منتخب کردہ کالم

گھوڑے کی گھاس سے دوستی ….بللا ل غوری

اگر آپ کو پتہ چلے کہ جس گوالے سے آپ دودھ لیتے ہیں وہ اپنے بچوں کو یہ دودھ پلانے کا روادار نہیں تو آپ اس دودھ کے معیار کے بارے میں کیا رائے قائم کریں گے؟کیا کوئی ایسی فاسٹ فوڈ چین کامیاب ہو سکتی ہے جس کے مالکان کے بارے میں یہ بات زبان زدِعام ہو کہ وہ خود اپنے لئے برگر کسی اور جگہ سے منگواتے ہیں؟جس قانون دان کو اس کے اپنے عزیز و اقارب وکیل نہ کرتے ہوں ،جس ہسپتال سے اس کے اپنے اہل خانہ دوائی لینے کا خطرہ مول نہ لیتے ہوں،اس وکیل اور ڈاکٹر کا دھندہ چوپٹ ہو جاتا ہے یہی وجہ ہے کہ ملک چلانے والے اپنے مقامی اداروں پر بھروسہ کرتے ہیں اور ضرورت پڑنے پر ان کی خدمات مستعار لیکر سب کو یہ پیغام دیتے ہیں کہ ہمارے ہاں معیار پر کوئی سمجھوتہ نہیں کیا جاتا۔مجھے یاد ہے جب ٹونی بلیئر برطانیہ کے وزیر اعظم تھے تو ان کے دل کی دھڑکنیں بے قابو ہوگئیں ۔ عارضہ قلب کے باعث انہیں لندن کے مقامی ہسپتال میں داخل کیا گیا اور الیکٹرک شاک کے ذریعے دل کی دھڑکن معمول پر لائی گئی۔حالیہ برس کے آغاز میں اطالوی وزیراعظم پائولو جینتلونی کو دل کی تکلیف لاحق ہوئی تو ڈاکٹروں نے انجیو پلاسٹی کا مشورہ دیا ۔اطالوی وزیر اعظم نے اپنے دارالحکومت روم کے”جیمیلیـ ہاسپٹلـ‘‘ سے آپریشن کروانے کا فیصلہ کیا۔اسرائیل کے سابق وزیر اعظم ایہود اولمرٹ کو سرجری کی ضرورت پیش آئی تو کسی غیر ملکی ہاسپٹل کے بجائے مقامی سرکاری ہاسپٹل کی خدمات حاصل کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔موجودہ وزیر اعظم نیتن یاہو کے مثانے میں پتھری تشخیص ہوئی جسے نکالنے کے لئے بیہوش کرکے آپریشن کیا جانا تھا ، وفاقی وزیر برائے امور یروشلم نے قائم مقام وزیر اعظم کی ذمہ داریاں سنبھالیں اور اسرائیل کے مقامی ہسپتال میں مقامی ڈاکٹروں نے سرجری کرکے پتھری نکال دی۔برطانیہ انتہائی ترقی یافتہ ملک ہے،اٹلی کا شمار معاشی اعتبار سے مضبوط ممالک میں ہوتا ہے اس لئے وہاں کی طبی سہولیات کا ایک پسماندہ اور غریب ملک سے موازنہ کرنا مناسب نہیں۔اسرائیل کیساتھ مقابلہ کرنا بھی شاید بعض دوستوں کو ناگوار گزرے اس لئے میں رقیبانہ حیثیت کے حامل ہمسایہ ملک بھارت کی ایک مثال پیش کرنے کی اجازت چاہوں گا۔یہ بات ہے غالباًجنوری 2009ء کی جب منموہن سنگھ بھارت کے پردھان منتری تھے۔ایک روز انہیں دل کی تکلیف ہوئی تو طبی معائنے کی نوبت آئی ۔ڈاکٹروں کا پینل ان کے دل کی پیچیدگیاں دیکھ کر چکرا گیا۔چکرانے کی وجہ یہ تھی کہ منموہن سنگھ 1990ء میں اوپن ہارٹ سرجری کروا چکے تھے، 2004ء میں ایک مرتبہ پھر عارضہ قلب نے سر اٹھایا تو انجیو پلاسٹی کا مرحلہ آیا اور ان کے خون کی گردش رواں رکھنے کے لئے سٹنٹ ڈال دیئے گئے۔ اب جب چھاتی میں درد کے باعث معائنہ ہوا تو پتہ چلا کہ وزیر اعظم کی پانچ شریانیں بند ہیں ۔تین شریانیں تو پہلے سے ہی دھکا اسٹارٹ تھیں اب مزید دو آرٹریز نے بھی کام کرنا چھوڑ دیا ہے۔یعنی یہ ان کی پہلی نہیں بلکہ تیسری ہارٹ سرجری تھی۔ان کے ذاتی معالج کا کہنا تھا کہ انتہائی اہم شخصیات سے متعلق ضابطہ اخلاق والی ”بلیو بک‘‘میں واضح طور پر لکھا ہے کہ وزیر اعظم کو دنیا میں میسر سب سے بہترین طبی سہولیات میسر کی جائیں گی اور چونکہ یہ معاملہ دل کا ہی نہیں بلکہ انتہائی گمبھیر بھی ہے اس لئے کوئی خطرہ مول لئے بغیر دنیا کے سب سے بہترین ہسپتال میں مانے ہوئے ہارٹ اسپیشلسٹ سے آپریشن کروایا جائے۔ زندگی کسے پیاری نہیں ہوتی ،ہر شخص کی حتی المقدور کوشش ہوتی ہے کہ وہ اپنے لئے بہترین علاج اور قابل بھروسہ معالج کا بندوبست کرے لیکن یہاں معاملہ ذاتی زندگی سے کہیں زیادہ اہم تھا۔منموہن سنگھ کے پیش نظر یہ بات تھی کہ ہر سال لاکھوں افراد اپنا علاج کروانے کی غرض سے بھارت آتے ہیں۔میڈیکل ٹوراِزم نے انڈسٹری کی شکل اختیار کر لی ہے اور اس سے ہر سال ملک کو 3ارب ڈالر کی خطیر رقم حاصل ہوتی ہے۔اگر انہوں نے اپنا آپریشن کروانے کے لئے کسی غیر ملکی ہسپتال کا انتخاب کیا تو لوگوں کا اعتماد اٹھ جائے گا اور یہ میڈیکل ٹوراِزم انڈسٹری دھڑام سے نیچے آ گرے گی۔ اس معاشی مفاد سے قطع نظر یہ سوچ بھی ان کے بیرون ملک علاج کی راہ میں حائل تھی کہ جو بھارتی شہری یہ سمجھتے ہیں کہ ان کے ہسپتالوں میں بہترین علاج کی سہولت میسر ہے ، ان کے جذبات و احساسات کا کیا عالم ہو گا؟یقینا ان کے اعتماد کو ٹھیس پہنچے گی۔اسی کشمکش میں انہوں نے اپنے مشیروں اور ہمدردوں کی باتیں نظر ا نداز کرتے ہوئے بھارت میں ہی علاج کروانے کا فیصلہ کر لیا۔24جنوری 2009ء کو دہلی کے آل انڈیا میڈیکل انسٹیٹیوٹ میں سرجری کی تاریخ مقرر ہوئی۔ممبئی کے ایشین ہارٹ انسٹی ٹیوٹ کے ہارٹ اسپیشلسٹ ڈاکٹر راما کانتا پانڈا نے آپریشن کیا جو کامیاب رہا اور چند ہفتوں بعد منموہن سنگھ نے صحت یاب ہوکر اپنی ذمہ داریاں دوبارہ سنبھال لیں۔
ہمارے ہاں بھی گزشتہ برس وزیر اعظم نوازشریف کے سینے میں تکلیف ہوئی اور ڈاکٹروں نے سرجری کا مشورہ دیا تو انہوں نے لندن کے ایک ہسپتال سے آپریشن کروانے کا فیصلہ کیا۔ پاکستان میں امراض قلب کے ایسے بہترین ماہرین موجود ہیں جو عالمی شہرت کے حامل ہیں۔تب یہ بات کرناشاید مناسب نہ تھا مگر اب یہ کہنے میں کوئی حرج نہیں کہ بہتر ہوتا، وہ پاکستان کے کسی ہارٹ اسپیشلسٹ سے سرجری کروانے کا خطرہ مول لے کر اپنے ملک کے وقار میں اضافے کا باعث بنتے۔ اسی طرح چند ماہ قبل جب ان کی اہلیہ بیگم کلثوم نواز علیل ہوئیں تو ایک مرتبہ پھر برطانیہ کا رُخ کیا گیا اور کینسر کی تشخیص ہونے کے بعد برطانیہ کے ایک مہنگے ہسپتال میںان کا علاج ہو رہا ہے۔خدا کرے ہمارے سابق وزیر اعظم کی شریک حیات جلد شفا یاب ہوں مگر ایک بار پھر دل سے وہی ہوک سی اٹھتی ہے اور یہ سوال دماغ پر ہتھوڑے برساتا ہے کہ کیا پاکستان میں کوئی ایک بھی ایسا ہاسپٹل نہیں جہاں بیگم صاحبہ کو معیاری علاج کی سہولت فراہم کی جا سکتی۔یقینا ان کے شوہر اور اولاد کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ جہاں چاہیں علاج کروائیں اگر نوازشریف ایک عام آدمی یا محض ایک کاروباری شخصیت ہوتے تو کوئی ان سے یہ بات نہ کہتا مگر وہ تین مرتبہ اس ملک کے وزیر اعظم رہے ہیں۔ میاں نوازشریف کے لندن میں دل کے آپریشن اور بیگم کلثوم نواز کے علاج سے متعلق تو پھر کوئی گنجائش نکالی جا سکتی ہے اوریہ جواز پیش کیا جا سکتا ہے کہ کوئی خطرہ مول نہیںلیا جا سکتا تھا اور دنیا کے بہترین علاج کی سہولت سے فائدہ اٹھانا تھا اس لئے بیرون ملک علاج کا فیصلہ کیا گیا مگر چند روز قبل میڈیا کے ذریعے معلوم ہوا کہ وزیر اعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف نے لاہور کے ایک نجی ہاسپٹل میں اپنی آنکھ کا آپریشن کروایاہے ۔کیا ہی اچھا ہوتا اگر وہ اس آپریشن کے لئے کسی نجی ہاسپٹل کے بجائے سرکاری ہاسپٹل کا انتخاب کرتے اور لوگوں کو یہ یقین دلاتے کہ پنجاب کے سرکاری ہسپتالوں میں بہترین علاج کی سہولت میسر ہے۔ اسکولز کے حوالے سے ماڈل ٹائون میں ایک اعلیٰ سطح کا اجلاس ہو رہا تھا میں جس میں بطور مبصر موجود تھا۔خادم اعلیٰ برس پڑے ،کہنے لگے کیا وجہ ہے کہ جن تعلیمی اداروں کو ہم نے گلے سے اتار ا وہ اب ترقی کر رہے ہیں اور پھر سوال کیا کہ ان سرکاری تعلیمی اداروں کو کیسے بہتر کیا جا سکتا ہے؟میں نے بصد احترام عرض کیا ،آپ قانون بنا دیں کہ سول سرونٹس اور سیاستدانوں کے بچے سرکاری سکولوں میں پڑھیں گے اور ان کے خاندان سرکاری ہسپتالوں میں ہی علاج کرواسکیں گے پھر چھاپے مارنے اور دوڑ دھوپ کرنے کی ضرورت ہی نہیں رہے گی سب کچھ ٹھیک ہو جائے گا۔اجلاس میں شریک بعض افراد تلملائے ،کچھ حاضرین مسکرائے کن اکھیوں دیکھنے والے چند اصحاب کے تاثرات سے یوں لگا جیسے کہ رہے ہوں ”آپ گھوڑے کی گھاس سے دوستی کرانا چاہتے ہیں‘‘۔