گڈ بائی
کیا فضول سوال ہے، ہر دوسرا یا تیسرا آدمی اپنے چہرے پر طنزیہ مسکراہٹ سجا کر کہتا ہے نیا پاکستان مبارک ہو جی لیکن ذرا یہ تو بتائیے کہ نئے پاکستان میں پرانا پاسپورٹ چلے گا یا نہیں؟جب سےعمران خان نے2018کے انتخابات میں اکثریت حاصل کی ہے تو ہر طرف نئے پاکستان کے لطیفوں کی بھرمار ہے۔
نئے پاکستان کے زیادہ لطیفے وہ دوست سنا رہے ہیں جو اپنی محفلوں میں تو مسکراتے اور ہنستے ہیں لیکن ان کی تنہائیاں روتی ہیں اور وہ بند کمروں میں اپنے تکیوں کو آنسوئوں سے گیلا کرکے الماریوں میں چھپا دیتے ہیں تاکہ اہل خانہ کو آنسوئوں کی خبر نہ ہو۔ ہمارے ان دکھی دوستوں کا تعلق اس مکتب فکر سے ہے جو 25جولائی سے پہلے سینہ پھلا کر ’’روک سکو تو روک لو‘‘ کا جملہ بول کر زیر لب کچھ ایسا بھی کہتے تھے جو گالی کے زمرے میں آتا تھا لیکن ہم اپنے ان شیر دوستوں کے لئے دل ہی دل میں ہدایت کی دعا کرکے خاموشی پر اکتفا کرتے تھے۔ 25جولائی کے بعد ان دوستوں نے دو تین دن تک دھاندلی کا بہت شور مچایا لیکن جب بات نہ بنی تو پھر نئے پاکستان کے لطیفوں سے دل بہلانا شروع کردیا۔ دوسری طرف کچھ مہربان ایسے بھی ہیں جو 25جولائی کے انتخابات میں کامیابی حاصل کرنے کے بعد سے سکتے میں ہیں۔
ایسے ہی ایک صاحب سکتے کی حالت میں کراچی سے اسلام آباد پہنچے اور جب بنی گالہ میں عمران خان کو ملے تو خان صاحب نے قہقہہ لگا کر پوچھا ’’اوئے تم کیسے جیت گئے؟‘‘ یہ صاحب سکتے سے باہر آئے اور بڑی مشکل سے مسکرا کر بولے جی جی میں بھی جیت گیا۔ قریب ہی علی زیدی کھڑے تھے انہوں نے بڑے دبنگ انداز میںکہا کہ میں نے تو چھ مہینے پہلے کہہ دیا تھا کہ ہم کراچی میں سویپ کریں گے لیکن میرے اپنے ہی مجھے مشکوک نظروں سے دیکھتے تھے اور پھر علی زیدی نےسینے پر ہاتھ مار کر کہا کہ میں تو2013میں بھی کراچی سے جیت گیا تھا لیکن میرا رزلٹ تبدیل کر دیا گیا تھا۔2013میں جو الزام علی زیدی لگاتے تھے 2018میں وہی الزام سب سے پہلے ایم کیو ایم نے لگایا لیکن جیسے ہی25جولائی کی سیاہ رات ختم ہوئی اور 26جولائی کی نئی صبح طلوع ہوئی تو اچانک ایم کیو ایم میں ایک تبدیلی واقع ہوئی۔ ایم کیو ایم نے دھاندلی کے اصولی موقف پر قائم رہتے ہوئے تحریک انصاف کے ساتھ اتحاد کرکے اہل کراچی و حیدر آباد کے دل باغ باغ کر دئیے جو اس اتحاد میں کچرے اور غلاظت سے نجات کے خواب دیکھ رہے ہیں۔
2018کے انتخابات کے بطن سے جن حالات نے جنم لیا ہے انہوں نے کئی سنجیدہ اور فہمیدہ لوگوں کو رنجیدہ کردیا ہے۔ مولانا فضل الرحمان تو نئی قومی اسمبلی کا بائیکاٹ کرنا چاہتے تھے لیکن ان کی پرانی اتحادی جماعت مسلم لیگ(ن) اور اس سے بھی پرانی اتحادی جماعت پیپلز پارٹی نہیں مانی۔ اس الیکشن میں چودھری نثار علی خان کی جیپ کسی کھائی میں گر گئی، مصطفیٰ کمال کی ڈولفن شاہراہ فیصل کراچی پر پانی کے بغیر تیرنے اور بچوں کو کرتب دکھانے کی کوشش میں تڑپ تڑپ کر مرگئی۔ سرفراز بگٹی کی گائے چوری ہوگئی۔ بدین کا ایک مرزا سر پر قرآن اٹھا کر نکلا اور قسمیں کھا کھا کر ووٹ مانگتا رہا لوگوں نے اس کی صاحباں کو ووٹ دے دئیے لیکن مرزا بےمراد رہا۔ یہ عجیب الیکشن ہے جس میں فاتح جماعت کاایک ہارنے والا امیدوار عثمان ڈار صبح شام ووٹوں کی دوبارہ گنتی کی درخواستیں دے رہا ہے اور اس کی درخواستیں مسترد ہورہی ہیں۔ دوسری طرف خواجہ سعد رفیق صاحب بھی ووٹوں کی دوبارہ گنتی کا مطالبہ کررہے ہیں۔ ان کی درخواستیں بھی مسترد ہورہی ہیں۔ عثمان ڈار اور خواجہ سعد رفیق دونوں ہی الیکشن کمیشن کو بددعائیں دے رہے ہیں۔
اس الیکشن کے رزلٹ سے بددعائوں کا دھواں بھی اٹھ رہا ہےا ور اسی رزلٹ میں لطیفوں کی بہار بھی نظر آتی ہے۔ بددعائوں اور لطیفوں سے بھرپور یہ نیا پاکستان ایک ایسے الیکشن کے ذریعے وجود میں آیا ہے جس میں پولنگ ختم ہونے کے بعد الیکشن کمیشن کا رزلٹ ٹرانسمیشن سسٹم بیٹھ گیا تھا۔ اس سسٹم کے بیٹھ جانے پر پورا پاکستان پریشان تھا۔ اسی پریشانی کے باعث چیف جسٹس ثاقب نثار صاحب نے چیف الیکشن کمشنر صاحب کو بار بار فون پر ڈھونڈنے کی کوشش کی لیکن چیف الیکشن کمشنر صاحب خاموشی کی چادر اوڑھ کر نجانے کہاں سوئے رہے۔ الیکشن سے کچھ دن پہلے ایک بریفنگ کے دوران آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کو الیکشن کمیشن کے رزلٹ ٹرانسمیشن سسٹم کے بارے میں بتایا گیا تو انہوں نے پوچھا کہ اگر یہ سسٹم بیٹھ گیا تو پھر کیا ہوگا؟ انہیں یقین دلایا گیا کہ یہ سسٹم نہیں بیٹھے گا۔ انہوں نے دوبارہ پوچھا کہ اگر سسٹم بیٹھ گیا تو متبادل کیا ہوگا لیکن الیکشن کمیشن والوں کو اپنے نئے سسٹم پر اندھا اعتماد تھا اور اسی اندھے اعتماد نے الیکشن کمیشن کی ساکھ کو کراچی کے علاقے قیوم آباد میں کچرے کے ڈھیروں پر جلا کر راکھ کردیا لیکن اب اس راکھ میں سے ایم کیو ایم ہیرے موتی تلاش کررہی ہے تو ہمیں کیا اعتراض ہوسکتا ہے ،آپ شوق سے تحریک انصاف والوں کے ساتھ مل کر نئے پاکستان میں کراچی و حیدر آباد والوں کے لئے باغ و بہار کے خواب دیکھئے اور باغ تو ہمیشہ سبز ہوتے ہیں۔
امید ہے یہ سبز باغ سیاہ داغ نہیں بنیں گے۔ اب ہمیں 25جولائی کی کامیابیوں اور ناکامیوں کو ساتھ لے کر آگے بڑھنا ہے۔ عمران خان کو ناکام بنانے کے لئے پاکستان کو ناکام نہیں بنانا۔ عمران خان کوئی تبدیلی لائیں نہ لائیں لیکن ہمیں اپنے آپ کو ضرور تبدیل کرنا ہے۔ہمیں اس سیاست کو گڈبائی کہہ دینا چاہئے جس میں کامیابی کا حصول صرف جھوٹ اور فریب سے ممکن ہے۔ مجھے بہت افسوس ہوا جب پیپلز پارٹی کی ایک اہم شخصیت نے بڑے دکھ سے یہ بتایا کہ 25جولائی کے بعد تشکیل پانے والے اپوزیشن الائنس کے کچھ رہنمائوں نے ہمیں کہا کہ اگر آپ بریف کیس ٹیکنالوجی کا استعمال کریں تو کم از کم اسپیکر اور ڈپٹی اسپیکر ہمارا آسکتا ہے۔ پیپلز پارٹی والوں نے اس فرمائش پر شرما کر کہا کہ ہمیں یہ ٹیکنالوجی نہیں آتی تو دوسری جانب سے قہقہے بلند ہوئے جو کوئٹہ تک سنے گئے۔ ان قہقہوں میں یہ پیغام تھا کہ پیپلز پارٹی اپوزیشن اتحاد کا حصہ تو بن گئی لیکن اس اتحاد کے لئے وہ سب کرنے کے لئے تیار نہیں جو چند ماہ قبل بلوچستان اسمبلی میں مسلم لیگ (ن) کی حکومت گرانے کے لئے کیا گیا تھا لیکن اہم سوال یہ ہے کہ کیا تحریک انصاف پنجاب میں وہ کچھ نہیں کررہی جو پہلے مسلم لیگ (ن) کی شہرت ہوا کرتی تھی؟ سیاسی وفاداریاں تبدیل کروا کر حکومت تو بنائی جاسکتی ہے لیکن تبدیلی نہیں لائی جاسکتی۔
کیا ہم نئے پاکستان میں ہارس ٹریڈنگ کو گڈبائی نہیں کہہ سکتے؟ کیا نئے پاکستان میں سیاست و صحافت کو ضمیر فروشوں اور موقع پرستوں سے آزاد نہیں کرایا جاسکتا؟ ضروری نہیں کہ عمران خان اپنی سیاسی مصلحتوں کو فوری طور پرگڈ بائی کہہ دیں لیکن آپ اور میں تو مصلحتوں اور مجبوریوں کو گڈ بائی کہہ سکتے ہیں۔ عمران خان نیا پاکستان بنائیں نہ بنائیں آپ اور میں تو اپنے اندر ایک نیا پاکستان آباد کرسکتے ہیں۔ آئیے آپ اور میں پرانے پاکستان کو گڈبائی کہہ دیں۔