔ تو میاں صاحب کیا باتیں کر رہے ہیں‘ جو اوروں کے ساتھ اس ملک میں ہوا اُن کے ساتھ اُس کا عَشرعَشِیر بھی نہیں ہوا۔ وہ تو گاڑیوں کے قافلے میں عدالت آتے ہیں۔ محافظ دائیں بائیں ہوتے ہیں۔ بینظیر بھٹو کی شاید وہ تصویر اُن کے ذہن سے اُوجھل ہو گئی ہے‘ جب محترمہ لانڈھی جیل کراچی میں اپنے شوہر سے ملنے گئیں اور انتظار میں باہر فٹ پاتھ پہ اپنے بچوں کے ساتھ بیٹھی رہیں۔ وہ تصویر تب کسی ستمگر یا ہمدرد نے لی۔
بھٹو صاحب پہ تو اِس سے بھی زیادہ بُرا وقت آیا۔ جب قتل کا مقدمہ لاہور ہائی کورٹ میں چل رہا تھا اور بینچ کے سربراہ چیف جسٹس مولوی مشتاق حسین تھے تو بھٹو صاحب کو عام پولیس وین میں لایا جاتا۔ وہ اُس وین کی فرنٹ سیٹ پہ نہ بیٹھے ہوتے بلکہ پیچھے کی طرف اُنہیں بٹھایا جاتا۔ کمرۂ عدالت میں بات بات پہ مولوی مشتاق حسین غصے سے لال پیلے ہو جاتے اور بھٹو صاحب کو ڈانٹ پلانے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہ جانے دیتے۔ اسی پہ اِکتفا نہ کیا بلکہ لکڑی کا ایک خاص کٹہرا بنایا گیا جس میں بھٹو صاحب کو بٹھایا جاتا۔ بھٹو صاحب نے سب کچھ برداشت کیا۔ اپنے دفاع میں طرح طرح کی آئینی اور قانونی تاویلیں پیش کیں لیکن ایک بار بھی ایسے نہیں روئے جس طرح کا مظاہرہ نواز شریف صاحب تقریباً روزمرّہ کی بنیاد پہ کر رہے ہیں۔
سزائے موت بھی ہو گئی، رحم کی اپیل نہ کی۔ کھانا بہت کم کھانے لگ گئے تھے۔ کالی کافی اور سگاروں پہ گزارا کرتے۔ اس لئے کمزوری نے جسم کو گھیر لیا اور وزن بہت کم ہو گیا۔ لیکن ارادے یا ہمت میں کوئی کمی نہ آئی۔ جب جیل سپرنٹنڈنٹ یار محمد دُریانہ نے بلیک وارنٹ کی اطلاع دی کہ کل صبح پھانسی ہونی ہے تو چہرے پہ یکدم شدید گھبراہٹ کے آثار نمودار ہوئے‘ لیکن پھر دیکھتے ہی دیکھتے اپنے اعصاب پہ قابو پایا اور جیل سپرنٹنڈنٹ سے کہا کہ میرے داڑھی بڑھی ہوئی ہے، میں مُلا کی موت نہیں مرنا چاہتا‘ مجھے شیو کا سامان مہیا کیا جائے۔ ایسا باہمت آدمی ہی کہہ سکتا تھا۔ یہ داستان بھٹو کے کسی مداح نے نہیں کہی بلکہ کرنل رفیع کی یادداشتوں میں درج ہے جو کہ انفنٹری کی اس یونٹ کو کمان کر رہے تھے جو پنڈی جیل کی خصوصی حفاظت پہ مامور تھی۔
عجیب کیفیت دیکھیے کہ اُس رات بھٹو گہری نیند سو گئے۔ اُس وقت کے جیل کے عملے کی گواہیاں بعد میں سامنے آئیں کہ جب وہ رات کے آخری پہر بھٹو کے سیل میں داخل ہوئے تو اچھا خاصا جھنجھوڑنا پڑا‘ تب ہی بھٹو بیدار ہوئے۔ بھٹو کے ناقدین سے ملک بھرا پڑا ہے۔ ایسے لوگوں کی کمی نہیں جو بہت سے گناہوں کا اُن کو مرتکب ٹھہراتے ہیں‘ لیکن جو بھی اُن کی غلطیاں یا کمزوریاں ہوں‘ اس بات سے انکار کرنا مشکل ہے کہ موت کا سامنا اُنہوں نے دلیری سے کیا۔
بہرحال بھٹو کہاں اور یہ ہمارے کاغذی شیر کہاں۔ موازنہ ہی غلط ہے۔ لیکن پھر بھی کسی غصے کی بجائے نواز شریف پہ اَب تھوڑا سا ترس آنے لگا ہے‘ خاص طور پہ میرے جیسے شخص کو‘ جس کی جو بھی سیاسی زندگی ہے‘ نون لیگ سے وابستہ رہی ہے۔ والد صاحب کا تعلق 1970ء کے انتخابات میں پیپلز پارٹی سے رہا۔ 1974ء میں جب اُن کی موت واقع ہوئی اور اُن کو قبر میں اُتارا جا رہا تھا تو اُن کا کفن پیپلز پارٹی کا تین رَنگا جھنڈا تھا۔ یہ اُن کی اُس جماعت سے والہانہ وابستگی کا مظہر تھا۔ میری بھی شروع کی وابستگی پیپلز پارٹی سے رہی اور جب اپریل 1986ء میں بینظیر بھٹو لاہور ائیر پورٹ اُتریں تو لاکھوں کے مجمعے میں، میں بھی وہاں موجود تھا۔ یاد نہیں پڑتا کہ رات کو کس اَمیر خانوادے کے گھر بینظیر بھٹو کے اعزاز میں ڈنر کا اہتمام ہوا۔ ڈرائنگ روم کھچا کھچ بھرا ہوا تھا۔ میں ایک کونے میں کھڑا تھا۔ بینظیر بھٹو نے دُور سے پہچانتے ہوئے سر ہلایا اور تمام حاضرین میری طرف متوجہ ہو گئے کہ کیسا خوش بخت انسان ہے جس کی موجودگی کو مس صاحبہ نے چھوٹے سے اشارے سے تسلیم کیا ہے۔
پھر وہ کراچی گئیں اور ہم بھی وہاں گئے۔ سندھ کلب میں، میں اور مرحوم سلمان تاثیر ساتھ ساتھ کمروں میں ٹھہرے تھے۔ رمضان کا مہینہ تھا اور ناظم آباد میں بینظیر بھٹو کیلئے افطاری کی تقریب تھی۔ ہم بھی وہاں گئے۔ غرضیکہ مس صاحبہ کا کاروان جس طرف رخ کرتا ہم بھی ساتھ ہو لیتے۔ ایک دن سلمان تاثیر سے میں نے کہا: یار یہ روز روز کا پیچھا کرنا اچھا نہیں لگتا۔ اُس نے کہا کہ تمہاری زندگی کے آئندہ پانچ دس سال کی کامیابی یا ناکامی آج کی ہمت پہ منحصر ہو گی۔ میں نے کہا، اور مجھے آج بھی اپنا جواب یاد ہے، کہ یار مجھے گاڑی کے پیچھے بھاگنے پہ اعتراض نہیں‘ لیکن ایک بار بھاگنا ہو وہ تو ٹھیک ہے، روز کا بھاگنا، یہ نہیں ہوتا۔
1988ء کے انتخابات میں پیپلز پارٹی کے صوبائی ٹکٹ کیلئے درخواست بھی دی۔ مقدر اچھے تھے کہ محترمہ نے اپنی بصیرت میں ٹکٹ نہ دیا کیونکہ اُن حالات میں ٹکٹ مل جاتا تو قوی امکان تھا کہ پِٹ جاتے۔ پھر محترمہ اقتدار میں آئیں اور ہم نے اُن سے کیا لینا دینا تھا۔ اقتدار میں ظاہر ہے پورا ایک لشکر کیا‘ پوری ایک فوج اُن کے پیچھے تھی۔ ہماری وہاں کیا جگہ بننی تھی۔ یہ اچھا ہی تھا کیونکہ پھر جو تھوڑی بہت توانائیاں تھیں کالم نگاری پہ صرف کیں جو اَب تک کرتے آ رہے ہیں۔ لیکن بیچ میں سیاست کے گھاٹ پہ بھی پانی پیا اور وہ نون لیگ کے طفیل ہی تھا۔ وزیر اعظم بینظیر بھٹو تھیں (یہ 1994ء کی بات ہے) اور ہمارے دوست الٰہی بخش سومرو کے ہاں نواز شریف صاحب کو لنچ پہ مدعو کیا گیا تھا۔ میرے دوست اَردشیر کائوس جی مجھے ساتھ لے گئے۔ موقع ملا تو نواز شریف سے کہا کہ دو منٹ علیحدگی میں بات ہو سکتی ہے؟ ہم کونے میں بیٹھ گئے اور میں نے کہا کہ چکوال کا فلاں صوبائی حلقہ ہے جو کہ نون لیگ کا ہارا ہوا ہے۔ جب انتخابات ہوئے تو اُس ہارے ہوئے حلقے کیلئے میرے بارے میں سوچ لیجئے گا۔ اُن کا کہنا تھا کہ آپ نے تو ہماری مشکل آسان کر دی۔ جب 1997ء کے انتخابات آئے تو مرحوم جنرل عبدالمجید ملک نے میری بھرپور مخالفت کی لیکن نواز شریف نے ٹکٹ مجھے دیا۔ پہلی بار اسمبلی میں اس طریقے سے پہنچا۔
اب جب نون لیگ پہ گہرے بادل چھا رہے ہیں‘ یہ بھولی بسری باتیں مجھے یاد آ رہی ہیں۔