گھائل شام پر سامراجی وار…ڈاکٹر لال خان
ہفتہ 14 اپریل کی صبح کا سورج ابھی ابھرا نہیں تھا کہ شام کی سرزمین‘ جہاں کے باسیوں کو پچھلے سات سال سے آگ اور خون کی ہولی میں نہلایا‘ سلگایا اور برباد کیا جاتا رہا ہے‘ پر ایک نئی سامراجی جارحیت مسلط کر دی گئی۔ امریکی‘ برطانوی اور فرانسیسی جنگی طیاروں نے شام کے مختلف مقامات پر 103 ٹوماہاک میزائل داغے۔ شام میں انسانی زندگیوں کی بربادی کی اتنی طویل داستان ہے کہ جان سے مارے جانے والے اور زخمی ہونے والوں کی تعداد‘ ادارے گننا ہی بھول گئے ہیں۔ ان پر ظلم و ستم کی یہ سیاہ رات مسلط کرنے والے سامراجی ہیں یا پھر جنونانہ ریاستی جبر۔ مختلف علاقائی ممالک کی وحشی پراکسیاں بھی مسلسل بربریت کا کھیل جاری رکھے ہوئے ہیں۔ مبینہ طور پر شام کی بشارالاسد حکومت کی طرف سے کیمیائی ہتھیاروں کے استعمال کے رد عمل میں سامراجی نمائندگان نے یہ جارحیت کی۔ بشارالاسد کو تو بھلا کیا نقصان پہنچنا تھا لیکن مزید عام شامی باشندے ایک اور دیوہیکل بارودی وار سے جانیں گنوا بیٹھے ہیں۔ ان کے گھروندے ملبے کے ڈھیر بن چکے ہیں۔ جو بچ گئے ہیں ان کی زندگیاں اس آگ اور خون کے کھیل میں ایک عذابِ مسلسل بن گئی ہیں‘ لیکن اگر اس سامراجی یلغار کا بغور جائزہ لیا جائے تو یہ ایک انتہائی بزدلانہ سفاکی تھی۔ کچھ عرصہ قبل امریکیوں نے شام کی ایک ایئر فورس بیس پر 59 ٹوماہاک میزائلوں سے حملہ کیا تھا۔ اس کے بعد بشارالاسد کا کچھ بگڑنے کی بجائے اس کی جابرانہ حاکمیت کی عوام میں مقبولیت مزید بڑھ گئی تھی۔ یہ حملہ بھی صرف ایک ہی وار کر کے پسپائی کی اختیار کرنے کی سامراجی پالیسی پر مبنی تھا۔ اس لئے یہ قیاس آرائی کہ تیسری عام جنگ شروع ہونے والی ہے‘ محض قیاس ہی تھی۔ پچھلے حملے میں شامی ایئر فورس نے 20 لڑاکا طیارے تباہ کیے گئے تھے‘ لیکن اس مرتبہ ان کے تمام طیارے اور ہیلی کاپٹر اس حملے میں محفوظ رہے ہیں۔ شامی دفاعی سسٹم نے103 میں 71 میزائل ہوا میں ہی پھاڑ کر بے اثر کر دیئے تھے۔ جن 4 برطانوی ”ٹارنیڈو‘‘ طیاروں نے حملے میں حصہ لیا وہ قبرص میں برطانوی اڈے سے اڑے اور شام کی فضائی حدود میں داخل ہوئے بغیر ہی میزائل پھینک کر واپس پرواز کر گئے۔ سامراجی جنگی ماہرین نے روس اور ایران کے شام میں موجود فوجی ٹھکانوں کے پاس سے بھی نہ گزرنے کی سٹریٹیجی اپنائی۔ روسی حکومت اور فوجی کمان کو سامراجی جنگجوئوں نے پہلے سے اس حملے کی خبر دے دی تھی‘ تاکہ ایسے فضائی راستے جن سے ان لڑاکا طیاروں نے آنا تھا‘ ان پر روسی طیارے ان گھنٹوں میں پرواز نہ کریں۔ لیکن سامراجیوں کے اس خونیں وار کے پیچھے خارجی پالیسیوں اور جیو سٹریٹیجک مفادات سے زیادہ داخلی بحرانوں کو زائل کرنے کی سازش معلوم ہوتی ہے۔ 19ویں صدی کے شہرۂ آفاق جرمن جرنیل کارل فان کلازویٹس نے ایک مرتبہ جنگ کے یہ تعریف کی تھی ”جنگ محض داخلی سیاسی پالیسیوں کا بیرونی پُرتشدد تسلسل ہوتا ہے‘‘۔ اس گھاگ اور کامیاب فوجی جرنیل کا یہ تجزیہ درست ہے۔ آج سامراجی ممالک داخلی حالت‘ بیرونی تضادات اور تصادم کی جانب سے اپنے محنت کشوں کی توجہ ہٹانے کے لئے جنگی وحشت کو معاشرے پر مسلط کرنا ناگزیر خیال کرتے ہیں۔ ڈونلڈ ٹرمپ کے وائٹ ہائوس میں براجمان ہونے کے بعد امریکی سماج میں معاشرتی‘ اقتصادی اور سیاسی بحران کہیں زیادہ شدت اختیار کر گیا ہے۔ شاید ہی کوئی دن ایسا گزرتا ہو جب اس کے عملے اور کابینہ سے کسی کو برطرف نہ کیا جاتا ہو‘ یا کوئی استعفیٰ نہ دیتا ہو۔ اس پر روس کی مداخلت سے انتخابات جیتنے کا الزام ہے‘ جس کی تفتیش سے ٹرمپ بوکھلاہٹ کا شکار ہو گیا ہے۔ ایک نیا جنسی سیکنڈل بے نقاب ہونے سے اس کی بیوی ملینا ٹرمپ نے اس کے لیے دروازے بند کر دیئے ہیں۔ تجارتی جنگ خصوصاً چین سے‘ معاشی عدم استحکام کو شدید تر کر رہی ہے۔ امریکہ میں اس وقت اضطراب اور تنائو کی اذیت کا شکار عوام پریشان ہیں۔ یہ کسی بغاوت میں بھی ابھر سکتے ہیں۔ برطانیہ میں وزیر اعظم ٹریسا مے کی حکومت مسلسل ہچکولے کھا رہی ہے۔ اس کی ہر پالیسی ناکامی کا شکار ہے۔ ”بریگزٹ‘‘ سے نہ صرف تجارتی نقصانات بہت بڑھ جائیں گے‘ بلکہ معاشی زوال گہرا ہو کر کریش میں تبدیل ہو سکتا ہے۔ محرومی اور بد حالی برطانیہ کے محنت کشوں میں بڑھتی جا رہی ہے۔ بائیں بازو کے لیڈر جیرمی کوربن سے برطانوی حکمران طبقات خوفزدہ ہیں۔ وہ مے کی لاغر حکومت کو اس لئے دھکا دے کر چلا رہے ہیں کہ کوئی بڑا سیاسی رد و بدل نئے انتخابات کا باعث بن سکتا ہے۔ چونکہ کوربن کے جیتنے کے امکانات کافی روشن ہیں‘ اس لئے بائیں بازو کی لیبر پارٹی حکومت برطانوی سرمایہ داری کو کاری ضربیں لگا سکتی ہے۔ یہاں بھی ٹریسا مے نے ایک جنگی جنون کو ابھار کر اپنے مسائل اور ناکامیوں سے توجہ ہٹانے کی کوشش کی ہے۔ فرانس کی جدید تاریخ میں صدر میکرون کی مقبولیت کا گراف سب سے تیزی سے گرا ہے۔ اس کی مزدور دشمن جارحانہ پالیسیوں کے خلاف فرانس کا پرولتاریہ (مزدور طبقہ) 1995ء کے 23 سال بعد شدت سے ہڑتالوں اور سماجی ہلچل پیدا کرنے میں کامیاب ہوا ہے۔ ریلوے‘ ایئر فرانس‘ میونسپل ورکرز اور فرانسیسی محنت کش طقبے کے بڑے حصے آج باہر نکلے ہیں اور حکومت کو مفلوج کرنے کی جانب بڑھ رہے ہیں۔ فرانس کے تقریباً تمام بڑے شہروں میں یونیورسٹیوں میں طلبہ قبضے کر رہے ہیں۔ اس صورت حال میں میکرون نے بھی فرانسیسی قومی شائونزم ابھار کے تحریک زائل کر نے کی کوشش کی ہے‘ لیکن لمبی جنگ یہ کر نہیں سکتے۔ یہ اپنی فوجیں اب مشرقِ وسطیٰ کے کسی ملک میں اتارنے کی صلاحیت سے عاری ہو چکے ہیں۔ ایسے میں یہ ان حملوں کو میڈیا کے ذریعے اچھلوا کر کچھ عرصے کے لئے محنت کش عوام کو ششدر کر سکتے ہیں‘ لیکن داخلی بحران اور بغاوتیں جانے والی نہیں ہیں۔ سرمایہ دارانہ نظام اتنا بوسیدہ ہو چکا ہے کہ اب وہ ترقی یافتہ ممالک میں بھی کوئی سماجی استحکام دینے سے قاصر ہے۔ روسی صدر پیوٹن نے اسی کو ”جارحیت‘‘ قرار دے کر اس کے خلاف سخت اقدامات کرنے کی بڑھک ماری ہے۔ روسی سرمایہ دارانہ حاکمیت بھی کسی بڑے تصادم کی متحمل نہیں ہو سکتی ہے۔ اسی طرح ایرانی حکمرانوں نے بھی رد عمل مذمت تک ہی محدود رکھا ہے۔ لیکن اسرائیل اس وار کا فائدہ اٹھاتے ہوئے شام میں مزید علاقے پر قبضہ کرنے سے گریز نہیں کرے گا۔ فلسطینیوں پر جو ظلم کے پہاڑ یہ صہیونی ریاست ڈھا رہی ہے‘ اس کی نہ ”عالمی کمیونٹی‘‘ نہ ”اقوام متحدہ‘‘ نہ انسانی حقوق کے علم بردار مغربی جمہوری حکمرانوں اور نہ ہی عرب اور مسلمان ملکوں کی حاکمیتوں کو کوئی پروا ہے۔ ان سب کی سیاست اور حکمرانی کا مقصد اپنے مالی مفادات کا حصول ہے‘ مظلوم فلسطینیوں کی آزادی سے ان کا کوئی حقیقی واسطہ نہیں ہے۔ لیکن اس جنگ میں کسی کو کامیابی نہیں ہو گی۔ بشارالاسد کو اقتدار سے ہٹانے کے لئے جو اربوں ڈالر کے بارود سے شام کو تاراج کیا گیا ہے‘ اور ہزاروں معصوموں کا قتل عام کیا گیا ہے‘ اس کے بعد بھی آج اسد کا اقتدار قائم ہے‘ لیکن ایک اہم عنصر امریکہ‘ برطانیہ‘ فرانس اور روس کی جنگی صنعت کے منافع خوری کے مفادات ہے۔ یہ دیوہیکل اسلحہ چلے گا تو مزید بکے گا‘ اور اس جنگی ساز و سامان کے دھنوانوں کے منافع جات بڑھیں گے۔ جو ٹوموہاک میزائل داغے گئے‘ ان میں سے ہر ایک میزائل 16 کروڑ 38 لاکھ روپے کا ہے۔ اگر 105 میزائلوں کی لاگت کا تجزیہ کیا جائے تو اس سے دو سو سکول یا ہسپتال شام میں بنائے جا سکتے تھے‘ لیکن اس نظام کو اپنے بحران کی شدت میں خون منہ کو لگ گیا ہے۔ وہ ترقی کی بجائے اب صرف بربادی دے سکتا ہے۔ عراق‘ لیبیا‘ یمن‘ شام‘ سوڈان اور خطے کے دوسرے ممالک میں اس درندگی نے ریاستیں گرائی ہیں‘ اس کی وجہ سے معاشرے ہی منتشر ہوئے ہیں۔ شام کا مسئلہ ان جنگوں یا سامراجیوں کے تحت مذاکرات سے حل نہیں ہو گا۔ 2011ء کی طرح ایک نئے عرب انقلاب کا ابھر کر اس بربریت‘ خونریزی‘ غربت اور محرومی کا خاتمہ اس نظام کو اکھاڑ کر انقلاب کی سرخروئی سے کرنا ہو گا۔