ہزارہ قوم کے دکھ…ڈاکٹر لال خان
اتوار کو ہزارہ قومیت سے تعلق رکھنے والے دو مزید افراد کو قتل جبکہ ایک کو شدید زخمی کر دیا گیا۔ ان مظلوموں پر کتنے وار ہوتے رہے ہیں اور ہو رہے ہیں۔ بلوچستان میں مقیم ہوں یا افغانستان کے باسی ہوں، ہزارہ ہونا ایک ایسا گناہ اور جرم بنا دیا گیا ہے کہ ایک پوری کمیونٹی کا قتل عام معمول بن چکا ہے۔ حکمرانوں کے تمام تر دعووں کے برعکس فرقہ وارانہ دہشت گردی ایک شتر بے مہار، ایک بے رحم قہر کی طرح ان مظلوموں کے خلاف جاری ہے۔ بلوچستان میں یوں تو 1948ء سے ہی خونریزی کے سلسلے جاری رہے ہیں لیکن اس بہتے لہو میں اب ہزارہ قومیت کے معصوم انسانوں کا خون سب سے زیادہ بہایا جا رہا ہے۔ ایک پرامن کمیونٹی کی نسل کشی کرنے والے دندناتے پھر رہے ہیں اور مزید وارداتوں کے لئے ان کو اشتعال دلوانے والے یہاں اس طرح حاوی ہیں کہ ہر قانون، ہر سرکاری کنٹرول اور قوت سے بالاتر محسوس ہوتے ہیں۔ نسل کشی کی ایسی وارداتوں کے بعد ہر حکومت کے نئے چہرے وہی مذمتیں، وہی تعزیتی بیانات جاری کرتے ہیں اور ورثا کو ان کے پیاروں کی انمول جانوں کی قیمتیں ادا کر کے سمجھتے ہیں کہ ان کی حاکمیت کے جرائم کا کفارہ ادا ہو گیا ہے اور اس سے یہ مظلوم بہل بھی جائیں گے۔ لیکن نئے زخم لگنے سے پرانے زخموں کا درد ختم نہیں ہوتا بلکہ درد کا یہ ادغام اذیت کو مزید کربناک بنا دیتا ہے۔ کوئٹہ کے علاقوں ہزارہ ٹائون اور مری آباد کو ایک سکیورٹی زون بنا کر ہزارہ آبادی کو گویا ایک طرح کا نیم قیدی بنا دیا گیا ہے لیکن تحفظ دینے کی یہ پالیسی بھی ناکام نظر آتی ہے۔ اس قتل و غارت میں مارے جانے والے معصوموں کی تعداد شاید ہزاروں میں ہو گی‘ لیکن ہزارہ لوگ اب مقتولوں اور زخمیوں کی گنتی کرنا بھی چھوڑ گئے ہیں۔ ہزاروں ترکِ وطن کر کے آسٹریلیا سے امریکہ تک دربدر کی ٹھوکریں کھا رہے ہیں۔ بس دکھوں کے جاگتے صحرا ہیں اور ان کا یہ نہ ختم ہونے والا سفر ہے۔ لیکن حکمران میڈیا کے فنکار ہوں یا اخلاقیات اور اقدار کے ٹھیکیدار، نہ صرف اس نسل کشی کی سطحی اور بھونڈی تشریحات پیش کرتے ہیں بلکہ جلد از جلد اس بربریت کے تسلسل کو خبروں اور معاشرتی توجہ سے اوجھل کرنے کے لئے کوشاں رہتے ہیں۔ ایسی مسلسل درندگی تو شاید پتھر کے زمانوں میں بھی نہیں ہوئی ہو گی۔ ہدف کا بھی سب کو علم ہے اور یہ قتل و غارت گری کرنے والے بھی اتنے غیر معروف نہیں ہیں۔ لیکن جب معیشتیں دیوالیہ ہو جائیں، ریاستیں داخلی تضادات کا شکار ہوں اور مروجہ سیاست عام لوگوں سے کٹ کے رہ جائے تو سالمیت کی باتیں محض لفظی فریب بن جاتی ہیں۔ علاقائی و سامراجی طاقتیں جو یہاں اپنے مالی و سٹریٹیجک مفادات کی پراکسی جنگوں سے بلوچستان اور خصوصاً ملک کے شمال مغربی سرحدی علاقوں کو تاراج کر رہی ہیں، غریبوں کو برباد کر رہی ہیں لیکن دہائیوں سے ہمارے حکمران ان کے درباروں میں نظریں جھکائے ہاتھ پھیلائے اپنی تاریخی ناکامی اور اقتصادی تباہ حالی سے نکلنے کے لئے بھیک کی فریاد کر رہے ہیں اور ایک طرح سے اس کھلواڑ میں شریک ہیں۔ عالمی سامراجی طاقتیں ہوں یا مقامی ریاستیں، یہاں کے بنیاد پرست عناصر ہوں یا لبرل سرمایہ دار، سبھی ان بربادیوں کو فراموش کرکے اپنے مالی مفادات کے لئے نیچ سے نیچ حرکات کرنے میں بھی کوئی عار محسوس نہیں کرتے۔ علامہ اقبال کے گیت گانے اور بڑی بڑی تصاویر لگانے والے لیکن طبقاتی موقف اور سرمایہ دارانہ استحصال بارے ان کی اعلیٰ انقلابی شاعری کو نصابوں سے حذف کرنے والے ہمارے حکمرانوں اور ان کے پالیسی سازوں اور دانشوروں کو یہ یاد دلانے کی ضرورت ہے کہ وہ اقبال کے شاہین بنے نہ بن سکتے ہیں۔ شاید انہی کے لئے اقبال نے لکھا تھا کہ
افسوس صد افسوس کہ شاہیں نہ بنا تو
دیکھے نہ تری آنکھ نے فطرت کے اشارات
تقدیر کے قاضی کا یہ فتویٰ ہے ازل سے
ہے جرم ضعیفی کی سزا مرگ مفاجات
لیکن ریاست اور سیاست کے حکمرانوں کی اس تاریخی نااہلی، بدعنوانی، معاشی کمزوری اور کردار کی گراوٹ کا خمیازہ بھی یہاں کے غریب عوام کو ہی بھگتنا پڑتا ہے۔ ان کے قرضوں کے بوجھ محنت کشوں کو اٹھانے پڑتے ہیں۔ اسی طرح ان کی سیاسی، سفارتی اور سٹریٹیجک پالیسیوں سے سماج میں کہیں یاس و ناامیدی بڑھتی ہے تو کہیں انتشار اور منافرتوں کے زہر پھیلتے ہیں۔ ان کے نظام کے اقتصادی بحران سے غربت اور محرومی کے ساتھ ساتھ ثقافت اور تہذیب کی تنزلی بھی جنم لیتی ہے۔ اس نظام کی پیدا کردہ قلت سے پھیلنے والی منافرتیں کبھی قومی، کبھی لسانی، کبھی مذہبی اور کبھی فرقہ وارانہ تعصبات میں بدلتی ہیں۔ اس خلفشار اور خونریزی کا شکار بھی عام انسان ہی ہوتے ہیں۔ اس فرقہ وارانہ قتل و غارت کا تفصیلی جائزہ لیا جائے تو پتا چلتا ہے کہ جہاں یہ کئی دہائیوں تک اپنائی جانے والی سامراجی و ریاستی پالیسیوں کا ناگزیر نتیجہ ہے وہاں اس کی سماجی جڑیں کہیں محرومی اور کہیں درمیانے طبقے کی نفسیاتی پراگندگی میں پیوست ہیں۔ جب ایک آسودہ زندگی اور بہتر مستقبل کی امید کسی معاشرے میں ختم ہونے لگتی ہے تو خصوصاً درمیانے طبقات اور پسماندہ سماجی پرتیں‘ دونوں مختلف نوعیت کی انتہا پسندی اور تعصبات کی راہوں پر چل نکلتے ہیں۔ ایسے میں جب انقلابی تحریکیں نہ ابھر رہی ہوں، ان عذابوں سے نجات کا کوئی راستہ واضح نہ ہو رہا ہو تو سماج وحشت کی لپیٹ میں آنے لگتے ہیں۔ نتیجتاً پنپنے والے رجعت، قدامت پرستی اور سماجی جنون کے رجحانات کو حکمران طبقات کے مختلف دھڑے اپنے ہر طرح کے مفادات کے لئے استعمال کرتے ہیں۔ سرکاری و غیر سرکاری عناصر اپنی طاقت اور دولت کی برتری کے لئے ان کی سرپرستی کرتے ہیں۔ ورغلاتے بھی ہیں اور مزید نفرتیں ایک بتدریج منصوبہ بندی اور سرمایہ کاری کے ذریعے پھیلاتے بھی رہتے ہیں۔ سامراجی قوتیں بھی اپنے مذموم مقاصد کے لئے ایسے رجحانات کو ہوا دیتی ہیں۔ دوسری عالمی جنگ کے بعد امریکی سامراج کی پوری تاریخ بنیاد پرستی کو پروان چڑھانے پر مبنی رہی ہے۔ لیکن جب کوئی نظام معاشرے کو استحکام اور ترقی نہ دے پا رہا ہو تو حکمران اور محنت کش طبقات کے درمیان تضادات بھی شدید ہونے لگتے ہیں جو ایک تصادم کی جانب بھی بڑھتے ہیں‘ کیونکہ حکمران طبقات اپنے نظام کے بحران کی ساری قیمت محنت کش طبقات سے وصول کرتے ہیں۔ ایسے میں انقلابی جذبات اور تحریکوں کو زائل کرنے کے لئے بھی حکمران طبقات قومی، لسانی اور مذہبی نفرتوں کو پروان چڑھاتے ہیں تاکہ محکوموں کو تقسیم در تقسیم رکھا جائے۔
اس ملک کی دو تہائی سے زائد معیشت کالے دھن پر مبنی ہے۔ جہاں یہ دیو ہیکل کالی معیشت یہاں کی سرمایہ داری کی تاریخی ناکامی کا منہ بولتا ثبوت ہے وہاں دہشت گردی کی قوت محرکہ کا کردار بھی ادا کرتی ہے۔ لیکن حاکمیت جب تک سرمائے کی رہے گی یہ وحشت اور درندگی کسی نہ کسی شکل میں جاری رہے گی۔ ہزارہ کمیونٹی نے تمام پارٹیوں اور حاکمیتوں سے فریادیں کر کے دیکھ لیا ہے‘ لیکن اس نظام کا کوئی ادارہ، کوئی پارٹی اور کوئی لیڈر ان کا نجات دہندہ نہیں بن سکا۔ بلکہ بہت سوں کے تانے بانے تو قاتلوں سے ہی جا ملتے ہیں۔ مظلوموں کا ساتھ صرف مظلوم ہی دے سکتے ہیں۔ محکوم ہی محکوم کا سہارا بن سکتے ہیں۔ اس ملک کے محنت کشوں اور مختلف تعصبات کے مارے مظلوموں نے کئی مرتبہ یکجا ہو کر اس حاکمیت اور نظام کو چیلنج بھی کیا ہے۔ ہزار ہ کمیونٹی کے نوجوانوں اور محنت کشوں کو ظلم و استحصال کے خلاف اٹھنے والی ایسی ہی تحریکوں کے ساتھ جڑت اور یکجہتی بنانے اور مشترکہ جدوجہد کرنے کی ضرورت ہے۔ یہی کوششیں آگے بڑھ کر کامیاب ہوں گی تو اِس نظام کے خاتمے کے ساتھ ایک پرامن اور آسودہ معاشرہ قائم ہو گا۔