آج پاکستان اور بھارت کے خارجہ سیکرٹریوں کی ملاقات شروع ہو گئی ہے۔ تادم تحریر اس میں کامیابی کاامکان نہ ہونے کے برابر ہے۔ گزشتہ دو سال کے دوران وزرائے اعظم اور خارجہ سیکرٹریوں کی متعدد ملاقاتیں ہوئیں۔ ان میں پرتپاک اور گرمجوشی والی میٹنگیں بھی تھیں اور سردمہری والی بھی۔ لیکن دونوں طرح کی ملاقاتوں میں کوئی نتیجہ نہیں نکلا۔ مودی کے ساتھ تعلقات قائم کرنے کی کوششیں ہمارے وزیراعظم ہی زیادہ کر رہے تھے۔ مودی نے شخصی طور پر قدرے گرمجوشی کا مظاہرہ ضرور کیا۔ لیکن پاکستان اور بھارت کے باہمی تعلقات میں جو پیش رفت ممکن تھی‘ اس کی طرف کوئی توجہ نہیں دی گئی۔ مثلاً بی جے پی کے سینئر لیڈر جناب اٹل بہاری واجپائی کے دور میں دونوں ملکوں کے مابین جو بنیادی مسئلہ تھا‘ اس پر قابل ذکر پیش قدمی ضرور ہوئی۔ بلکہ معاملات یہاں تک آگے بڑھ گئے کہ دونوں وزرائے اعظم نے تنازع کشمیر کے پرامن حل کا ایک قابل عمل فارمولا بھی تلاش کر لیا۔ اس فارمولے میں بھارت اور پاکستان دونوں کے موقف کے لئے قابل ذکر گنجائش پیدا ہو گئی تھی اور اگر کارگل کاڈرامہ نہ ہوتا‘ تو نئی صدی شروع ہونے سے پہلے کوئی سمجھوتہ ہونے والا تھا۔ اس کا ٹائم ٹیبل بھی طے کر لیا گیا تھا اور قیاس آرائیاں ہونے لگی تھیں کہ یہ معاہدہ کر کے دونوں وزرائے اعظم کو نئی صدی کے پہلے سال کا نوبل پرائز ضرور مل جائے گا۔ لیکن یہ ساری امیدیں دھری رہ گئیں ۔ کارگل کی غیرمتوقع جنگ میں دوستی اور خیرسگالی کا ماحول ہی ختم ہو گیا۔ روایتی دشمنی کے جذبات دونوں طرف ابھر آئے۔بھارت میں ہر طرف مرنے والے بھارتی فوجیوں کی لاشیں گئیں‘ تو بھارتی عوام کے اندر غم و غصے کی لہر دوڑ گئی۔ واجپائی جو بڑے فخر سے خیرسگالی کے ماحول کا کریڈٹ لیا کرتے تھے‘ اپنے عوام کے غم و غصے کو دیکھ کر کشیدگی کی رو میں بہہ گئے اور آنے والے طویل عرصے کے لئے پاک بھارت تنازعات کے حل کی امیدیں ختم ہو گئیں۔
ہمارے وزیراعظم نے غیرمتوقع طور پر مودی سے امیدیں وابستہ کر لیں‘ جو آج بھی قائم ہیں۔ لیکن شاید انہیں ہندوذہنیت کا عملی تجربہ نہیں اور نہ ہی مودی کے مزاج سے آشنائی ہے۔ شاید انہیں ”بغل میں چھری منہ میں رام رام‘‘ کی کہاوت کا اندازہ نہیں ہے۔ مسلمان لیڈروں میں قائد اعظم ہی واحد شخصیت تھے‘ جنہوں نے ہندو کی فطرت کو پوری طرح سمجھا تھا۔ پاکستان کے تمام لیڈروں کو ہندو قیادت کے بارے میں قائد اعظمؒ کے تبصروں کو ضرور پڑھنا چاہیے۔ یہ تبصرے ہندو ذہن کو باریک بینی سے سمجھنے کے بعد کئے گئے۔ گاندھی اور نہرو نے متعدد منصوبے قائد اعظمؒ کے سامنے پیش کئے‘ جن میں مسلمانوں کو بہلانے کے فارمولے موجود تھے۔ بظاہر ان میں یقین دلایا گیا تھا کہ متحدہ ہندوستان میں مسلمانوں کے حقوق کی پوری گارنٹی دی جائے گی۔ ایک بار کیبنٹ مشن پلان کو تو قائداعظمؒ نے تسلیم کر لیا تھا۔ لیکن مسلمانوں کی قسمت اچھی تھی کہ پنڈت نہرو نے اس پلان کے بارے میں منفی تبصرہ کر دیا اور قائد اعظمؒ کو ہندو کے پھیلائے ہوئے جال کا اندازہ ہو گیا اور انہوں نے نہرو کے تبصرے کو جواز بنا کر‘ کیبنٹ مشن پلان ماننے سے انکار کر دیا۔ ہم مسلمانوں کے لئے ایک ملک مانگ رہے تھے لیکن بھارتی حکمرانوں نے ہم پر جنگ مسلط کر کے‘ مسلمانوں کے دو ملک بنا دیئے۔ ہرچند ہمیں خون میں نہانا پڑا اور بھارت سے تاریخی شکست سے بھی دوچار ہوئے لیکن حتمی نتیجے میں دو آزاد مسلم ممالک معرض وجود میں آ گئے۔ حسینہ واجد کے انتہائی تکلیف دہ ذاتی صدموں کی وجہ سے‘ بنگلہ دیش اور پاکستان ایک دوسرے کے قریب نہیں آ پا رہے۔ لیکن ایک دو نسلوں کے بعد ‘ حقیقی رشتے بیدار ہونا شروع ہو جائیں گے اور وہی برادرانہ تعلقات بحال ہو جائیں گے ‘ جو تحریک پاکستان کے وقت تھے۔ آزادی کے بعد مغربی پاکستان کے حکمرانوں نے اکثریتی صوبے مشرقی بنگال کی آبادی کو اس کے جائز حقوق سے محروم رکھنا شروع کر دیا اور باہمی تلخیاں بڑھتے بڑھتے‘ بنگالیوں کو خانہ جنگی تک لے گئیں۔ بھارت نے اس کا فائدہ اٹھاتے ہوئے فوج کشی کر دی اور پاکستان دو لخت ہو گیا۔ بھارت کے موجودہ وزیراعظم نریندر مودی نے بنگلہ دیش میں تقریر کرتے ہوئے فخر سے کہا تھا کہ ”ہم نے آپ کی آزادی کے لئے بہت قربانیاں دی ہیں۔‘‘ کاش! ہمارے حکمران طبقے‘ بھارت کی اس ذہنیت کو سمجھیں۔ ہندو ذہن‘ مسلمانوں کی آزاد ریاست کو کبھی قبول نہیں کرے گا۔ وہ پاکستان کو بھی اسی طرح رکھنا چاہتا ہے‘ جیسے بنگلہ دیش کو رکھا ہوا ہے۔ لیکن تنگ نظر اور متعصب ہندو ذہنیت ‘ حقائق کو تسلیم نہیں کرے گی۔ بھارتی قیادت کو یہ سمجھ لینا چاہیے کہ اب پاکستان اور بھارت دونوں ایٹمی طاقتیں ہیں۔ کوئی ایک دوسرے کو نہ جھکا سکے گا‘ نہ شکست دے پائے گا۔ دونوں کو حقائق تسلیم کرتے ہوئے‘ برابری کی سطح پر رہنا ہو گا اور تنازع کشمیر کا بھی وہی حل ڈھونڈنا ہو گا‘ جو واجپائی اور نوازشریف نے تلاش کیا تھا۔ لیکن اس سمجھوتے کی روح کو سمجھنے کے لئے دونوں ملکی کی لیڈرشپ کو حقائق کے تقاضے سمجھنا ہوں گے۔
میرا آج کا دوسرا موضوع پاکستانی جمہوریت کی روایتی کشمکش ہے۔ ہمارے ملک میں کوئی جمہوری حکومت تین سال سے زیادہ کا عرصہ پرسکون حالات میں نہیں گزار سکی۔ دو ڈھائی سال کے بعد ہی سیاسی کشمکش شروع ہو جاتی ہے‘ جس کے نتیجے میں یا تو مارشل لا لگ جاتا ہے یا جمہوری حکمران ہی آمرانہ رویہ اختیار کر کے‘ شخصی حکمرانی کے دور میں داخل ہو جاتا ہے۔ صرف پیپلزپارٹی کا گزشتہ دور حکومت ایسا تھا‘ جس نے اپنی آئینی مدت پوری کر کے‘ اپوزیشن کی کامیابی کو قبول کر لیا اوراقتدار ایک جمہوری حکومت سے‘ دوسری جمہوری حکومت کو منتقل ہو گیا۔ لیکن اس جمہوری حکومت نے بھی اپنا پورا دور اقتدار ڈگمگاتے ہوئے ہی پورا کیا۔ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس مسٹر افتخار چوہدری اپنے منصب کی حدیںپھلانگ کر‘ سیاسی خواہشات پوری کرنے کے لئے حکومت پر اوچھے وار کرنے لگے۔ انہوں نے صدر مملکت پر بھی مسلسل عدالتی دبائو ڈالے رکھا۔ چیف جسٹس کی ریٹائرمنٹ کے بعد نہ وہ مقدمہ رہا اور نہ اس کا کوئی فیصلہ ہوا۔ صورتحال آج بھی جوں کی توں ہے۔ جس کیس کو افتخار چوہدری نے اپنی زندگی موت کا مسئلہ بنا لیا تھا‘ اس میں سے آج تک کچھ نہیں نکلا۔ لیکن اس کیس کی بنیاد پر چیف جسٹس نے ایک وزیراعظم کو نکالا اور دوسرا وزیراعظم بھی نکال دیا جاتا اگر انتخابات کا وقت نہ آ جاتا۔ بعد کے واقعات نے ثابت کیا کہ چیف جسٹس اقتدار کا بھوکا تھا۔ اس نے اپنی آئینی پوزیشن کا فائدہ اٹھاتے ہوئے‘ منتخب حکومت کو نااہل ثابت کر کے‘ کسی نہ کسی آئینی بہانے سے اقتدار پر قبضہ کرنا تھا۔ لیکن اس کی حرکتوں نے ‘ اس کے منصبی عزت و وقار کو ختم کر کے رکھ دیا۔ ریٹائرمنٹ کے بعد بھی اس نے جو حرکتیں کیں‘ وہ ہر اعتبار سے اس منصب جلیلہ کے رتبے کے مطابق نہیں تھیں۔ اس شخص نے انتظامیہ سے درخواست کر کے ایک قیمتی بلٹ پروف گاڑی حاصل کر لی تھی‘ جس کا یہ حق دار نہیں تھا۔ ریٹائرمنٹ کے تھوڑے ہی عرصے بعد اس کے اصل عزائم سامنے آ گئے۔ اس نے اپنی ایک سیاسی پارٹی قائم کر لی اور اس کا سربراہ بن بیٹھا۔ آج بھی یہ اسی پارٹی کا سربراہ ہے۔ ایک زمانے میں حبیب جالب مرحوم نے اپنی سیاسی پارٹی بنا لی تھی اور پھر خود ہی اس کا مذاق اڑاتے ہوئے کہا کرتے تھے”نہ دفتر نہ بندہ۔ نہ پرچی نہ چندہ۔‘‘ ہمارے چیف جسٹس صاحب کا بھی وہی حال ہے۔ حالانکہ وہ نجی حیثیت میں کافی بڑے سرمایہ دار بن چکے ہیں۔ اس نے 2013ء کے انتخابات میں جو اودھم مچایا‘ اس کی کوئی مثال نہیں ملتی۔ فخرالدین جی ابراہیم ضعیف ہو چکے تھے اور ان کی صحت قابل رشک نہیں تھی۔ اس عمر میں وہ کوئی جھگڑا مول نہیں لے سکتے تھے۔ افتخار چوہدری نے ساری قانونی حدیں پھلانگتے ہوئے‘ انتخابی عمل پر قبضہ کر لیا۔ پنجاب میں اس پارٹی کو انتخابی کامیابی دلائی‘ جس سے وہ صدر مملکت کا منصب حاصل کرنا چاہتا تھا۔ لیکن بطور چیف جسٹس اس شخص نے جو اودھم مچایا تھا‘ وزیراعظم نوازشریف اسے صدر بنا کر خود مشکل میں نہیں پڑنا چاہتے تھے۔ اس شخص کی ہوس اقتدار اتنی بے لگام ہو چکی تھی کہ اگر اسے صدر بنایا جاتا‘ تو اس نے وزیراعظم کو بہت تنگ کرنا تھا اور عین ممکن تھا کہ یہ درمیان میں ہی اسمبلیاں توڑ دیتا۔ میاں صاحب کی قسمت اچھی تھی کہ انہوں نے اس کی مدت ملازمت پوری ہونے پر فوراً ریٹائر کر دیا۔
نوٹ:- گزشتہ روز میرے مرحوم دوست نعیم ہاشمی کی چالیسویں برسی تھی۔ وہ ایک خوش نصیب شاعر اور فنکار ہے‘ جو چالیس برس بعد بھی ہم سے جدا نہیں ہوا۔ اس کے فرزند خاور نعیم ہاشمی نے اپنے والد کو زندہ رکھا ہوا ہے۔اللہ تعالیٰ خاور کی عمر دراز کرے تاکہ نعیم ہاشمی مرحوم کی عمر بھی دراز ہو۔