گیارہ برس بعد…رؤف کلاسرا
نواز شریف کی بدھ کے روز لندن سے کی گئی پریس کانفرنس سن کر کئی پرانی یادیں ابھریں۔گیارہ برس قبل8 ستمبر 2007ء کا دن تھا اور یہی لندن کا ہوٹل جہاں اب انہوں نے پریس کانفرنس کی ہے۔اس دن ہمارے استاد اور صحافی ایم ضیاء الدین‘ ارشد شریف اور میں وہاں موجود تھے۔ سب تجسس کا شکار تھے کہ کیا اعلان ہوگا۔ نواز شریف نے وطن واپسی کا فیصلہ کر لیا تھا ۔میرے ساتھ ہمارے دوست کالم نگار عرفان صدیقی تھے اور ہم دونوں سٹیج سے کچھ دور دیوار کے ساتھ کھڑے تھے‘ کیونکہ وہاں اتنے سیاسی لوگ اور میڈیا کے نمائندے موجود تھے کہ ہمیں بیٹھنے تک کی جگہ نہیں ملی تھی ۔ نواز شریف اپنے سامنے رکھی تقریر پڑھ رہے تھے۔ جب انہوں نے ایک آدھ صفحہ پڑھ لیا تو میں نے عرفان صدیقی سے کہا: سرجی لگتا ہے یہ تقریر آپ نے ہی لکھی ہے؟ صدیقی صاحب مسکرا دئیے‘ انہوں نے نہ ناں کی اور نہ ہی ہاں۔ ان کی پراسرار لیکن پرکشش مسکراہٹ میں ہی جواب چھپا تھا ۔ کچھ دیر بعد انہیں تجسس ہوا تو پوچھا: آپ کو کیسے پتہ چلا؟ میں نے کہا: آپ کے کالم برسوں سے پٖڑھ رہا ہوں ۔ لندن میں اس ایک سال کے دوران سب کو جان گیا ہوں‘ کسی میں اتنی قابلیت نہیں کہ وہ اتنی اچھی اردو اور الفاظ کے چنائو کے ساتھ اتنی اچھی تقریر لکھ سکے۔ صدیقی صاحب پھر مسکرائے۔
میں اکثر نواز شریف کو جب لکھی ہوئی تقریر پڑھتے دیکھتا تھا تو حیران ہو کر سوچتا کہ انہیں پتہ بھی ہے کہ وہ کیا پڑھ رہے ہیں‘ یا ان لفظوں کا کیا مطلب ہے ‘یا ان کا کیا اثر ہوگا ؟ وہ لطیفوں یا کھانوں کے علاوہ کسی اور سنجیدہ موضوع پر مسلسل گفتگو کرنے کی صلاحیت سے محروم تھے ۔
تو کیا دنیا بھر میں سپیچ رائٹر کی لکھی ہوئی ہر بات کو حرف آخر سمجھا جاتا ہے؟ کہیں کوئی ریہرسل کرائی جاتی ہے یا بس تقریر ہاتھ میں دے کر کہا جاتا ہے چڑھ جا سولی بیٹا رام بھلی کرے گا؟
ایک دفعہ یوسف رضا گیلانی سے ملاقات ہوئی تو وہ امریکہ جانے سے پہلے اپنے مشیروں کے ساتھ اپنی متوقع تقریر کی ریہرسل کررہے تھے‘ حنا ربانی کھر اور نیشنل سکیور ٹی ایڈوائزر جنرل محمود درانی انہیں تیاری کرارہے تھے۔ نواز شریف کا پتہ نہیں کہ وہ ریہرسل کرتے تھے یا انہیں لکھ کر تھما دیا جاتا تھا اور وہ پڑھ دیتے تھے‘ فل سٹاپ اور کامہ سمیت۔
گیارہ سال قبل کی وہ پریس کانفرنس بھی بہت اہم تھی۔ ہم سب سمجھ رہے تھے کہ نواز شریف اپنی کشتیاں جلا کر جارہے ہیں ‘اور ایک نیا نواز شریف ابھر رہا ہے ‘ ماضی پیچھے رہ گیا ہے ‘ وہ شاید جلاوطنی کے ان برسوں میں بہت کچھ سیکھ چکے ہیں۔ نواز شریف معصوم چہرہ بنا کر سب کو یقین دلاتے کہ اس بار وہ نئی دکان کھولیں گے۔ ان کے پاس پاکستان میں انقلاب لانے کی ایک لمبی فہرست تھی ۔ہر دفعہ کہتے کہ انہیں وزیراعظم نہیں بننا ‘اس دفعہ انقلاب ہوگا ۔
نواز شریف کی وہ گیارہ برس پہلے کی تقریر اس لیے اہم تھی کہ سعودی عرب بھی ان کے خلاف ہوگیا تھا اور اسلام آباد میں بیٹھ کر سعودی انٹیلی جنس چیف نے وہ معاہدہ میڈیا کو دکھایا تھا جس کے تحت نواز شریف نے دس سال تک پاکستان سے باہر رہنا تھا ‘اور وہ اب معاہدہ توڑ کر پاکستان آ رہے تھے۔ یہ اطلاعات لندن پہنچ رہی تھیں کہ جنرل مشرف کسی قیمت پر نواز شریف کو واپس نہیں لوٹنے دیں گے‘ رہی سہی کسر نواز شریف سے ہاتھ اٹھا کر سعودیوں نے پوری کر دی تھی ۔ ان حالات میں ہم صحافی بھی کچھ کنفیوژ تھے کہ سعودی عرب بھی اگر جنرل مشرف کے کے موقف کا حامی ہو گیا تو پھر وہ کون سی طاقت ہے جس کے بل بوتے پر نواز شریف پاکستان جارہے ہیں اور انہیں کوئی خطرہ بھی نہیں ؟
شاید نواز شریف کیمپ کا خیال تھا کہ پاکستان میں ماحول بہت بدل چکا ہے۔ جنرل مشرف کے خلاف لال مسجد آپریشن اور چیف جسٹس افتخار چوہدری کے بعد چلنے والی تحریک نے مشرف کو بہت کمزور کردیا تھا۔ پاکستانی میڈیا بھی جنرل مشرف کے خلاف ہوگیا تھا ۔ عدالتیں آزاد ہوگئی تھیں ‘ یوں نواز شریف کو محسوس ہورہا تھا کہ اب ان کی راہ میں کوئی اتنی بڑی رکاوٹ نہیں رہ گئی اور یہ اچھا وقت ہے پاکستان جانے کا ۔ اگر کوئی کسر رہ گئی تھی تو کئی لوگ انہیں یہ یقین دلانے کی کوششیں کررہے تھے کہ وہ پاکستان کے امام خمینی بن کر جارہے ہیں اور لوگ اسلام آباد ایئرپورٹ توڑ کر جہاز سے انہیں کندھوں پر بٹھا کر بذریعہ جی ٹی روڈ لاہور لے جائیں گے۔ یوں اس بیک گراؤنڈ میں نواز شریف کو بھی یقین ہوچلا تھا کہ جب وہ اسلام آباد ایئرپورٹ اتریں گے تو انقلاب آچکا ہوگا اور ایران کے شاہ کی طرح جنرل مشرف فرار ہوکر کسی اور ملک میں پناہ تلاش کررہا ہوگَا۔ نواز شریف اور شہباز شریف کا حوصلہ بڑھانے کے لیے مصطفیٰ کھر بھی لندن پہنچے ہوئے تھے۔ شہباز شریف اور کھر ایک دوسرے کے ہاتھوں میں ہاتھ ڈال کر ہیتھرو ایئرپورٹ پر ٹہل رہے تھے۔
نواز شریف کو قائل کر دیا گیا تھا کہ ان کے اترنے کی دیر ہے پاکستان بدل جائے گا ۔ لندن سے اسلام آباد تک کی سات گھنٹے تک کی لمبی فلائٹ کے دوران نواز شریف اس تاثر کے زیراثر رہے کہ وہ انقلاب لانے جارہے ہیں۔انہیں پہلا دھچکا اس وقت لگا جب اسلام آباد کی حدود میں انہوں نے سیٹلائٹ فون سے اپنی پارٹی کے لیڈروں کو فون کرنے کی کوششیں کیں تو پتہ چلا کہ سب کے فون بند ہیں۔ اکثر نے خود پولیس کو بلا کرگرفتاری دے دی تھی۔ ایئر پورٹ پر واقعی پرندے کو بھی پَر مارنے کی جرأت نہ تھی۔ ایک بھی نواز لیگ کا ورکر یا بندہ میلوں تک نظر نہ آتا تھا ۔ نواز شریف کا انقلاب اسلام آباد ایئرپورٹ پر اترنے سے پہلے ہی جواب دے گیا تھا۔
جب جہاز اترا تو نواز شریف کو پتہ چلا کہ ان کی کہانی ختم ہوچکی ہے اور انہیں ایئرپورٹ سے باہر نہیں جانے دیا جائے گا۔ نیب کے افسران بھی ا یئر پورٹ پر موجود تھے‘ جن کے پاس ان کے ورانٹ گرفتاری تھے۔ نیب نے ایک اور حکمت علمی پر کام کیا ہوا تھا کہ کسی طرح نواز شریف کو یہ تاثر دیا جائے کہ انہیں دراصل گرفتار کیا جارہا ہے‘ تاکہ وہ زیادہ مزاحمت نہ کریں ۔ اس بات پر نواز شریف اور ان کے ساتھ آئے ہوئے لوگ بھی سب مطمئن تھے کہ چلیں نواز شریف اٹک جیل جائیں گے اور انہیں سعودی عرب نہیں بھیجا جائے گا ۔ نواز شریف اس وقت ہر قیمت پر اٹک جیل جانے کے لیے تیار تھے‘ ان کے خیال میں یہ ان کی کامیابی تھی کیونکہ چند روز بعد انہیں چیف جسٹس افتخار چوہدری نے ویسے بھی ضمانت دے دینی تھی ‘ یوں وہ ہیرو بن جائیں گے اور ان پر ڈیل کے تمام داغ بھی دھل جائیں گے کہ دیکھو میں جس جیل سے ڈیل کر کے باہر گیا تھا اسی جیل میں اپنی مرضی سے واپس آگیا ہوں ۔ نیب افسران نے پورا پورا ڈرامہ کیا تھا جس کے ہم سب عینی شاہد ہیں۔ ہم میڈیا کے نمائندے بھی ریلیکس تھے کہ چلیں آخر نواز شریف کو جیل بھیجا جارہا ہے اور انہوںنے بڑی حد تک اپنا مقصد پورا کر لیا ہے ۔ دو تین گھنٹے ایئرپورٹ پر مذاکرات ہوتے رہے ۔ نواز شریف کی کوشش تھی کہ انہیں گرفتار کیا جائے اور ایئرپورٹ سے بے شک نیب اپنی کسٹڈی میں لے کر جیل بھیج دے’ لیکن وہ امیگریشن سربراہ کلیم امام کو‘ جو آج کل آئی جی پنجاب ہیں ‘ اپنا پاسپورٹ دینے کو تیار نہیں تھے۔ کچھ دیر بعد کمانڈوز نے ہم صحافیوں سے سرگوشیاں کرنا شروع کردیںکہ آپ لوگ ایک طرف ہوجائیں۔ اسلام آباد ایئر پورٹ کے راول لائونج میں اچانک ہلچل مچ گئی ‘ کسی کو پتہ نہ چلا کہ کب کہاں سے کمانڈوز آئے اور انہوں نے نواز شریف کو اٹھایا۔ ہر طرف شور مچ گیا‘ اس شور میں انہوں نے نواز شریف کو باتھ روم میں بند کیا اور وہاں سے گھسیٹ کر باہر کھڑی بس میں ڈال کر انہیں ایئرپورٹ پر کھڑے سعودی جہاز میں ڈال دیا ۔
حالات کا ستم دیکھیں کہ نواز شریف گیارہ برس قبل اسلام آبادایئرپورٹ پر تین گھنٹے تک مزاحمت کرتے رہے کہ انہیں سعودی عرب کی بجائے جیل بھیجا جائے۔ آج گیارہ برس بعد ان کی خواہش پوری ہورہی ہے۔ وہ اب سعودی عرب نہیں بلکہ‘ اٖڈیالہ جیل جارہے ہوں گے‘
وہی نیب افسران ہوں گے‘ وہی گرفتاری کے وارنٹ ہوں گے ۔
انسان بھی اپنے جیسے عام انسانوں پر حکومت کرنے کے لیے کیا کیا کرتب کرتا ہے۔ بے رحم وقت بھی‘ بے تحاشہ دولت اور مرتے دم تک اقتدار کی خواہشات کے غلام ‘بے بس انسانوں کے ساتھ کیا کیا تماشے کرتا ہے‘ جو خود کو زمینی خدائوں کا درجہ دے بیٹھتے ہیں۔ لیکن ہم انسان بھلا کب سیکھتے ہیں