ہمارے جنگلی جانور…ظفر اقبال
اسے جنگل کا بادشاہ کہتے ہیں جو خود سے چھوٹے اور کمزور جانوروں کے ساتھ وہی سلوک کرتا ہے جو ہمارے سیاسی بادشاہ رعایا کے ساتھ کرتے ہیں۔ یہ تین قسم کے ہوتے ہیں یعنی عام شیر، ببر شیر اور وہ شیر جو انتخابی نشان بھی ہوتا ہے‘ جو الیکشن کے موقعہ پر بکری بن جاتا ہے ۔ اسے سب سے طاقتور جانور بھی سمجھا جاتا ہے لیکن خود اسے اس پر شک ہی رہتاہے جس کی وہ تصدیق بھی کرنے کی کوشش کرتا ہے جیسا کہ شیر کا ایک ہاتھی سے سامنا ہوا تو بولا تمہیں معلوم ہے جنگل کا سب سے طاقتور جانور کون ہے ہاتھی نے اسے سُونڈ میں لپیٹا اور اچھال کر کوئی پچاس فٹ دور پھینک دیا۔ شیر اُٹھ کر مٹی جھاڑتے ہوئے بولا:تمہیں اگر معلوم نہیں تھا تو اس میں اتنا ناراض ہونے کی کیا بات تھی؟ شیر اپنی دھاک بٹھانے کے لئے دہاڑتا بھی ہے۔ شیر بہت انصاف پسند جانور واقعہ ہوا ہے۔ ایک بار تین چار جانوروں کو ساتھ لے کر شکار کو نکلا۔ بالآخر اس نے ایک شکار مارگرایا اور اس کے چارٹکڑے کرکے بولا:یہ ایک حصہ تومیرا ہے۔ دوسرا بھی میرا ہے کیونکہ میں جنگل کا بادشاہ ہوں، تیسرا اس لئے میرا ہے کہ شکار میں نے کیاہے اور یہ چوتھا جس کی ہمت ہے آگے بڑھ کراٹھا لے!
بلی کو شیرکی خالہ بھی کہتے ہیں حالانکہ پھوپھی بھی کہہ سکتے ہیں۔ ایک شعر سنیے ؎
وہ تو غرا کے چل رہی تھی مگر
سہما سہما تھا شیر کا خالُو
ایک اور شعر حاضر ہے ؎
شیر آ کے چیرپھاڑ گیا مجھ کو خواب میں
دم بھر کر میری آنکھ لگی تھی مچان پر
شیر آیا، شیر آیا، دوڑنے والی کہانی آپ نے سن ہی رکھی ہوگی۔ شیر چیر پھاڑ دانتوں سے کرتا ہے جنہیں صاف اور مضبوط رکھنے کے لیے روزانہ مسواک بھی کرتا ہے۔ یہ محاورہ بالکل غلط ہے کہ ایک جنگل میں دو شیر نہیں رہ سکتے اور چونکہ جنگل کوئی باقی رہ نہیں گیا، اس لیے ٹولیوں کی شکل میں دیہات کی فصلوں میں لگے پھرتے ہیں۔ تاہم اس کی خالہ کے ساتھ اس کی نہیں بنتی، چنانچہ منقول ہے کہ پرانے وقتوں میں، یعنی جب جنگل ہوا کرتے تھے ‘ ایک لکڑ ہارا لکڑیوں کی تلاش میں پھر رہا تھا کہ اس نے ایک جگہ ایک بلی کو سہم کر بیٹھے دیکھا تو اس سے پوچھا کیا بات ہے جس پر بلی نے بتایا کہ جنگل کا شیر بڑا ظالم ہے اور ہر وقت دھمکیاں دے کر میرا خون خشک کرتا رہتا ہے۔ اتنے میں شیر بھی کہیں سے آ دھمکا۔ لکڑ ہارے نے اس سے کہا کہ تمہیں شرم نہیں آتی، بلی کو ڈراتے رہتے ہو، ہمت ہے تو مجھ سے لڑائی کر کے دیکھ لو۔ شیر نے کہا میں تیار ہوں تو لکڑ ہارے نے کہا کہ نواحی گاؤں میں مَیں نے ایک پیغام دینا ہے، وہاں سے واپسی پر تمہارے ساتھ لڑائی کر لُوں گا۔ شیر نے کہا ٹھیک ہے۔ لکڑ ہارا بولا کہ دیکھو کہیں بھاگ نہ جانا۔ شیر بولا کہ میں شیر ہوں۔ میں کیوں بھاگوں گا۔ لیکن لکڑ ہارا دس قدم چل کر پھر واپس آ گیا اور بولا کہ مجھے شک ہے کہ تم ضرور دوڑ جاؤ گے جس پر شیر بولا کہ تمہاری جس طرح تسلی ہوتی ہے کرلو۔ لکڑ ہارا بولا کہ میں تمہیں ایک درخت کے ساتھ احتیاطاً رسّے سے باندھ دیتا ہوں، واپس آ کر تمہیں کھول کر لڑوں گا۔ شیر نے کہا ٹھیک ہے۔ سو لکڑہارے نے اسے اپنے رسّے سے کس کر ایک درخت سے باندھا، اپنی کلہاڑی سے ایک تگڑا سا سوٹا بنایا اور مار مار کر شیرکا بھرکس نکال دیا۔ شیر کی آہ و بکا سن کر بلی نے بھی کہیں سے منہ نکالا تو اسے دیکھ کر شیر بولا، جب میں اس بلی جتنا رہ جاؤں گا تب مجھے چھوڑ دو گے نا!
کسی کی ہمت بندھانی ہو تو اسے یہ نہیں کہتے کہ ہاتھی بنو، بلکہ شیر بننے کامشورہ دیتے ہیں۔ کہتے ہیں کہ شیر کی ایک دن کی زندگی گیدڑ کی سو سالہ زندگی سے بہتر ہوتی ہے، ہم نے آج تک کسی گیدڑ کو سو سال تک جیتے نہیں دیکھا، نہ ہی کسی شیرکو ایک دن کے لیے زندہ دیکھا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ شکار اس کی مادہ یعنی شیرنی کر کے لاتی ہے اور یہ ہڈ حرام دن بھر مکھیاں مارتا رہتا ہے۔ اس لیے ڈرنے کی ضرورت شیرنی سے ہے، شیر سے نہیں۔ طاقتور بننے یا نظر آنے کیلئے لوگ شیر خاں وغیرہ جیسے نام بھی رکھ لیتے ہیں لیکن شیرو ہوکر رہ جاتے ہیں۔ شیر کو فارسی میں اسد کہتے ہیں۔ مرزا غالب کا نام اسد اللہ خاں تھا۔ ایک بار ایک شخص اُن سے ملنے کے لیے آیا اور کہا کہ آپ کے اس شعر کی داد دینا چاہتا ہوں ؎
اسد اس جفا پر بُتوں سے وفا کی / مرے شیر شاباش رحمت خُدا کی
غالب نے کہا کہ اگر یہ میرا شعر ہے تو مجھ پر لعنت خدا کی۔
یہ محاورہ بھی محلِ نظر ہے کہ شیر اور بکری ایک ہی گھاٹ پر پانی پیتے ہیں کیونکہ ایسی صورت میں یا تو شیر شیر نہیں ہوتا، یا بکری بکری نہیں ہوتی، یایہ ہو سکتا ہے کہ شیر کا پیٹ اس وقت کافی بھرا ہوا ہو، یا بکری ہی اس قدر سُوکھی سڑی ہو، اور شیر اسے کھانا ویسے ہی اپنی توہین سمجھتا ہو۔ یاد رہے کہ یہ گھاٹ دھوبی گھاٹ نہیں ہوتا۔منقول ہے کہ جنگل میں شیر کی شادی ہو رہی تھی تو وہاں ایک چوہا بھی بڑا مصروف نظر آیا۔ کبھی وہ شامیانے والوں سے تکرار کرتا اور کبھی دیگوں والے کو ڈانٹتا۔ کسی نے اس سے پوچھا: شادی تو شیر کی ہو رہی ہے، تم یہاں کیا کر رہے ہو؟ تو چوہا بولا:شادی سے پہلے میں بھی شیر ہُوا کرتا تھا!
ہمارے ہاں شیر کے مقابلے میں صرف ہیر پھیر ہوتا ہے جیسا کہ ”میاں ساڈا شیر اے، باقی ہیر پھیر اے‘‘۔ شیر کا حوصلہ والی بات بھی فضول ہے کیونکہ اس کی وہ مثال آپ دیکھ ہی چکے ہیں کہ کس طرح وہ اپنے شکار کا کوئی حصہ بھی دوسروں کو دینے پر تیار نہیں ہوتا۔شیر کی آنکھ سے دیکھنے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ آپ اپنی آنکھیں نکلوا کر شیر کی آنکھیں فِٹ کروا لیں اور اُن سے دیکھنا شروع کر دیں۔ اس کا صحیح طریقہ یہ ہے کہ آپ جس چیز کو شیر کی آنکھ سے دیکھنا چاہتے ہوں، شیر سے درخواست کریں کہ وہ اس چیز کو اپنی آنکھ سے دیکھ کر آپ کو بتا دے، لینا ایک نہ دینا دو۔شیر کو اپنی خالہ سے ہمیشہ یہ شکایت رہی ہے کہ اس نے اُسے سب کچھ سکھا دیا لیکن درخت پر چڑھنا نہیں سکھایا، کتنے افسوس کی بات ہے!
آج کا مطلع:
نہیں ہم اتنے بُرے بھی، یہ راز پا لیا ہے
سبھی ہمارے ہی جیسے ہیں آزما لیا ہے