گھنگھرو کی طر ح۔۔۔۔۔!علی معین نوازش
میں کچھ روز سے اس با ت پر حیران تھا کہ ایک نوجوان جس نے او لیول میں اور پھر اے لیول کے سارے مضامین میں اے گریڈز حاصل کیے تھے،سائنس کے مضامین میں اسکے ہمیشہ اچھے مارکس آئے تھے لیکن میرے پوچھنے پر کہ مستقبل میں کیا بننے کا ارادہ ہے، اس نے عجیب جواب دیا کہ نہ میں ڈاکٹر بننا چاہتا ہوں اور نہ ہی انجینئر، بزنس مین بننے کا بھی کوئی ارادہ نہیں ہے، تو میں نے بے صبری سے پوچھا ،کیوں بلکہ ایک ہی سانس میں یہ فقرہ بھی کہہ دیا کہ پھر تم بننا کیا چاہتے ہو۔ نوجوان نے دونوں ہا تھو ں سے اپنا سر کھجانا شروع کر دیا اور پھر اسے احساس ہوا کہ دونوں ہاتھوں سے زور زور سے سر کھجانے سے اسکے بال بے ڈھنگے ہو گئے ہیں اس نے موبائل نکالا اور اسکا کیمرہ اپنی طرف کر کے موبائل کی اسکرین کی مدد سے اپنے بال درست کئے اور سر کو ایک جھٹکا دے کر بالوں کو اپنی جگہ بٹھانے کی ناکام کوشش کرتے ہو ئے کہنے لگا ،سر میں ماڈل بننا چاہتا ہوں، مجھے ماڈلنگ کرنا اچھا لگتا ہے۔ ڈاکٹر، انجینئر، پروفیسراور بزنس مین یہ سب فضول پیشے ہیں ان کاموں میںکوئی گریس نہیں، بورنگ اور گریس سے خالی میں کوئی پیشہ نہیں اپنانا چاہتا۔ ابھی میں اس نوجوان کی باتوں سے ہونے والی حیرانگی سے نکل نہیں پایا تھا کہ اگلے ہی روز مجھے ایک دوسرے نوجوان نے حیرت زدہ کرد یا۔ وہ بھی بلا کا ذہین
اور تمام مضامین اے گر یڈزلئے ہوئے تھا۔ لیکن وہ بھی نہ ڈاکٹر، نہ انجینئر، نہ پروفیسر اور نہ ہی بزنس مین بننا چاہتا تھا۔ میرے سوال در سوال پر وہ اٹھا، باہر گلی میں کھڑی اپنی گاڑی سے ایک بیگ اٹھا لایا ،وہ مجھے تجسس میں دیکھتے ہوئے کہنے لگا سر میں آپ کو ابھی بتاتا ہوں کہ میں کیا بننا چاہتا ہوں اس نے بیگ کھولا تو ایک کپڑے میں لپٹے ہوئے گھنگھروئوں کی پٹی نکالی، انہیں ہاتھ میں لے کر دوسرے ہاتھ پر مارا چھن چھن کی بھرپور آواز نے گویا اسکو یہ پیغام دیا کہ گھنگھر و بالکل ٹھیک حالت میں ہیں ۔اس نے وہ گھنگھرو اپنی ٹانگ پر باندھے اور ہاتھوں سے سہلا کر انہیں درست کیا اور پھر ایک دو مرتبہ اپنے پائوں کو زمین پر مارتے ہوئے مزید ایڈجسٹ کیا، پھر اس نے اپنے بیگ سے دو لیڈ کی یعنی کچی پینسلیں نکالیں اور سامنے پڑے ہوئے گلا س، کپ اور پلیٹ کو ایک لائن میں رکھتے ہوئے انہیں پنسلوں کی مدد سے بجانا شروع کیا اور جس ٹانگ پر گھنگھرو باندھے تھے اس ٹانگ کو بھی پائوں کے ذریعے زمین پر مار مار کر اس نے باقاعدہ ایک مشہو ر گانے کی دھن بجانا شروع کر دی۔ اس نے خو بصو ر ت دھن سنانے کے بعد مجھے متوجہ کرتے ہوئے کہا سر یہ دھن کیسی تھی آپ کو کیسی لگی۔ میں نے کہا زبردست یار تم تو پورے کے پورے فنکار ہو۔ نوجوان شکریہ بجالاتے ہوئے کہنے لگا کہ سر میں اپنا بینڈ بنانا چاہتا ہوں کیونکہ اس کام میں نام بھی ہے اور اچھا دام بھی ہے۔ میں نے کہا کہ مجھے تمہاری فنی صلاحیتوں پر کوئی شک نہیں رہا اور نہ ہی مجھے میوزک، گانے یا شوبز کے کسی دوسرے شعبے پر اعتراض ہے۔ بلکہ میں بھی اسی صف میں شامل ہوں جو یہ سمجھتے ہیں کہ بچے کو پوری سپورٹ ہونی چاہیے کہ وہ جس شعبہ کو اختیار کرنا چاہے، یہ اسکا حق ہے۔ لیکن پھر بھی میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ تمہارا تعلیمی ریکارڈ اس بات کی گواہی دے رہا ہے کہ تم ایک ذہین اور محنتی اسٹوڈنٹ ہو، تم بہت اچھے ڈاکٹر، انجینئر، پروفیسر یا سائنسدان بن سکتے ہو ۔ لیکن تم ایک میوزیشن یا گلوکار بننا چاہتے ہو۔ لڑکے نے زوردار قہقہہ لگایا۔ میں اس نوجوان لڑکے کے اعتماد سے بھی بہت متاثر ہوا اس نے گفتگو اور اپنا موقف بیان کرتے ہوئے کسی جگہ بھی ہچکچاہٹ محسوس نہ کی۔ قہقہہ لگانے کے بعد کہنے لگا سر۔ ڈاکٹر، انجینئر، پروفیسر اور سائنسدان یہ بھی اچھے پیشے ہیں لیکن میں ان کو نہیں چاہتا پھر اس نے مختلف پاکستانی اور انٹرنیشنل گلوکاروں اور میوزک بینڈز کے نام گنوانا شروع کیے اور ساتھ ساتھ انکے ایک شو کی
فیس ،انکا طمطراق انکی فین فالونگ اور انکی گاڑیاں اور انکے مہنگے ڈریسز اورا سٹائل کا تفصیل سے ذکر کرنے بیٹھ گیا ۔ ان دو بچوں کے کیس نے مجھے جھنجھلا کے رکھ دیا اور میں سوچ کی اس تبدیلی پر جب غور کرنے لگا تو مجھے معلوم ہوا کہ ہمارا میڈیا جس طرح ہمارے پیشوں کو پینٹ کر رہا ہے۔ پھر ان پیشو ں کے لوگ دھر نو ں،ہڑ تالوں اور مطالبوں سے آ ئے روز سڑکوں کو بلا ک کر دیتے ہیں، ان ساری باتوں سے بعض پیشوں کے حوالے سے نوجوانوں کی سوچ کو تبدیل کر دیا ہے۔ وہ پیشوں کو گریس اور ڈس گریس کی نظر سے دیکھنے لگے ہیں۔ بطور میڈیا پرسن میں یہ سمجھتا ہوں کہ ہمیں اپنے شوز، اپنے ڈراموں اور آرٹ کے دیگر شعبوں کے ذریعے اپنی نئی نسل کی رہنمائی کرنی ہے اور ڈس گریس کیے ہوئے شعبوں کو گریس دینا ہے ورنہ ہمارا سارا ٹیلنٹ کہیں اور نکل جائے گا اور ہم اچھے ڈاکٹرز، پروفیسر، سائنسدان اور افسران تلاش کرتے رہیں گے جبکہ نو جو ا ن گھنگھر و کی طر ح بجتے نظر آ ئیں گے۔