ہاتھی جو نظر نہیں آتا…..نسیم احمد باجوہ
انگریزی زبان کا ایک مقبول ِعام مقولہ ہے: But there is an elephant in the room ۔اس کا ترجمہ نہیں‘بلکہ اس کا مفہوم آج کے کالم کا عنوان بنا۔ مطلب یہ ہے کہ آپ ایک کمرے میں کھڑے ہیں‘چاروں طرف دیکھ رہے ہیں‘ آپ کی بصارت عینک کی محتاج نہیں‘ آپ کی قوت ِمشاہدہ پر بظاہر کوئی سوالیہ نشان نہیں لگایا جا سکتا‘ آپ کی باریک بینی کا یہ عالم ہے کہ آپ کو سامعین کے ہجوم کی آخری صف میں کھڑے شخص کی قمیص کا ٹوٹا ہوا تیسرا بٹن بھی نظر آرہا ہے‘ مگر ستم ظریفی یہ ہے کہ آپ کو اس کمرہ میں موجود ہاتھی نظر نہیں آرہا۔ Micro یعنی چھوٹے اور کم اہمیت کے مسائل پر ساری توجہ مرکوز‘ مگر Macro یعنی بڑے اور اہم مسائل سے بے خبری‘ یہ مرض بڑھ جائے ‘تو نوبت یہاں تک پہنچ جاتی ہے کہ آپ کو دوسرے کی آنکھ کا تنکا تو بخوبی نظر آجاتا ہے‘ مگر اپنی آنکھ کا شہتیر نظر نہیں آتا۔ لطیفہ یہ ہے کہ اس ہاتھی نے کوئی سلیمانی ٹوپی نہیں پہن رکھی کہ نظر نہ آئے‘ آپ دیکھنا چاہیں ‘تو ضرور نظر آجائے گا۔ اسحاق ڈار اور اس سے پہلے شوکت عزیز اور ان کے درمیان والے وزیر خزانہ (جن کا مجھے نام نہیں آتا) اور ان گزرے ہوئے 70 سالوں میں تخت نشین نامی گرامی شخصیات‘ جنہوں نے وزارت ِخزانہ کا قلمدان سنبھالا‘ان میں سے کسی کو بھی ہاتھی نظر نہ آیا۔ملک غلام محمد اور چوہدری محمد علی اور محمد شعیب (جو حال ہی میں جاری کی جانے والی خفیہ سرکاری دستاویزات کے مطابق امریکہ کا تنخواہ یافتہ جاسوس تھا اور ایوب خان کی کابینہ میں ذوالفقار علی بھٹومرحوم کا سب سے بڑا مخالف)۔ انڈین فلم ‘پاکیزہ ‘میں ہیروئن (غالباً اس کا نام مینا کماری تھا) بڑے درد ناک لہجہ میں ایک گیت گاتی ہے اور دیکھنے سننے والوں کی توجہ اس تلخ ‘مگر ناقابل تردید حقیقت کی طرف بار بار دلاتی ہے کہ انہی لوگوں نے اس کا دوپٹہ لے لیا ہے‘ یعنی چھین لیا ہے‘ اسے بے آبرو کیا ہے۔ ستم زدہ خاتون فریاد کرتی ہے اور بار بار کہتی ہے کہ یہی لوگ اس کادوپٹہ چھین لینے کے ذمہ دار ہیں۔ وہ مجرموں کی نشاندہی بھی کرتی ہے‘ آپ جانتے ہیں کہ زبان خنجرخاموش رہے‘ تو پھر آستین کا لہو پکار اٹھتا ہے ۔ ‘پاکیزہ‘کی اداکارہ صرف ایک فرد کا نام نہیں‘ لاکھوں کروڑوں مظلوم‘بے زبان‘ بے بس‘ ستم زدہ افتادگانِ خاک کی علامت ہے ۔
اب آیئے ہم آج کے موضوع کی طرف واپس چلیں۔ پاکستان کے کسی دور دراز گائوں میں رہنے والی روایتی سکینہ بیگم‘ چرخہ کاتنے والی‘ چکی پیسنے والی‘ اُپلوں سے چولہا جلانے والی عام گھریلو خاتون بھی یہ سیدھی سی بات سمجھتی ہے کہ گھر کا خرچ اگر آمدنی سے ایک روپیہ بھی زیادہ ہوا تو اڑوس پڑوس سے قرض مانگنا پڑے گا۔ گھر کے برتن پہلے اور پھر ہاتھ کی چوڑیاں اونے پونے داموں فروخت کرنا ہوں گی۔ آمدنی اور خرچ میں فرق کی خلیج چوڑی ہوتی گئی‘ تو وہ منحوس دن بھی آئے گا‘ جب مکان یا زمین گروی رکھنا پڑے گی۔ مالی بحران اور بڑھا اور نوبت دیوالیہ پن تک آئی‘ تو گھر بھی ساہو کار کا اور زمین بھی ‘اس کی۔ دودھ دینے والی بھینس بھی وہ کھول کر لے جائے گا اور ہل جوتنے والا محنتی اور خدمت گزار بیل بھی۔ اس کے نتیجہ میں سکینہ بی بی اور اس کے بچے ذلیل و خوار ہوں گے‘ قریبی شہر جا کر سڑکوں پر بھیک مانگتے نظر آئیں گے‘ شوہر گم شدہ افراد میں شامل ہو جائے گا ‘ اس لئے وثوق سے نہیں کہا جا سکتا کہ اس کا کیا حشر ہوگا۔اب آپ غور فرمائیں کہ ایک گمنام گھرانے پر یہ قیامت کیوں ٹوٹی؟ وجہ صاف ظاہر ہے کہ آمدنی کے مقابلے میں اخراجات زیادہ ہونے کی وجہ سے۔ ‘پاکیزہ‘ کی ادا کارہ کی طرح یہ کالم نگار بھی اسی دکھ اور کرب سے یہ فریاد کرتا ہے کہ انہی لوگوں نے‘ یعنی ہمارے حکمران طبقہ نے 70 برسوں میں ہمارے سروں سے دوپٹہ نوچ کر تارتار کر دیا ہے۔ دوبارہ لکھتا ہوں‘ انہی لوگوں نے۔ میں بدقسمتی سے شروع سے حساب کے مضمون میں صفر یا اس کے لگ بھگ نمبر لیتا رہا ہوں‘ آپ کو کس طرح گنتی کر کے بتائوں کہ آج ہمارے سر پر کتنے ارب یا کتنے کھرب ڈالروں کا ہمالیہ پہاڑ جتنا بڑا بوجھ ہے۔ آپ ڈاکٹر شاہد حسن صدیقی یا ڈاکٹر شاہدہ وزارت ِیا ڈاکٹر اکمل حسین یا ڈاکٹر عشرت حسین یا ڈاکٹر شمشاد اختر (نگران کابینہ کی رکن) کو فون کر کے پوچھ لیں۔ آنے والے دور کے متوقع وزیر خزانہ جناب اسد عمر سے دریافت کر لیں کہ انہوں نے کانٹوں کا تاج اپنے سر پر سجانے سے پہلے یہ تو ضرور سوچا ہوگا کہ جائیں تو جائیں کہاں؟ اب تو انہوں نے خیرات دینے والوں کے دروازے بند ہونے کی آواز بھی سن لی ہے‘ اگر بینکوں سے لئے گئے اربوں کے قرضے معاف نہ کرائے گئے ہوتے‘ اگر اربوں کھربوں ڈالر ملک سے چرا کر غیر قانونی ذرائع سے دبئی‘ جنیوا اور لندن نہ بھجوائے گئے ہوتے‘ اگر ہر سال سرکاری محصولات میں ایک ہزار ارب روپے کی چوری نہ کی جاتی‘ تو حالات مختلف ہوتے۔14اگست کے دن ہمارا قومی پرچم قریہ بہ قریہ لہرائے گا‘ مگر دکھ کی بات یہ ہے کہ ہماری جھولی میں خیرات ڈالنے والے‘ ہمیں پہلے ہی ڈپٹنا شروع ہو گئے ہیں۔ اسد عمر صاحب کو بے چین کرنے کے لئے یہ ایک مسئلہ ہی کافی ہے کہ وہ اپنے بجٹ کو متوازن بنائیں ‘تو کیونکر؟ اگر وہ چاہتے ہیں کہ آئی ایم ایف سے قرض مانگیں‘ تو میرے زخمی دل سے یہ دعا نکلتی ہے کہ انہیں اس درخواست کا جواب نفی میں ملے ‘ انہیں خیرات نہ ملے۔
بقول علامہ اقبالؔ:
تری دعا ہے کہ ہو تیری آرزو پوری
مری دعا ہے تری آرزو بدل جائے
ا س کالم نگار میں بڑی بڑی خامیاں دو ہیں‘ اول یہ کہ یہ مسکین اور گمنام شہری دوہری شہریت کا مالک ہے‘ دوم یہ کہ اس پر ماہر ِ معیشت ہونے کی تہمت نہیں لگائی جا سکتی۔ مذکورہ بالا خامیوں کو صدقِ دل سے تسلیم کرتے ہوئے کالم نگار کو یہ جسارت کرنے کی اجازت دیجئے کہ وہ (انگریزی محاورہ کے مطابق) ہمت اور جرات کو تھام کر مندرجہ ذیل دس تجاویز پیش کرے‘ جن سے ہم آمدنی اور خرچ کے بڑھتے ہوئے فرق کو مٹا سکیں۔ (1) اگر ہم اپنی برآمدات نہیں بڑھا سکتے تو اپنی درآمدات کو کم تو کر سکتے ہیں۔ (2)بیرون ملک رہنے والے ہر پاکستانی سے سو پائونڈ فی کس عطیہ اور ایک ہزار پائونڈ کا قرض حسنہ مانگیں۔ (3)یورپ اور امریکہ میں پاکستان کی ملکیت اربوں ڈالروں کی جائیداد فروخت کی جائے۔ (4) وزیروں اور سرکاری افسروں کے غیر ملکی دوروں اور بیرون ملک علاج کرانے پر پابندی لگائی جائے‘ تاکہ اربوں روپے بچائے جا سکیں۔(5) ایک ایسا مستقل ادارہ قائم کیا جائے‘ جو قومی اخراجات میں زیادہ سے زیادہ بچت کے طریقے سوچنے اور پھر ا نہیں قانونی شکل دینے کا ذمہ دار ہو۔ (6)قومی سلامتی کو خطرے میں ڈالے بغیر دفاعی اخراجات کم کئے جائیں۔ (7)سوئس بینکوں اور پاناما کی کاغذی کمپنیوں میں چھپائے ہوئے اربوں ڈالروں کی بازیابی کے لئے ٹھوس اور موثر قدم اٹھائے جائیں۔ (8)محکمہ ریلوے کی ملکیت اربوں روپوں کی زمین نیلام کر کے قومی خزانہ میں جمع کرائی جائے۔ (9)سرکاری افسروں کے تبادلے دورِ غلامی کی یادگارہیں‘ میں نصف صدی سے ایک آزاد ملک میں رہتا ہوں‘ یہاں کسی بھی افسر کا کبھی اس کے شہر سے باہر تبادلہ نہیں کیا جا تا۔ تبادلے کروانے اور رکوانے کے لیے رشوت کا بازار گرم کیا جاتا ہے اور قومی خزانہ پر ہر سال اربوں روپوں کا بوجھ ڈالا جاتا ہے۔ (10)اہل وطن سے مشورے مانگے جائیں کہ ہم قومی آمدنی میں کس طرح اضافہ کرسکتے ہیں؟ میرے اندازے کے مطابق یہ کالم یومِ آزادی پرشائع ہوگا۔ آپ سب کو یومِ آزادی مبارک‘ مگر خوشی کے ان لمحات میں آزادی کو پائوں تلے روندنے والے ہاتھی کو دیکھنا نہ بھولیں۔ یہ ہاتھی آج تک ہماری کسی حکومت یا وزیر خزانہ کو نظر نہیں آیا۔