ہراساں کرنے والے!….عطا ء الحق قاسمی
میرے دوستوں میں 25سے 90سال تک کی عمر کے نوجوان اور بزرگ شامل ہیں ۔ان میں سے سب سے اچھی صحت 90سالہ دوست کی ہے مگر وہ اس وقت بہت دکھی ہوتے ہیں جب وہ کسی نوجوان کے انتقال کی خبر سنتے ہیں، اس سے کہیں زیادہ صدمہ انہیں یہ تبصرہ سن کر پہنچتا ہے کہ مرنے کی باری اس 90سالہ بزرگ کی تھی لیکن مر 30سالہ نوجوان گیا ہے ۔خیر یہ بات تو یونہی درمیان میں آگئی میرا آج کا کالم دراصل میرے گورے چٹے ہینڈسم نوجوان افضال کے حوالے سے ہے جو جب کبھی ملتا تھا بھریمحفل میں بڑے فخر سے یہ بتایا کرتا تھا کہ کل وہ بازار سے گزر رہا تھا کہ ایک خوبصورت لڑکی نے اس کے قریب سے گزرتے ہوئے اس کی چٹکی لی۔یا یہ کہ وہ جب کبھی کسی گرلز کالج کے سامنے سے چھٹی کے اوقات میں گزرتا ہے لڑکیاں اس پر آوازے کستی ہیں ’’اوئے چکنے ، کبھی ہماری طرف بھی دیکھ لیا کرو ‘‘وغیرہ وغیرہ ، گزشتہ روز معروف گلو کار اور اداکار علی ظفر پر لڑکیوں کو ہراساں کرنے کا الزام سامنے آیا تو ایک دوست نے افضال سے کہا ’’ہاں بھئی آج کی کوئی تازہ واردات سنائو ’’بولا ‘‘ آج اس کی ایک ہمسائی نے اپنے گھر کے نیم و ا دروازے سے اس کا ہاتھ پکڑ لیا اور کہا ’’سوہنیو کبھی ہم سے بھی بات کر لیا کرو‘‘ دوست نے پوچھا ’’پھر تم نے کیا کہا ؟‘‘بولا ’’تم جانتے ہو میں کیسا آدمی ہوں میں نے اس کا ہاتھ جھٹک دیا اور کہا ’’تمہارے گھر میں بھائی بیٹا کوئی نہیں ہے‘‘ .
xADVERTISEMENT
اس پر مجھے علی ظفر یاد آ گیا جسےمیں آج سے تقریباً پندرہ برس قبل کراچی میں ایک ٹی وی چینل کی کار میں ملا تھا جو ہمیں ہمارے ہوٹل چھوڑنے جا رہی تھی ۔ایک پیارا سا بچہ بہت مودب ، اچھی اچھی باتیں کرنے والا، اب اسکے بارے میں ایک نہیں دو تین اکٹھے اسکینڈل سنے، تو میں ہکا بکا رہ گیا ،الزام لگانے والی خواتین کو میں نےاسکرین پر دیکھا ہوا ہے وہ بھی خوش شکل ہیں مگر میں ذاتی طور پر ان میں سے کسی کو نہیں جانتا۔مجھے سمجھ نہیں آرہی علی ظفر جیسے مقبول اسٹار اور ہینڈسم نوجوان پر یہ الزام لگا ہے تو میں سوائے حیران ہونے کے اور کیا کر سکتا ہوں ۔ دوسری طرف الزام لگانے والی خواتین بھی کوئی معمولی خواتین نہیں ہیں اور علی کی کولیگ ہیں۔انہیں کیا ضرورت تھی کہ اپنے ایک ساتھی کو یوں بدنام کرتیں، سو میں اس معاملے میں کوئی رائے دینے کی پوزیشن میں نہیں ہوں، البتہ اگر ہراسگی کی کچھ تفصیلات سامنے آتیں تو میں اپنا وزن کسی پلڑے میں ڈال سکتا تھا چنانچہ میں یہ قصہ یہیں ختم کرتا ہوں اور اس سے متعلقہ ایک اہم ایشو پر بات کرتا ہوں ۔
بات یہ ہے کہ یہ امر شک وشبہ سے بالا ہے کہ ہمارے معاشرے میں ورکنگ خواتین کوہر شعبہ زندگی میں ہراساں کیا جاتا ہے ہر کوئی لائن مارنے کی کوشش کرتا ہے اس بدتمیزی اور بیہودگی کی زد میں خصوصاً وہ خواتین آتی ہیں جو اپنی ملازمت یا جو بھی ان کا ذریعہ روزگار ہے کسی کی خوشنودی کی محتاج ہوں ۔ان میں سے کچھ لڑکیاں اپنے پورے خاندان کی کفیل ہوتی ہیں چنانچہ ان کی اس کمزوری سے مزید فائدہ اٹھانے کی کوشش کی جاتی ہے ۔اگرچہ ہماری حکومت نے اس سلسلے میں قوانین بنائے ہیں مگر شکایت درج کرانے و الی ستم رسیدہ لڑکی کو بیک وقت بہت سے امور کے بارے میں سوچنا پڑتا ہے ۔ایک ذاتی رسوائی کا بے بنیاد خوف اور دوسرا انتقامی کارروائی کا بہت ٹھوس قسم کا خوف ، چنانچہ میرے ایک اندازے کے مطابق 90فیصد اس نوع کے کیسز سامنے ہی نہیں آتے !
تاہم یہ سارے معاملے کا صرف ایک پہلو ہے ہونا یہ چاہئے کہ اس طرح کا معاملہ سامنے آنے پر اس وقت تک اس پر نہ کوئی تبصرہ کیا جائے اور نہ اسے اخبارات اور ٹی وی چینلز کی ہیڈلائن بنایا جائے جب تک ہراسانی کی کمیٹی کسی فیصلے تک نہیں پہنچتی اس کی ایک مثال میرے سامنےہے ہماری جنگ آزادی کے مجاہد آغا شورش کاشمیری کے صاحبزادے سعود شورش پر اس نوع کا الزام لگا اور اس کے ساتھ ہی میں ان کی کردار کشی شروع ہو گئی ۔مگر جب تحقیقاتی کمیٹی کی رپورٹ سامنے آئی تو انہیں مکمل طور پر بے قصور قرار دیا گیا۔ مگر جو بدنامی ہونا تھی وہ تو ہو گئی، سو میری درخواست ہے کہ بغیر ٹھوس ثبوت اور بغیر تحقیقات کے کردار کشی کا سلسلہ پورے خاندان کو کسی کو منہ دکھانے کے قابل نہیں چھوڑتا۔
مغرب میں تو ہراساں کرنے کا الزام محض اس بات پر بھی لگایا جا سکتا ہے کہ ’’ملزم‘‘ نے اسے دیکھا تو دیکھتا ہی چلا گیا جبکہ ہماری شاعری اور لوک داستانوں میں تو اسے تقریباً ’’عشق حقیقی‘‘ کا درجہ دیا جاتا ہے ۔انگریزی میں اسے ’’لوایٹ فرسٹ سائٹ ‘‘ کہا جاتا ہے ۔بہرحال یہ معاملہ بہت سنجیدہ ہے اور اسے پوری سنجیدگی سے دیکھنے کی ضرورت ہے ۔
جب تک حقائق سامنے نہیں آ جاتے میری ہمدردیاں بیک وقت خوش شکل علی ظفر اور ان پر ہراساں کرنے کا الزام لگانے والی خوش شکل خواتین کے ساتھ ہیں۔اس سے پہلے میں کسی پر تبرّابھیجنے کے حق میں نہیں ہوں!