آج مصطفی کمال اور انیس قائم خانی کی ایک اور پریس کانفرنس تھی۔ انہوں نے حسب معمول تین بجے کا وقت دیا تھا اور حسب معمول چار بجے پریس کانفرنس شروع ہوئی۔ میں حسب معمول پورے تین بجے انتظار میں بیٹھ گیا۔ اس دوران خبریں سامنے آتی رہیں۔ جن میں لیڈی ہیلتھ ورکرز کے جلوس اور مظاہرے کا ذکر تھا۔ پتہ چلا کہ انہیں مہینوں سے تنخواہیں نہیں ملیں اور یہ مجبور عورتیں گھر کا خرچہ چلانے سے معذور ہو کر سڑکوں پر نکل آئیں۔ میں حیران تھا کہ حکومت سارے خزانوں کی مالک ہو کر‘ اپنے محنت کش عوام کو ان کی مزدوری بھی نہیں دے رہی۔ ہمارے معاشرے میں جب کوئی عورت اپنی محنت بیچنے کے لئے گھر سے نکل آئے‘ تو محسوس کر لینا چاہیے کہ وہ مجبوری کی انتہا کو پہنچی ہوئی ہے۔ اتنی ضرورت مند عورت کی اجرت روک کر‘ اسے سڑکوں پر آنے کے لئے مجبور کر دینا کسی بھی مسلمان حکمران کے لئے باعث رحمت ہرگز نہیں ہو سکتا۔ ہمارے پیارے رسول حضرت محمدﷺ نے فرمایا کہ ”مزدور کو اس کی اجرت اس کا پسینہ خشک ہونے سے پہلے دو۔‘‘ میرا خیال ہے‘ مظاہرے پر مجبور ہونے والی ان خواتین کا پسینہ تو مہینہ ختم ہونے سے پہلے خشک ہو جاتا ہو گا۔ انہیں اتنے عرصے کے بعد بھی اجرت نہ دینا مسلمانوں کی کسی حکومت کے لئے باعث فخر ہرگز نہیں ہو سکتا۔ ہر وقت اسلام کا نام لینے والے حکمرانوں کا محنت کش عورتوں کی اجرت کئی کئی مہینے کے لئے نہ دیناباعث شرم بھی ہے اور اسلامی تعلیمات کے خلاف بھی۔ پنجاب کے وزیراعلیٰ اور گھرسے لے کرحکومت تک سب کے خادم‘ شہبازشریف کو یہ زیب نہیں دیتا کہ اپنے بچوں کو گھر پہ چھوڑ کر مزدوری کے لئے نکلنے والی خواتین ‘ محض اجرت لینے کے لئے سڑکوں پر مظاہرے کریں۔ ان کی مزدوری روکنا ایک گناہ ہے۔ لیکن مزدوری مانگنے کے لئے ان کا سڑکوں پر نکلنا‘ حکومت کا دوسرا گناہ ہے۔ سننے میں آیا ہے کہ شہبازشریف کے ترجمانوں نے جون میں تنخواہیں دینے کا وعدہ کر لیا ہے۔ یہ مارچ کا مہینہ ہے۔ گھرکے چولہے ٹھنڈے چھوڑ کر سڑکوں پر نکلنے والی مجبور عورتوں کو یہ کہنا کہ تم اپنی اجرت تین ماہ کے بعد لے لینا‘ بڑے حوصلے کا کام ہے۔ یہ وعدہ کرنے والے بھی سرکاری ملازمین ہوں گے۔ کیا انہیں یہ بھی اندازہ نہیں کہ کئی ماہ سے تنخواہ سے محروم خواتین کے گھر میں روٹی کیسے پکتی ہو گی؟ اب وہ مزید تین ماہ ‘تنخواہ کے بغیر کیسے گزارا کریں گی؟ حکومت کرنے کے لئے بڑا حوصلہ چاہیے۔ کاش! ہمارے حکمرانوں میں یہ حوصلہ ہو۔
چار بجے آخر کار مصطفی کمال کی پریس کانفرنس شروع ہوئی۔ وسیم آفتاب اور افتخار عالم سٹیج پر نمودار ہوئے۔ ظاہر ہو گیا کہ وہ دونوں مصطفی کمال کی جدوجہد میں شریک ہونے آئے ہیں۔ یہ دونوں بھی ایم کیو ایم کی قیادت سے نالاں تھے۔ وسیم آفتاب ‘ ایم کیو ایم کی صف اول کی قیادت میں شامل رہے ہیں۔ رابطہ کمیٹی کی رکنیت کے علاوہ پالیسی ساز کمیٹیوں میں بھی اعلیٰ ذمہ داریاں نبھاتے رہے ہیں۔ خاصے پڑھے لکھے آدمی دکھائی دیئے۔ ان کی شکایت بھی یہی تھی کہ سابق رہنما جناب الطاف حسین اپنے ساتھیوں اور کارکنوں کی قربانیاں کسی مقصد کے بجائے ذاتی خواہشات کی بنیاد پر طلب کرتے ہیں اور ایم کیو ایم کے فدائین ہیں کہ بغیر سوچے سمجھے اپنی جانیں قربان کر دیتے ہیں۔ وسیم آفتاب کو بھی یہی شکایت تھی کہ الطاف حسین کو اپنی سیاست کے لئے لاشیں چاہئیں۔ سنتے تو بہت کچھ رہے ہیں۔ لیکن اب ایم کیو ایم کے صف اول کے رہنما علیحدہ ہو کرمصطفی کمال کے ساتھ آ رہے ہیں‘ تو ان سب کا ایک ہی شکوہ ہوتا ہے کہ ان کے سابقہ قائد جو مقصد کے لئے قربانیاں کہتے ہیں‘ اپنے کارکنوں کے خون پر سیاست کرتے ہیں۔ افتخار عالم صوبائی اسمبلی کے رکن تھے۔ مگر وہ اپنی رکنیت کو ٹھوکر مار کے ‘ مصطفی کمال کے ساتھ آئے۔ ان کی امتیازی خصوصیت یہ ہے کہ انہوں نے صوبائی اسمبلی کی رکنیت سے بھی استعفیٰ دینے کا اعلان کر دیا۔ اس رکنیت کی اہمیت قابل ذکر ہے۔ اس میں عزیز آباد کا علاقہ بھی ہے‘ جس کے اندر نائن زیرو موجود ہے۔ نائن زیرو‘ ایم کیو ایم کا انتہائی اہم اور حساس مرکز ہے۔ گزشتہ دنوں جب رینجرز نے یہاں چھاپہ مارا‘ تو اندر سے جو تحفے برآمد ہوئے‘ ان کی تفصیل قابل ذکر ہے۔ نائن زیرو کے اندر بھاری اسلحہ اور درجنوں جانفروش موجود تھے۔ ان کے نام دلچسپ ہیں۔ جیسے فلاں سر پھٹا۔ فلاں ٹیڑھا۔ فلاں خو نخوار اور وغیرہ وغیرہ۔ مصطفی کمال اور وسیم آفتاب اپنے بزرگوں پر فخر کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ وہ مہذب اور شائستہ لوگ تھے۔ اعلیٰ تعلیم یافتہ تھے اور معاشرے میں وہ عزت و احترام کے لائق تصور کئے جاتے تھے مگرقائد صاحب نے انہیں قاتل‘ اٹھائی گیرے‘ کن ٹٹے اور چھڑیئے بنا کے رکھ دیا۔ ایم کیو ایم سے تعلق ہونے کا مطلب یہ ہو گیاکہ یہ کسی بھی وقت‘ کسی بھی شریف آدمی کی عزت اتار کے‘ اسے ذلیل کر سکتے ہیں۔
وسیم آفتاب نے دردمندی سے بتایا کہ گزشتہ عیدالاضحی کے موقع پرخیرات اور کھالیں وغیرہ جمع کرنا مشکل ہو گیا تھا۔ نہ صرف سرکاری ادارے‘ ایم کیو ایم کے کارکنوں کو کھالیں جمع کرنے سے روک رہے تھے بلکہ عام شہریوں نے بھی مزاحمت شروع کر دی تھی۔ اس کے باوجود ہمارے کارکنوں کو مجبور کیا گیا کہ وہ کھالیں جمع کریں۔ ظاہر ہے‘ ایسا کرتے ہوئے وہ پرامن شہریوں پر طاقت کا استعمال بھی کرتے تھے اور جب یہ کارکن کھالیں جمع کر کے‘ اپنے مرکز کی طرف جا رہے ہوتے‘ تو انہیں رینجرز دبوچ کر‘ ان کی جمع شدہ کھالیںچھین لیتی۔ یہ ذلت آمیز کام کر کے بھی‘ ہمارے کارکن اپنے آپ کو پارٹی کا خدمت گزار سمجھتے۔ جبکہ ان کھالوں سے جمع ہونے والی رقم‘ لیڈرصاحب کی عیاشیوں پر خرچ ہوتی۔ ایک طرف تو الطاف حسین کو بہادر اور جنگجو سیاستدان سمجھ کران کا ساتھ دیا تھا اور ان کی خاطر قربانیاں دینے کو سارے کارکن ہر وقت تیار رہتے تھے اور دوسری طرف لیڈر صاحب کا یہ حال ہے کہ وہ جس اسٹیبلشمنٹ پر تنقید کیا کرتے تھے‘ اب وہ پیش کش کر رہے ہیں کہ اسٹیبلشمنٹ کو ان سے مشورہ کرنا چاہیے کیونکہ وہ بہت کچھ جانتے ہیں۔ الطاف حسین کے الفاظ ملاحظہ فرمائیے ”پہلے میں آپ کو تعاون کی پیش کش کرتا ہوں۔ آپ کو سلیوٹ کرتا ہوں۔ آپ نے اس کی لاج نہیں رکھی۔ ‘‘ الطاف حسین نے اپنی نیازمندی پر اصرار کرتے ہوئے کہا ”آپ میرے وطن کے سپاہی ہو۔ الطاف حسین کو دشمن مت سمجھو۔ اپنا سمجھو۔ ایم کیو ایم کو اپنا سمجھو۔‘‘ انہوں نے پیش کش کی کہ وہ 10 سال میں پاکستان کو دنیا کا سب سے ترقی یافتہ ملک نہیں تو دنیا کے ترقی یافتہ ملکوں کی صف میں لا کھڑا کریں گے اور اگر وہ اپنے دعوے کو پورا نہ کر سکے‘ تو پھر جو چور کی سزا‘ وہ ان کی۔ 20برس سے لندن میں مقیم ایم کیو ایم کے رہنما نے بھارتی خفیہ ادارے ”را‘‘ سے تعلقات کے الزام اور پیسے وصول کرنے کے بارے میں پوچھے جانے پر ہاں یا ناں میں جواب دینے سے گریز کیا۔ ان کا کہنا تھا ”ر‘‘ سے رسول اور ”الف‘‘ سے اللہ ہوتا ہے اور میرا ”را‘‘ سے یہی تعلق ہے اور رہے گا۔‘‘ موصوف نے سچ تو بول دیا لیکن غور سے سننے کی بات ہے۔ اللہ تعالیٰ معاف کرے۔ انہوں نے ”ر‘‘ رسول کے مبارک نام سے حاصل کی اور الف اللہ کے نام سے ان کی ”را‘‘ کا تعلق نعوذباللہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول ﷺ سے ہے۔ متحدہ کو چھوڑ کر جانے والوں کے بارے میں ایک سوال پر انہوں نے حسب روایت بڑے تکبر سے کہا ”انہوں نے کڑے سے کڑے وقت کا مقابلہ کیا ہے اور آئندہ بھی کریں گے۔‘‘ جب ان سے مائنس الطاف کے نعرے پر تبصرے کے لئے کہا گیا‘ تو 1992ء کا حوالہ دیتے ہوئے انہوں نے جواب دیا ”سابق آرمی چیف آصف نواز کا بیان اس بارے میں ریکارڈ پر ہے۔‘‘ یہ اقتباسات بی بی سی کی رپورٹ سے لئے گئے ہیں۔ آخر میں انہوں نے اپنی صحت کے حوالے سے پوچھے گئے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ ”وہ آج بھی اتنا کام کرتے ہیں کہ اگر کوئی صحت مند شخص بھی کرے‘ تو تین دن میں ہسپتال پہنچ جائے گا۔‘‘ میں نے مختلف ٹی وی ٹاک شوز میں ایم کیو ایم کے اندر سابقہ بغاوتوں اور حالیہ بغاوت کافرق واضح کرتے ہوئے کہا کہ پہلے کی بغاوتیں افراد تک محدود رہتی تھیں۔ لیکن اس مرتبہ یہ عوامی ردعمل کی نشانی ہے۔ وہ زمانے لد گئے‘ جب ”جو قائد کا غدار ہے‘ وہ موت کا حق دار ہے۔‘‘ اب قائد کے ساتھی کھلے بندوں بغاوت کر کے‘ سڑکوں پر پھر رہے ہیں۔ پریس کانفرنسیں کر رہے ہیں۔ اپنے سیاسی گروپ کی تنظیم کر رہے ہیں۔ جلسہ عام کا اعلان کر رہے ہیں اور قائد صاحب میں ہڑتال کی کال دینے کا بھی حوصلہ نہیں۔ کراچی وہی شہر ہے‘ جہاں الطاف بھائی کے اشارے پر سارا شہر بند ہو جاتا تھا اور اب وہ بغاوت کرنے والے ساتھیوں کے لئے اپنے وفاداروں سے سڑکوں پر جھاڑو دلوا رہے ہیں اور زندگی نارمل چل رہی ہے۔وقت بدلتا ہے اور الطاف بھائی بدلتے ہوئے بے رحم وقت کے تیور دیکھ کر حیرت میں ہیں اور اسی حیرت میں رخصت ہو جائیں گے۔انہیں گزرا ہوا وقت دوبارہ نہیں ملے گا۔ کسی کو بھی نہیںملتا۔ گڈلک الطاف بھائی! جیسے رہو‘ راضی رہو۔