منتخب کردہ کالم

ہزار گھنٹے کا وزیر اعظم .. صولت رضا

ہزار گھنٹے کا وزیر اعظم .. صولت رضا

پاکستان کے نو منتخب وزیر اعظم جناب شاہد خاقان عباسی کی شخصیت کئی لحاظ سے منفرد اور تاریخی اہمیت کی حامل ہے۔ موصوف پاکستان کے پہلے وزیر اعظم ہیں جنہوں نے اپنی افتتاحی تقریر میں اعلان کیا کہ حقیقی وزیر اعظم وہ نہیں… ”کوئی اور ہے‘‘… جو جلد ہی وزیر اعظم کی کرسی پر واپس آ جائے گا۔ ”یہ کوئی اور‘‘… نواز شریف صاحب کی ذاتِ گرامی ہے‘ جنہوں نے وزارتِ عظمیٰ سے غیر تقریبی انداز میں رخصت ہونے کی ہیٹ ٹرک مکمل کی ہے۔ سب سے پہلے 1993 میں صدر غلام اسحاق خان نے رخصت کیا تاہم عدلیہ نے بحال کر دیا۔ اس کے بعد آرمی چیف جنرل عبدالوحید کاکڑ کی مداخلت سے صدر مملکت کے فیصلے پر دوبارہ عملدرآمد ہو گیا۔ اِس میں نواز شریف صاحب کی مرضی بھی شامل تھی۔ دوسری مرتبہ اکتوبر 1999ء میں اس وقت کے چیف آف آرمی سٹاف جنرل پرویز مشرف نے ”جوابی انقلاب‘‘ کے نام پر نواز شریف صاحب کو اقتدار سے محروم کر دیا۔ تیسری مرتبہ سپریم کورٹ آف پاکستان کے پانچ رکنی بینچ نے وزیر اعظم کو ”نااہل‘‘ قرار دیا۔ یوں وہ قومی اسمبلی کی رکنیت سے محروم ہوئے اور وزارتِ عظمیٰ بھی ہاتھ سے گئی۔ آئین کے مطابق قومی اسمبلی میں چنائو کے بعد شاہد خاقان عباسی صاحب قائد ایوان منتخب ہو گئے۔ اُنہیں 221 ووٹ ملے‘ جبکہ پاکستان پیپلز پارٹی کے اُمیدوار نوید قمر صاحب نے 47 اور تحریک انصاف کے امیدوار شیخ رشید احمد نے 33 ووٹ حاصل کئے۔ 221 ووٹ حاصل کرکے قائد ایوان منتخب ہونے والے شاہد خاقان عباسی صاحب نے جس انداز میں سیاست کی مجبوری کو
بے نقاب کیا ہے وہ ”مطالعہ پاکستان‘‘ کا المناک باب ہے۔ قومی اسمبلی کی تاریخ میں شاید یہ پہلی مرتبہ ہوا کہ ایک سیاسی جماعت کے قانونی لحاظ سے ”نااہل‘‘ قائد کی تصاویر طے شدہ منصوبے کے تحت ایوان میں لہرائی گئیں۔ اِن تصاویر کو سپیکر ایاز صادق پوسٹر کہتے رہے اور نیچے رکھنے کی ہدایات دیتے رہے۔ سپیکر کی ہدایات کی سب سے نمایاں خلاف ورزی عزت مآب نو منتخب وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی فرما رہے تھے‘ جنہوں نے روسٹرم کے سامنے اپنے نااہل قائد کی تصویر آویزاں کئے رکھی۔ یہ منظر ٹیلی ویژن پر لاکھون ناظرین نے دیکھا اور اخبارات میں بھی نمایاں کیا گیا۔ قومی اسمبلی میں کھلم کھلا سپریم کورٹ کے فیصلے پر براہ راست اور بالواسطہ لفظی یلغار کی گئی۔ وطن عزیز کے چیف ایگزیکٹو نے سپریم کورٹ سے بالا بھی ایک اور عدالت کی خوشخبری سنائی۔ یہ مسلم لیگ نواز کی عوامی عدالت ہو گی‘ جو حتمی فیصلہ کرے گی۔ قومی اسمبلی کے درودیوار نے ایسا منظر جنرل ضیاء الحق یا جنرل پرویز مشرف کے ادوار میں بھی نہیں دیکھا ہو گا۔ اُس زمانے کے وزرائے اعظم کی تقاریر میں کسی اور ”حقیقی وزیر اعظم‘‘ کے وجود کا ذکر نہیں تھا۔
سیاسی جماعتوںکے نامزد امیدواروں کی مجبوریاں اپنی جگہ لیکن کم از کم مروجہ قوانین اور جمہوری روایات کی پاسداری بھی ضروری ہے۔ اگر سپریم کورٹ سے نااہل قرار دیے جانے والا شخص ہی اصلی وزیر اعظم ہے تو پھر گلشن کا خدا حافظ۔ شاہد خاقان عباسی صاحب سیاسی مجبوری کے اظہار کے لیے متبادل الفاظ کا چنائو کر سکتے تھے۔ وزیر اعظم کی دیکھا دیکھی دیگر وزرا نے بھی ”اصلی وزیر اعظم‘‘ کی گردان شروع کر دی ہے۔ اگر نواز شریف صاحب ہی سپریم کورٹ کے فیصلے کے باوجود وزیر اعظم ہیں تو کیا شاہد خاقان عباسی صاحب عہدہ جلیلہ کی فوٹو کاپی ہیں۔ خدارا ایسا نہ کریں۔ کم ازکم اگست کے ”ماہ آزادی‘‘ میں تو خاندانی سیاست کی پوجا پاٹ سے گریز کیا جائے۔ جمہوری سیاست میں اتار چڑھائو معمول کی بات ہے۔ صدرِ مملکت، وزرائے اعظم، کابینہ کے وزیر آتے جاتے رہتے ہیں۔ تاہم عہدے کا وقار، اعزاز اور قدر و منزلت برقرار رہنی چاہیے۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ عہدہء جلیلہ پر متمکن شخصیت کے طرزِ عمل،
گفتار اور نششت و برخاست سے بھی وزیر اعظم کا سراپا پُرکشش نظر آنا چاہیے۔ ہر وقت سر بکف اور ہیجانی کیفت طاری رکھنا مناسب نہیں۔ قومی اسمبلی کی رکنیت ایک بہت بڑا اعزاز ہے۔ کروڑوں میں سے چند سو اس کے مستحق ٹھہرتے ہیں۔ ان شخصیات کا پس منظر کیا ہے؟ انتخابات میں کامیابی کے لیے کون سے حربے استعمال کئے جاتے ہیں۔ یہ علیحدہ بحث ہے۔ اسمبلی کی رکنیت کے بعد اراکین تاریخ کے کٹہرے میں کھڑے ہو جاتے ہیں۔ قائدِ ایوان ان سب میں بلند ترین عہدہ ہے۔
نواز شریف صاحب کی نااہلی کے بعد شاہد خاقان عباسی صاحب کا انتخاب جمہوری روایات کا تسلسل ہے۔ کاش عباسی صاحب اس موقع پر لکھی ہوئی تقریر ارشاد فرماتے جس میں ماضی قریب کے بجائے حال اور مستقبل کے امکانات کو زیادہ ترجیح دی جاتی۔ اُنہوں نے فرمایا کہ وہ پینتالیس دن میں پینتالیس مہینوں کا کام کریں گے۔ پینتالیس دن کو 24 گھنٹے سے ضرب دی جائے تو یہ کل ایک ہزار اسی گھنٹے بنتے ہیں۔ دو اگست کو وزیر اعظم عباسی نے حلف اُٹھایا۔ موجودہ حکمتِ عملی کے مطابق سولہ ستمبر 2017ء کو ایک تازہ دم وزیر اعظم کو حلف اٹھانا چاہیے۔ اللہ ہی بہتر جانتا ہے کہ وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی کے ”قائدِ محترم‘‘ کی اصل منصوبہ بندی کیا ہے۔ اُن کے نزدیک عباسی صاحب ہزار گھنٹے کے وزیر اعظم ہیں یا آئندہ انتخابات تک موصوف ہی ”قائد محترم‘‘ کے ایجنڈے کو آگے بڑھاتے رہیں گے۔ ہم اس بات کے حق میں نہیں ہیںکہ شاہد خاقان عباسی صاحب کو باور کرایا جائے کہ آئین ان کے ساتھ ہے۔ وہ وزیر اعظم بن کر دکھائیں۔ خواہ یہ مدت سولہ ستمبر 2017ء کو ہی اختتام پذیر ہو جائے۔ فی الحال شیر مارکہ جمہوریت میں نو منتخب وزیر اعظم کے لیے بہترین حکمتِ عملی ”لے سانس بھی آہستہ‘‘ ہو گی۔ ابھی اُنہیں نو اگست 2017ء سے ”جی ٹی روڈ کے وزیر اعظم‘‘ کا سامنا ہے۔ یہ علاقہ نواز شریف صاحب کا مضبوط گڑھ ہے۔ جو پہلے روز سے ہی ان کی خاص توجہ کا مرکز رہا ہے۔ نئی کابینہ میں بھی اہم ترین عہدے لاہور، گوجرانوالہ، سیالکوٹ اور نارووال کو سونپ دئیے گئے ہیں۔ قومی اسمبلی کے سپیکر ایاز صادق کا تعلق بھی لاہور سے ہے۔
سپریم کورٹ سے نااہلیت کا فیصلہ حاصل کرنے کے بعد نواز شریف کا جی ٹی روڈ کا سفر آئین اور قانون کی حکمرانی کا نیا اسلوب بھی طے کر سکتا ہے۔ تاہم اس کا انحصار سابق وزیر اعظم کے انداز گفتگو اور موضوع کے انتخاب پر ہو گا۔ اُنہوں نے اگر براہ راست سیاسی مخالفین کے ساتھ بالواسطہ طور سے عدلیہ اور پاک افواج کو بھی نوکدار تنقید کا نشانہ بنایا تو سیاست میں ہیجان، ہذیان اور انتقام کو فروغ ملے گا۔ وطن عزیز کی تاریخ میں عوامی یلغار کے بل بوتے پر اقتدار حاصل کرنے کے متعدد ناکام تجربے ہو چکے ہیں۔ واقعات دہرانے کی ضرورت نہیں۔ بدقسمتی سے انجام کار جمہوریت اور گڈ گورننس کا خواب خون آلود تعبیر میں تبدیل ہو جاتا ہے۔
میاں نواز شریف صاحب کو اپنی سیاسی زندگی کی اس ناخوشگوار مدت کے دوران مدبرانہ رویے کا مظاہرہ کرنا چاہیے۔ اخبارات کے مطابق مسلم لیگ نواز کے سینئر رہنما جارحانہ حکمتِ عملی کے حق میں نہیں ہیں۔ تاہم کچھ لوگوں کا اصرار ہے کہ نواز شریف اور عوام لازم و ملزوم ہیں‘ لہٰذا دونوں کو چین سے نہیں بیٹھنا چاہیے۔ ظاہر ہے کہ اگست کے ماہِ آزادی میں وطنِ عزیز کے اداروں پر یلغار سے ایسے ”رہنمائوں‘‘ سے زیادہ اور کسے خوشی ہو گی‘ جن کے آبائواجداد نے تحریک پاکستان کی ڈٹ کر مخالفت کی تھی اور آج بھی اس ”کارنامے‘‘ پر برملا فخر کا اظہار کرتے ہیں۔ بڑی مدت کے بعد پنجابی مسلم لیگی رہنما ان کے سیاسی شکنجے میں آیا ہے۔ وہ ہفتہء آزادی کے موقع پر یہ سنہری موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیں گے۔ آگے شیر مارکہ جمہوریت اور ہزار گھنٹے والے وزیر اعظم کی قسمت۔
اگلا کالم..