ہر چارہ گر کو چارہ گری سے گریز تھا…ہارون الرشید
خوف اور احساس کمتر ی … اس کے نتیجے میں المناک مصلحت پسندی اور تذبذب ، تذبذب ہی تذبذب ۔
ہر چارہ گر کو چارہ گری سے گریز تھا
ورنہ ہمیں جو دکھ تھے ، بہت لا دوا نہ تھے
وہی جو منیر نیازی نے کہا تھا : محبت اب نہیں ہوگی یہ کچھ دن بعد میں ہوگی /گزر جائیں گے جب یہ دن یہ ان کی یاد میں ہوگی … میرا خیال ہے کہ جمہوریت یا کہیے کہ ایک اچھی حکومت اس الیکشن سے نہیں آئے گی، اس کے بعد آئے گی ۔ کب اور کتنے دن کے بعد ۔ یہ کہنا مشکل ہے کہ غیب تو اللہ ہی جانتا ہے ۔ آدم زاد کے اندازے ادھورے ہوتے ہیں۔ فرمایا ”ولا یحیطون بشیئٍ من علمہ الاّ بما شائ‘‘ اللہ کے علم میں سے بندے اتنا ہی حاصل کر سکتے ہیں ،جتنا کہ وہ چاہے ۔
اچھی حکومت سے مراد کیا ہے ؟ شاید ایسے الیکشن جس میں آزادی کے ساتھ نمائندے چنے جائیں ۔ منتخب ادارے ، صوبائی اور قومی اسمبلیاں اور بلدیاتی حکومتیں ،طے شدہ معیارات اور اصولوں کے مطابق تشکیل پائیں اور بروئے کار رہیں۔ یہ کیسی جمہوریت ہے کہ ایک امیدوار دس کروڑ روپے لٹا سکتا ہے اور دوسرا دس لاکھ بھی نہیں۔ یہ کیسی جمہوریت ہے ، جس میں دو بنیاد ی ادارے ہی غائب ہیں، منظم اور مرتب سیاسی پارٹیاں اور بلدیات۔
چھ برس تک خلقِ خدا گلیوں اور بازاروں ، گھروں اور ایوانوں میں روتی رہی، عدالتوں میں فریاد کرتی رہی۔ تب بھی پتھر کے دل نہیں پگھلے ۔آخر کار سپریم کورٹ نے حکم صادر کیا تو روتے دھوتے شہری حکومتوں کے الیکشن کرائے گئے ۔
انتخابات ہو چکے تو یونین کونسلوں ، تحصیل اور اضلاع کے ناظمین کو ذمہ داریاں تفویض کرنے سے انکار کر دیا گیا۔ دن پہ دن گزرتے گئے۔عصرِ حاضرکے شیر شاہ سوری ، ایشیا کی جدید تاریخ کے سب سے بڑے منتظم ، دنیا بھر میں ”پنجاب سپیڈ ‘‘کی دھوم مچا دینے والے شہباز شریف، بلدیاتی اداروں کی تحقیر و تذلیل پرتلے رہے ۔
دوسرے صوبوں کے معاملات کچھ مختلف تھے ۔سندھ میں ،جہاں حکومت آصف علی زرداری نامی ایک شخص کا نام تھا ،اسی طرزِ عمل کی پیروی تھی ۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ سب سے زیادہ شورش زدہ صوبے بلوچستان میں ، سب سے پہلے الیکشن ہوئے ۔ کارگر قیادت ابھری یا نہیں ابھری ۔ اختیارات منتقل ہوئے یا نہ ہو سکے ، یہ دوسری بات ہے ۔ صوبے کی صورتحال ایسی تھی کہ سب سے بڑی ترجیح تخریب کاروں سے نمٹنا تھا ۔ کم از کم اس باب میں سول ، ملٹری تعاون سے پیش رفت جاری رہی ؛اگرچہ اچھے افسروں کا فقدان تھا ۔ ارکانِ اسمبلی ، وزراء اور نالائق مگر شاطر افسروں کے تال میل سے نقب زنی کا کاروبار بھی جاری رہا ۔ پختون خوا میں ماجرا مختلف تھا ۔ پورے کر ّوفر سے بلدیاتی الیکشن منعقد ہوئے …اور یا للعجب تیس فیصد بجٹ ان اداروں کے لئے مختص کر دیا گیا۔ نتائج جو بھی رہے ہوں ، آرا مختلف ہو سکتی ہیں، مگر ایک قبائلی اور نیم قبائلی معاشرے میں یہ ایک شاندار آغاز تھا ۔ عمران خان کی انڈر 19 ٹیم سے کوئی بڑی توقعات کبھی نہ تھیں ۔ ہاں مگر اصول کو یاد رکھا گیا اور یہ بھی غنیمت تھا ۔
پنجاب میں یہ ہوا کہ جب تک اپنی مرضی کے عہدیدار چھانٹ نہ لئے گئے ، التوا جاری رہا،غضب خدا کا پورے ایک برس تک ۔ نسبتاً ایک چھوٹے قصبے میں تحصیل ناظم کے امیدوار سے پوچھا تو اس نے کہا : بارہ تیرہ کونسلروں کی حمایت برقرار رکھنے کے لئے لاکھوں روپے ماہوار خرچ کرنا پڑتے ہیں۔ دوسروں کے علاوہ ایک عجوبہ روزگار، اس کے درپے تھا۔علاقے کا ”وزیراعلیٰ ‘‘ہونے کا اُسے دعویٰ تھا ۔ مقامی ڈیس ایس پی سے تقاضا کرتا کہ ہمہ وقت اس کے آس پاس وہ موجود رہے۔ ان میں سے ایک تو اس کی گاڑی بھی چلایا کرتا۔ ایک پولیس افسر کا تبادلہ اس بنا پر ہوا کہ کورنش بجا لانے سے انکار کر دیا تھا ۔یہی نہیں عدالتی حکم پر اس نے موصوف کی ڈگری پر تحقیقات کیں۔ ان تحقیقات کے نتیجے میں آخر کار عمر بھر کے لئے اسے نااہل قرار دے دیا گیا لیکن الیکشن سے صرف چند ہفتے قبل۔ حکمران پارٹی نے تدارک اس طرح کیا کہ ان کے بھائی کو صوبائی اسمبلی کا ٹکٹ جاری کر دیاہے۔ حال اس آدمی کا یہ ہے کہ قتل کے ایک تنازع میں مصالحت کے لئے ستر لاکھ روپے وصول کئے ۔دو تہائی خود ہڑپ کر گیا۔پانچ سات مقدمات اب بھی اس کے خلاف قائم ہیں ۔ایسا چلتا پرزہ ہے کہ اپنے بھائی کی کامیابی یقینی بنانے کے لئے ، قومی اسمبلی کے لئے دوسری پارٹی کے امیدوار سے ساز باز کر لی ہے۔ اسی حلقے میں صوبائی اسمبلی کے ایک دوسرے امیدوار نے بھی ۔ قومی اسمبلی کے لئے میدان میں موجود پیپلز پارٹی کے یہ لیڈر ، انتہائی اہم عہدے پر فائز رہے ۔ سرکاری خزانہ ان کے رحم و کرم پر تھا ۔ اس کے ساتھ، وہ سلوک آنجناب نے کیا کہ پنجابی محاورے کی یاد تازہ ہوگئی : بھوکے جاٹ کو پیالہ ملا تو پانی پی پی کر پاگل ہوگیا ۔ ایک دوسرا محاورہ بھی ہے : اندھا بانٹے ریوڑیاں ، مڑ مڑ اپنوں کو ۔ کہا جاتا ہے کہ نون لیگ کے مذکورہ لیڈر کو دو کروڑ روپے اس نے نذر کئے ہیں ۔
اس قماش کے امیدواروں کی سرپرستی کسی ایک پارٹی میں نہیں ،سبھی میں ہے۔ ایک پارٹی تو ایسی بھی ہے، جس کے بارے میں معلوم ہی نہیں کہ اس کے ٹکٹ کس نے جاری کئے ۔ ایک دن ایک امیدوار کی قبولیت کا فرمان جاری ہوتا ، دوسرے دن واپس لے لیا جاتا ۔ایک سے ایک پراسرارکہانی ہے ۔آدھی ادھوری کچھ لکھی گئیںاور کچھ آنے والے دنوں میں لکھی جائیں گئیں۔1960 ء اور 70 19ء کے عشرے میں، ہالی وڈ کی ان فلموں کے مناظر یاد آتے ہیں ، جب دولت کے بھوکوں کا کوئی گروہ خزانے کی تلاش میں نکلتا ۔ اسے پالیتا تو دیوانگی ان پہ طاری ہو جاتی ۔ آخر کو صحرا میں بھٹکتے ہوئے بھوکے پیاسے کچھ مسافر ، جن کی منزل کوئی نہ ہو، یا اِدھر اُدھر بکھری ہوئی لاشیں ۔ صحرا کی ریت پر آندھیوں سے بنتے بگڑتے ٹیلے ۔ بعد میں ابھرنے والے قافلوں کے لئے عبرت کے درد ناک مناظر ۔
آگ بجھی ہوئی اِدھر ، ٹوٹی ہوئی طناب اُدھر
کیا خبر اس مقام سے گزرے ہیں کتنے کارواں
جہاں کہیں کسی جماعت کا غلبہ ہے، بعض امیدواروں کو نقد داد دینا پڑی۔ ایک آدھ حلقے میں تو یہ تماشا بھی ہوا کہ اڑھائی کروڑ میں ایک سیٹ خرید کر ، تین کروڑ میں بیچ دی گئی ۔ جس طرح امرا کی بستیوں میں گاہے راتوں رات گھر یا پلاٹ کا سودا ہو جاتا ہے۔ علاقے پہ منحصر تھا ، حالات اور شخصیات پر منحصر تھا ، قومی اور صوبائی اسمبلی کی ایک سیٹ کے دام پچاس ساٹھ لاکھ سے تین کروڑ روپے تک پہنچے۔
تین بڑی سیاسی پارٹیاں ہی نہیں ،علاقائی جماعتوں میں بھی یہی کاروبار تھا ۔ کچھ مذہبی پارٹیاں بھی کہ کہیں کہیں ان کے حامیوں کی تعداد زیادہ ہے۔ دور دراز قبائلی سر زمینوں میں ،کہیں ان کا سکہ بھی چلتا ہے ۔ایک دینی جماعت کے بارے میں حسنِ ظن یہ ہے کہ بازار سجانے سے اس نے گریز کیا، لیکن پھر اپنے قافلے کو وہ حضرت مولانا کی خدمتِ اقدس میںلے گئی۔ جیسے کوئی میرِ کارواں پیاسوں کے ایک قافلے کو جوہڑ پہ لے جائے۔
کیسے یہ الیکشن ہیں جو قومی خزانے سے لوٹی گئی دولت کے بل پہ لڑے جارہے ہیں۔ من مانی کرنے والوں کی اطاعت اور سرپرستی میں۔ کچھ دوسرے گروہ ہیں ، زہریلے تعصبات کا جن پرانحصار ہے ۔ کسی خاص علاقے یا نسلی یا لسانی گرو ہ کی مظلومیت کے نعروں پر ۔
جمہوریت اگر ڈبے میں ووٹ ڈالنے کا نام ہے تو سجی سنوری ، ایک ہفتے کے فاصلے پر منتظر کھڑی ہے ۔ مقصد اگر با مقصد حکمرانی ہے ، سیاسی استحکام اور افتاد گانِ خاک کے زخموں کا اندمال ہے، لاحول ولا قوۃ الا باللہ۔
خوف اور احساس کمتر ی … اس کے نتیجے میں المناک مصلحت پسندی اور تذبذب ، تذبذب ہی تذبذب ۔
ہر چارہ گر کو چارہ گری سے گریز تھا
ورنہ ہمیں جو دکھ تھے ، بہت لا دوا نہ تھے