ہلا کے رکھ دیا… ایاز امیر
صحیح زلزلہ تو 1970ء کا انتخاب لے کر آیا تھا۔ سات دسمبر کی شام جب نتائج آنے لگے تو یوں لگا کہ سب کچھ اُلٹ پُلٹ ہو گیا ہے۔ بڑے بڑے ناموں اور برجوں‘ جن کے بارے میں خیال بھی نہیں کیا جا سکتا تھا کہ ہاریں گے، کو شکست کا منہ دیکھنا پڑا۔ اُتنے بڑے پیمانے پہ نہ سہی لیکن اِن انتخابات میں بھی بہت سارے جھٹکے لگے اور بڑے بڑے نام اُڑ کے رہ گئے۔
شاہد خاقان عباسی کا مری سے ہار جانا ، بلاول بھٹو کا لیاری میں ہارنا، مولانا فضل الرحمان کا اپنے دونوں حلقوں میں پٹ جانا۔ اس الیکشن کے کمالات میں ہمیشہ یاد رہیں گے۔ چوہدری نثار علی خان پہ ہنسی آتی ہے۔ کتنی اکڑ تھی‘ لیکن اِن انتخابات میں ساری خاک میں مل گئی۔ قومی اسمبلی کے دونوں حلقوں کے علاوہ صوبائی سیٹ سے بھی ہاتھ دھونے پڑے۔ الیکشن سے پہلے کیسی کیسی ان کی پریس کانفرنسیں ٹی وی پہ دکھائی جاتی تھیں۔ مہینوں اُن کا قبضہ پنجاب ہاؤس اسلام آباد پر برقرار رہا اور وہیں یہ پریس کانفرنسیں منعقد ہوتیں ۔ میڈیا کا بھی قصور نہیں ۔ اکثر غلط اندازے لگائے جاتے ہیں اور اِنہی کی بدولت نثار علی خان کو قومی لیول کا لیڈر سمجھا جانے لگے۔ اب حساب برابر ہو گیا ہے۔
ایم ایم اے کے مولوی صاحبان کے ساتھ سُتھری ہوئی ۔ مولانا فضل الرحمان کا ذکر تو آ چکا ہے ۔ امیر جماعت اسلامی مولوی سراج الحق بھی اپنی سیٹ ہار گئے ۔ اکرم دُرانی بھی بنوں میں عمران خان کے ہاتھوں زیر ہوئے ۔ ایم ایم اے کا حشر پاکستانی ووٹر کی دانش مندی کا مظہر ہے ۔ باہر کی دنیا میں پاکستان کا ایک عجیب سا تصور ہے ۔ وہاں سمجھا جاتا ہے کہ یہ ایک بنیاد پرستوں کا ملک ہے ۔ بہت سی وجوہات کی بنا پہ پاکستان میں دہشت گردی کے ٹھکانوں نے فروغ پایا اور ملک کیلئے دہشت گردی ایک چیلنج بن کے اُٹھی ۔ لیکن جب بھی پاکستانی ووٹر کے فیصلہ کرنے کا وقت آیا اُس نے رجعت پسندی یا بنیاد پرستی کو اپنا ساتھ نہ دیا۔ یہی وجہ ہے کہ مذہبی پارٹیاں یہاں پہ کبھی صحیح سیاسی قوت نہ بن سکیں۔ جماعت اسلامی ایک زمانے میں سیاسی قوت کا درجہ رکھتی تھی ۔ ووٹ اُس کے پاس نہیں تھے لیکن سٹریٹ پاور اُس کی تھی ۔ جنرل ضیاء الحق کے زمانے میں اُسے سرکاری سرپرستی بھی حاصل ہوئی ۔ لیکن اَب اُس کی حالت خراب ہو چکی ہے ۔ جہاں کہیں اُس کے امیدوار الیکشن میں کھڑے ہوتے ہیں اُنہیں شرمناک صورتحال کا سامنا کرنا پڑتا ہے ۔ اِن انتخابات میں بھی ایسا ہی ہوا۔ ملک کیلئے یہ ایک اچھی پیش قدمی ہے ۔ ماضی کے سایوں میں سے ہمیں نکلنے کی ضرورت ہے۔
ایک اور اچھی خبر محمود خان اچکزئی کی شکست کی صورت میں ہے ۔ اُن کے جمہوریت پہ لیکچروں کو سُن سُن کے کان پک چکے تھے ۔ جس اسمبلی میں محمود خان اور مولانا فضل الرحمان نہ ہوں، اُسے اچھا ہی کہا جا سکتا ہے۔
آگے کیا ہوتا ہے یہ تو دیکھنے کی بات ہے ۔ عمران خان کے پاس ایک تاریخی موقع ہے۔ اس موقع سے وہ کیا فائدہ اٹھاتا ہے اس کی صلاحیتوں اور کچھ اِس کی قسمت پہ منحصر ہے۔ ایک دو باتوں کی بہرحال توقع کی جا سکتی ہے ۔ پُر اعتماد آدمی ہے اور جب عالمی لیڈروں سے ملاقات کا موقع ہو گا‘ اِس سے پاکستان کا ایک اچھا تاثر جائے گا۔ وہ منظر نہیں دہرایا جائے گا‘ جب نواز شریف نے بارک اوبامہ سے چند منٹوں کی ملاقات کرنی تھی اور اُن کے ہاتھ پھولے ہوئے تھے۔ کاغذوں کے ایک انبار کی مدد سے چند جملوں کی ادائیگی کی تیاری کر رہے تھے ۔ یہ منظر ساری دنیا نے دیکھا ۔ دوسری بات یہ کہ دہائیوں بعد پاکستان کو ایک ایسا لیڈر نصیب ہو گا جس کی پہلی ترجیح اپنا ذاتی مال بنانا نہ ہو گی۔ آصف علی زرداری اور نواز شریف اقتدار میں تھے تو اُن کی پہلی فکر اپنی ذاتی جائیدادوں کے بارے میں تھی۔ حکمرانی بھی کر رہے تھے اور باہر خوب پیسہ بھی اکٹھا کر رہے تھے۔ یہ تو کم از کم اب نہ ہو گا۔ اور انقلاب آئے نہ آئے پاکستان کو ایک دیانت دار لیڈر مل جائے‘ یہی بہت بڑی تبدیلی ہو گی۔
بہت کچھ اِس پہ منحصر ہو گا کہ عمران خان اپنے گرد کیسی ٹیم اکٹھی کرتے ہیں۔ قابل لوگ لائے تو حکومت کا کام بہتر چلے گا۔ بہت اہم چیز پنجاب کی چیف منسٹری ہو گی‘ کیونکہ جو اصلاحات عمران خان سیاست اور حکمرانی کے انداز میں لانا چاہتے ہیں اُن کا دار و مدار پنجاب کی حکمرانی پہ ہو گا۔ تعلیم، صحت، پٹوار کا کھاتہ، پولیس کا نظام بہت حد تک پنجاب کے دائرے میں آتے ہیں ۔ پرانی طرز کا کوئی سیاست دان ہو گا تو پنجاب میں ایسی اصلاحات نہ ہو سکیں گی۔ یہ بھی سامنے کی بات ہے کہ نون لیگ پنجاب اسمبلی میں بھاری طریقے سے موجود ہو گی ۔ ابھی سے دَر پردہ یہ کشمکش شروع ہو چکی ہے کہ پنجاب کا چیف منسٹر کون ہو گا۔ اس میں دھیان دینے کی ضرورت ہے کہ کھیل پی ٹی آئی کے ہاتھ میں رہے کیونکہ اسلام آباد میں حکومت چلانے کیلئے ضروری ہے کہ پنجاب بھی اپنے پاس ہو۔
یہ احساس اَب عام ہے کہ سب سے بڑا چیلنج معیشت کا ہو گا۔ معاشی حالت ہماری خراب ہے اور خزانے میں پیسے نہیں ۔ معیشت میں کیسے تیزی لائی جا سکے اور کاروبار اور انویسٹمنٹ میں کیسے ترقی ہو یہ آنے والی حکومت کیلئے سب سے ضروری کا م ہو گا۔ نوجوان طبقات نے عمران خان پہ بھرپور اعتماد کیا ہے اور اِن طبقات کی پہلی ضرورت نوکریاںہیں۔ معیشت صحیح نہ چلی تو نوکریاں کہاں سے آئیں گی ؟
ہندوستان سے تعلقات کا ذکر عمران خان نے اپنے پہلی تقریر میں کیا۔ اُنہوں نے کہا کہ پڑوسی ملک ایک قدم بڑھے تو ہم دو آگے کریں گے ۔ کشمیر کا بھی اُنہوں نے ذکر کیا۔ دیگر لیڈروں کی نسبت عمران خان بہتر پوزیشن میں ہے کہ ہندوستان کے ساتھ تعلقات کو معمول پہ لائے ۔ وہ ہندوستان سے بات بھی ڈھنگ سے کر سکتے ہیں اور مقتدر حلقوں کو بھی اس طرف مائل کر سکتے ہیں کہ ہندوستان کے ساتھ معمول کے تعلقات ہمارے فائدے میں ہیں ۔ کمزور لیڈر ایسی سوچ نہیں رکھ سکتے لیکن عمران خان کو کمزوری کا طعنہ کوئی نہیں دے سکتا۔ اپنی تقریر میں اُنہوں نے سعودی عرب اور ایران سے تعلقات کی اہمیت کا بھی ذکر کیا۔
ایک بات تو واضح ہے ۔ ایک دور ختم ہوا اور نئے کا آغاز ہو چکا ہے ۔ نواز شریف ، زرداری اور مولانا فضل الرحمان جیسے شاہسوار ماضی کے کھلاڑی ہیں ۔ انہوں نے جو کرنا تھا وہ کردار قومی زندگی میں ادا کر چکے ۔ نئے حالات کی ضروریات سے اَب وہ متعلق (relevant) نہیں رہے۔ ایسے لیڈران پھر سے اُبھر بھی آئیں تو ملک کا نقصان کر سکتے ہیں ، بھلا نہیں ۔ یہی سمجھ کے پاکستانی عوام کی خاطر خواہ اکثریت نے پرانے طرز کے سیاستدانوں کو مسترد کیا ہے اور اپنی اُمیدیں نئے لوگوں سے لگائی ہیں۔ یہ نئے لوگ تاریخ کے امتحان پہ پورے اُترتے ہیں یا نہیں یہ آگے چل کے دیکھنے کی بات ہے۔ کامیاب بھی ہو سکتے ہیں ناکام بھی‘ لیکن پرانے لوگوں کا بہرحال سرے سے کوئی کردار نہیں۔ خدا نہ کرے کہ عمران خان ناکام ہوں لیکن اگر امتحان پہ پورا نہیں بھی اُترتے تو ایک اور عمران خان کی ضرورت ہو گی‘ کسی نواز شریف یا فضل الرحمان کی نہیں۔
اِس لحاظ سے بہت عرصے بعد بحیثیت قوم ہم دلچسپ وَقتوں میں قدم رکھ رہے ہیں۔ سامنے ہمارے ایک ایڈونچر ہے کہ دستیاب موقع کا ہم کچھ بنا سکتے ہیں یا نہیں۔ یہ وقت آسانی سے نہیں آیا۔ کتنا کچھ ہمیں برداشت کرنا پڑا ہے۔ لگتا تو یوں تھا کہ زرداریوں اور شریفوں کا دور کبھی ختم نہیں ہو گا۔ اِن کے علاوہ ہمارے سامنے کوئی متبادل ہی نہ تھا‘ لیکن آسمانوں کی مہربانی سمجھئے یا کچھ اور ایک متبادل ہمیں مل گیا ہے۔ یہ متبادل عوام کی حمایت اور زور سے نمودار ہوا ہے۔ بغیر عوامی تائید کے عمران خان کی حیثیت کیا ہو سکتی تھی؟ لیکن جو تائید اُسے ملی ہے‘ اِس میں اُس کا اپنا بھی بڑا کردار ہے۔ جدوجہد اُس نے کی اور سالہا سال تک کی۔ کوئی اور آدمی ہوتا تو متواتر ناکامیوں اور رسوائیوں کے بعد میدان چھوڑ کے بھاگ چکا ہوتا۔ لیکن اُس نے ہمت نہ ہاری اور آسمان بھی مہربان ہوئے۔ آگے دیکھئے ہوتا ہے کیا۔