ہر بار وہی چالیس ڈول…ہارون الرشید
جمہوریت کے کنویں سے جب تک نالائقی‘ سطحیت اور جذباتیت کے خبیث جانور نہیں نکالے جاتے‘ پانی کے چالیس ڈول نکالنے کا فائدہ کیا؟ایک نیم تعلیم یافتہ معاشرے کا کوئی مستقبل نہیں ہوتا۔ یہ سب جانتے ہیں‘ بس پاکستان کے سیاسی مدّبرہی نہیں جانتے۔ ہر بار وہی چالیس ڈول ہی نکالتے ہیں!
سینتالیس برس ہوتے ہیں‘ استادِ گرامی عالی رضوی سے ان کا پسندیدہ شعر سنانے کی درخواست کی۔ ٹالنے کی کوشش کی‘ نالائق شاگرد مصر رہا تو جھجکتے ہوئے انہوں نے پڑھا:
مجھ سے پیمانِ وفا کرکے گیا ہے کوئی
اے مری عمر ِرواں اور ذرا آہستہ
لیڈرانِ کرام کے بیانات پڑھیں تو مرحوم یاد آتے ہیں… اور کبھی تو ہنسی چھوٹ جاتی ہے۔خاص طور پر عصرِ حاضر کے شیرشاہ سوری جناب شہبازشریف کے ارشادات: مہلت ملی تو پاکستان کو ملائیشیا اور ترکی بنا دوں گا۔ دس برس کی فرصت تو آپ کو ملی۔ اس میں کیا کارنامہ آپ نے انجام دیا؟ اورنج ٹرین اور میٹرو بسوں پہ سرمائے کی بربادی؟ پینے کا صاف پانی تک آپ مہیا نہ کر سکے‘ ہر سال اللہ کے کم از کم دو لاکھ بندے‘ یرقان کا شکار ہو جاتے ہیں۔ ہسپتالوں میں ایک ایک بستر پہ دو دو‘ تین تین مریض پڑے ہیں۔ تعلیمی اداروں کا حال یہ ہے کہ ہر سال ان کی تعداد پہلے سے کم ہوتی چلی گئی۔ دنیا میں کہیں ایسا بھی ہوتا ہے ؟سرکاری اہتمام سے جو سکول آباد ہیں‘ ان کا عالم یہ کہ سنجیدہ تجزیوں کی بجائے‘ اب مزاحیہ پروگراموں کا موضوع ہو گئے۔ برسبیلِ تذکرہ‘ دنیا ٹی وی کے مقبول پروگرام ”حسبِ حال‘‘ کے میزبان جنید سلیم نے سوال کیا ہے کہ میاں محمد نوازشریف کو کرپشن پہ اگر سزا نہیں ہوئی تو کیا ون ویلنگ پہ ہوئی ہے؟مہاتیر محمد اور طیّب اردوان نے اپنے اقتدار کے پہلے ایک عشرے میں فی کس آمدن کو دوگنا کردیا تھا۔ پاکستان میں جمہوریت کے ایک عشرے میں قرضے دوگنا سے زیادہ ہوگئے۔
تین چار دن سے پروفیسر ڈاکٹر علاّمہ احسن اقبال نے واویلا مچا رکھا ہے کہ بھاشا ڈیم کی تعمیر کے لیے ان کی حکومت نے زمین خریدلی تھی اور فنڈز مختص کر دیئے تھے‘ سفید جھوٹ! زرداری حکومت نے تو جو کیا‘ سو کیا‘ نوازشریف کے عہد میں ادائیگی کا آغاز اس قدر تاخیر سے ہوا کہ حال ہی میں تکمیل ہوئی ہے۔ تعمیر کے لیے فنڈز ضرور مخصوص کیے گئے مگر اتنے کہ اونٹ کے منہ میں زیرہ۔ ڈیم کے لیے پہلی اینٹ بھی اب تک رکھی نہیں گئی۔ 2013ء میں اگر آغاز کردیا جاتا۔ جنگلہ بسوں پہ روپیہ برباد کرنے کی بجائے‘ 2013ء ہی میں اگر ادائیگی کردی جاتی تو اب تک ڈیم پر کم از کم 60 فیصد کام مکمل کر لیا جاتا۔ اگر میٹرو کی رفتار سے کیا جاتا تو شاید مکمل ہو جاتا۔ ڈیرہ اسمٰعیل خان میں چھ لاکھ ایکڑ زمین زیرکاشت آتی۔ صدیوں کی محرومی کا مارا ایک پورا خطہّ خوشحال ہو جاتا۔ کم از کم بیس لاکھ پاکستانیوں کی زندگیاں بدل جاتیں۔ نوازشریف اقتدار میں آئے تو ڈیم کی تعمیر کے لیے 800 ارب درکار تھے‘ اب 1200 ارب سے زیادہ مطلوب ہیں۔ اسی طرح تاخیر ہوتی رہی تو لاگت 2000 ارب سے بڑھ زیادہ ہو جائے گی۔
2013ء میں بجلی کے ایک یونٹ کی قیمت ساڑھے سات روپے تھی‘ اب چودہ روپے کو جا پہنچی ہے۔ ایل این جی کا ایک یونٹ 8 ڈالر کا تھا‘ عالمی منڈی میں قیمتیں بڑھنے سے اب 12ڈالر کو جا پہنچا ہے۔ بھاشا ڈیم سے بجلی پیدا ہو رہی ہوتی یا اس کے قریب پہنچ چکے ہوتے تو اربوں روپے سالانہ کی بچت ہوتی یا اس کا آغاز قریب ہوتا۔
قطر سے ایل این جی کا معاہدہ شریف خاندان کی ترجیح تھا؛ چنانچہ اٹھارہ سو ارب ڈالر کا سمجھوتہ کرلیا گیا۔ ایرانی پائپ لائن سے گیس کے حصول پر لاگت تقریباً اس سے آدھی ہوتی۔ اسی طرح 2013ء میں بجلی کمپنیوں کو یک مشت چار سو اسی ارب ادا کیے گئے۔ آسانی سے چار برس پر اسے تقسیم کیا جا سکتا تھا۔ صوبائی حکومتوں کی مدد سے بجلی چوری کا سدّباب کیا جاتا۔ ہر کہیں خصوصی پولیس فورس تشکیل دی جاتی۔ کنڈے ڈالنے اور بل ادا نہ کرنے والوں کے کنکشن قطع کیے جاتے تو کم از کم ایک سو ارب روپے سالانہ کی بچت ہوتی۔ گردشی قرضہ اب ایک بار پھر 573 ارب کو جا پہنچا ہے۔ شریف خاندان اور اس کے حواریوں کو مگر اس کی کیا پروا۔ آنے والی حکومت بھگتے گی۔ نیم تعلیم یافتہ اور نیم قبائلی معاشرے کو اکسانے میں آسانی رہے گی۔ اسی لیے ہر حکومت کو تعلیم پر صرف کرنے سے گریز رہا۔ احسن اقبال قسم کے پروفیسر قوم کو بتایا کریں گے کہ مہنگائی کی جو لہر اٹھی ہے‘ نوازشریف اور شہبازشریف ہرگز اس کے ذمہ دار نہیں۔
خود اپنے پانچ برس تو بیس پچیس ارب ڈالر کے مہنگے قرضے لے کر بتا دیئے‘ آنے والی نسلیں یہ قرض چکاتے ہوئے ہانپتی رہیں گی۔ اچھے دنوں کے انتظار میں ‘میاں محمد نوازشریف جیل میں پڑے رہیں گے۔ عالمی اسٹیبلشمنٹ ان کی مدد کو آ سکی تو لندن میں آسودگی کے مزے لوٹا کریں گے۔ وطن میں پروفیسر ایسے لوگ ان کا ڈھول پیٹتے رہیں گے‘ جنہوں نے دس ارب روپے‘ نارووال پہ اس لیے صرف کر دیئے کہ ابرارالحق کو ہرا سکیں۔یونیورسٹی تو خیر‘ چھ ارب روپے کا سٹیڈیم بنا دیا‘ تباہ حال ریلوے کا سرمایہ ایک نئے ریلوے سٹیشن کی تعمیر پہ لٹا دیا۔دس ارب روپے کے تعمیراتی منصوبوں کا کمیشن کتنا ہوتا ہے؟ کیا نارووال کے سب منصوبے پروفیسر صاحب کے تجویز کردہ ٹھیکیداروں کو ملے اور کیا ان میں سے بعض نے‘ نون لیگ کے لیے مالی ایثار کا مظاہرہ کیا؟ تحقیقات کی جائیں تو جمہوریت خطرے میں پڑ جائے گی۔ پٹواری کالم نگار اور مبصر چیخ چیخ کر آسمان سر پہ اٹھا لیں گے۔
تحریکِ انصاف بھی اب ایک لطیفہ ہی بن چکی۔ ان لوگوں کی مدد سے‘ عمران خان نیا پاکستان تعمیر کرنے کا دعویٰ کرتے ہیں‘ 2013ء کے المناک واقعات کے باوجود جو ٹکٹوں کی تقسیم کا کوئی نظام وضع نہ کر سکے۔ جہانگیر ترین‘ علیم خان‘ شاہ محمود قریشی‘ عامر کیانی‘ ہر ایک نے کم از کم پانچ سات سیٹیں ضائع کردیں۔ تحریکِ انصاف کی حکومت اگر تشکیل پا سکی تو اسے بلوچستان کے قبائلیوں‘ جنوبی پنجاب کے دلاوروں‘ ایم کیو ایم اور قبائلی پٹی کے ارکان پہ انحصار کرنا ہوگا۔ کیسے کیسے مطالبات وہ نہ کریں گے۔ کس کس کے نخرے نہ اٹھانا پڑیں گے۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ پچاس لاکھ گھر واقعی تعمیر کیے جا سکیں تو ایک کروڑ سے زیادہ ملازمتیں پیدا کی جا سکتی ہیں۔ مغربی ممالک میں ایک چھوٹے گھر سے 3 نوکریاں جنم لیتی ہیں‘ پاکستان میں پانچ سے چھ ہو سکتی ہیں۔ سوال مگر یہ ہے کہ ہائوسنگ کے ایسے خیرہ کن منصوبے کی ذمہ داری کس کو سونپی جائے گی؟ کیا تحریکِ انصاف میں ایسا ایک بھی لیڈر موجود ہے؟ اسد عمر تو دو سو ارب روپے ڈوبنے کے باوجود ابھی پی آئی اے کی نجکاری کے لیے قائل نہیں ہو سکے۔ فرض کیجئے‘ مولانا فضل الرحمن حکومت کا حصّہ بننے پر آمادہ ہوگئے‘ جس کا انہوں نے اشارہ دیا ہے‘ تو ظاہر ہے کہ وہ اکرم درّانی کو ہائوسنگ کی وزارت سونپنے کا مطالبہ کریں گے۔ سب جانتے ہیں کہ اکرم درّانی‘ ذرا کشادہ مزاج واقع ہوئے ہیں۔ پھر ایک چھوٹے سے چھوٹے مکان کی تعمیر کے لیے بارہ لاکھ کی بجائے کم از کم پندرہ لاکھ درکار ہوں گے۔ بصورتِ دیگر لاہور کے اعجاز چوہدری یا راولپنڈی کے عامر کیانی کو یہ ذمہ داری سونپی جا سکتی ہے۔ اللہ کے فضل و کرم سے‘ نتائج پھر بھی اتنے ہی شاندار ہوں گے۔
لیڈرانِ کرام کو اس نکتے کا ادراک کب ہوگا کہ جمہوریت کا بنیادی ادارہ سیاسی پارٹیاں ہیں‘ پارلیمنٹ نہیں۔ پارلیمنٹ سیاسی پارٹیوں کے بطن سے جنم لیتی ہے۔ وہی اگر آلودہ ہوں تو پارلیمنٹ ایسی ہی بے ثمر اوراتنی ہی بے معنی رہے گی۔
جمہوریت کے کنویں سے جب تک نالائقی‘ سطحیت اور جذباتیت کے خبیث جانور نہیں نکالے جاتے‘ پانی کے چالیس ڈول نکالنے کا فائدہ کیا؟ایک نیم تعلیم یافتہ معاشرے کا کوئی مستقبل نہیں ہوتا۔ یہ سب جانتے ہیں‘ بس پاکستان کے سیاسی مدّبرہی نہیں جانتے۔ ہر بار وہی چالیس ڈول ہی نکالتے ہیں