ہمارے لئے تیل لائن ہمیشہ کھلی نہیں….نذیر ناجی
یورپ کا سارا ترقی یافتہ بلاک تیل کے متوقع بحران سے پریشان ہے۔ ہمارے لئے بھی پانی اور پٹرول تیزی سے اہمیت اختیار کر رہے ہیں۔ یورپی ممالک اور امریکہ‘ اس قدر فکر مند ہیں‘ لیکن ہمارے پاس اتنی مہلت نہیں؟ ہمیں جلداز جلد اس بحران پر قابو پانا ہو گا۔اسی حوالے سے لکھا گیا‘ ایک مضمون پیش ِخدمت ہے۔
”ہمارے بارے میں درست طور پر خیال کیا جاتا ہے کہ ہم یورپی یونین کو روس سے تحفظ فراہم کرتے ہیں‘ لیکن جرمنی اسی روس کے ساتھ پائپ لائن معاہدہ کر رہا ہے۔ آپ مجھے بتائو کہ کیا یہ مناسب ہے‘ واضح کرو کیا یہ مناسب ہے؟‘‘۔یہ وہ الفاظ تھے‘ جو امریکی صدر ٹرمپ نے نیٹو کے سیکرٹری جنرل‘ سٹولٹن برگ سے کہے اور اس طرح یورپ کے اپنے دورے کا آغاز کیا۔ وہ گزشتہ روز نیٹو کی سالانہ کانفرنس میں شرکت کے سلسلے میں بیلجم کے شہر برسلز میں موجود تھے۔ ان کا نیٹو کے سیکرٹری جنرل کے ساتھ یہ اظہار خیال معمول کے ڈپلومیٹک پروٹوکول سے مکمل انحراف تھا۔ سرد جنگ کے بعد کے زمانے میں ایسا پہلی بار ہوا ہے کہ کسی امریکی صدر نے یورپ والوں کا محافظ ہونے کا دعویٰ کیا ہو؟ اس سے یہ تاثر ابھرا ہے کہ امریکہ نیٹو کو برابری کی سطح پر قائم اتحاد نہیں سمجھتا‘ بلکہ خود کو بالا دست سمجھتا ہے۔ یہ بھی پہلی بار ہوا ہے کہ کسی امریکی صدر نے امریکی معاشی مفادات کو اپنی اس فوجی تحفظ کی پالیسی سے جوڑا ہے۔ کچھ عرصہ پہلے جرمنی نے روسی گیس بحیرہ بالٹک کے ذریعے‘ اپنے ہاں لانے کے لئے ایک نئی پائپ لائن تعمیر کرنے کی منظوری دی۔ لیکن یورپی یونین کی سطح پر اس کی تعمیر روک دی گئی ہے کیونکہ مشرقی یورپ کے کچھ ممالک نے اس منصوبے کے خلاف ایک بلاک (اتحاد) بنا لیا ہے۔ جرمنی کا کہنا ہے کہ اس پائپ لائن کی تعمیر سے توانائی کے حوالے سے یورپ کو زیادہ تحفظ ملے گا‘ کیونکہ یوکرائن کے راستے یہی ایندھن یورپ تک لانے کی وجہ سے جن رکاوٹوں کا سامنا کرنا پڑتا رہا ہے‘ ان سے نجات مل جائے گی اور گیس کی بلا تعطل فراہمی ممکن ہو سکے گی۔ یوکرائن والا راستہ مختلف وجوہ کی بنا پر غیر محفوظ ہے۔ اس معاملے میں یورپ دو حصوں میں بٹا نظر آتا ہے۔ ایک طرف مشرقی بلاک ہے جو اس منصوبے کی مخالفت کر رہا ہے۔ دوسری جانب جرمنی ہے اور اس منصوبے کے حامی کچھ دوسرے ممالک‘ جیسے فن لینڈ‘ سویڈن اور ڈنمارک ‘ تینوں ممالک نے اس پائپ لائن منصوبے کی منظوری دے رکھی ہے۔ جرمنی کے موقف کے برعکس مشرقی یورپ کے ممالک‘ جن کی سربراہی پولینڈ کر رہا ہے‘ اور جنہیں واشنگٹن کی حمایت بھی حاصل ہے‘ کا کہنا ہے کہ نئی پائپ لائن بچھانے کا یہ منصوبہ یورپ کی سکیورٹی کے لئے خطرناک ثابت ہو سکتا ہے کیونکہ اس طرح یورپی یونین کا توانائی کے حوالے سے روس پر انحصار بڑھ جائے گا اور روس جب چاہے گا اس کو یورپی یونین کے خلاف استعمال کر سکے گا۔ واشنگٹن کو اس بات کا یقین ہے کہ یہ روس کا پیش کردہ منصوبہ ہے جو ایک بائی پاس پائپ لائن بچھا کر یوکرائن کو سبق سکھانا چاہتاہے۔ فی الحال روس سے یورپ تک جو پائپ لائن بچھی ہوئی ہے وہ یوکرائن میں سے ہو کر گزرتی ہے‘ جہاں اسے خطرات درپیش ہیں۔
ماسکو نے امریکہ کے اس طرزِ عمل پر رد عمل ظاہر کیا اور کہا کہ امریکہ کی فکر یورپ کے توانائی کے معاملے میں تحفظ کے بارے میں نہیں بلکہ اپنے فائدے کے لئے ہے۔ وہ نہیں چاہتا کہ اس کی یورپ کے ساتھ تجارت پر کسی قسم کے کوئی اثرات مرتب ہوں۔ امریکہ میں توانائی کے ذرائع پیدا کرنے والے بڑے گروپوں نے منصوبہ بندی کر رکھی ہے کہ وہ سرپلس شیل گیس کو مائع گیس (ایل این جی) کی صورت میں بحری جہازوں کے ذریعے یورپ کو برآمد کریں گے۔ بحیرہ بالٹک کے کناروں پر واقع کچھ ممالک نے تو اس مقصد کے لئے ایل این جی پورٹ ٹرمینلز بنانا بھی شروع کر دئیے ہیں تاکہ اپنی توانائی کی ضروریات کو امریکی ایل این جی سے پورا کر سکیں۔ وہ خاصے پُر امید ہیں۔ ماسکو کا یہ بھی کہنا ہے کہ امریکہ اپنی وسیع و عریض برآمدی منڈی کو کھلا اور اپنی دسترس میں رکھنے کے لئے جیو پولیٹکس کو بطور آڑ استعمال کر رہا ہے۔
جرمنی بھی امریکہ سے بد گمان نظر آتا ہے اور چاہتا ہے کہ پہلے سے موجود پائپ لائن‘ جسے نورڈ سٹریم ون کا نام دیا گیا ہے‘ کے ساتھ ساتھ ایک اور پائپ لائن بچھانے کے اپنے منصوبے کو ہر حال میں جلد از جلد مکمل کرے کیونکہ وہ نہیں چاہتا کہ ایک اور ایسا موسم سرما آئے جس میں گیس کی سپلائی روس اور یوکرائن کے مابین جھگڑوں کی وجہ سے متاثر ہو۔ برسلز اس تنازع کے بیچ میں کہیں پھنس گیا ہے۔ پہلے جب پولینڈ نے زبانی شکایت کی تھی تو اس وقت یہ طے کیا گیا تھا کہ یورپی کمیشن اس معاملے کو ان ممالک پر چھوڑ دے گا‘ جن میں یہ پائپ لائن تعمیر ہو گی۔ پولینڈ نے کہا تھا کہ یورپی یونین کی رکن تمام ریاستیں مل بیٹھیں تاکہ روس کے ساتھ مذاکرات کے مینڈیٹ پر کوئی مشترکہ حکمت عملی مرتب کی جا سکے۔امریکہ اور یورپی یونین کے مابین تجارت میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ اس چیز کو سامنے رکھتے ہوئے نیٹو کے سیکرٹری جنرل سٹولٹن برگ کو توقع تھی کہ نورڈ سٹریم ایشو کو نیٹو کی حالیہ کانفرنس سے باہر رکھا جا سکے گا۔ جب
سٹولٹن سے صدر ٹرمپ کے بیان کے بارے میں اظہارِ خیال کرنے کو کہا گیا تو تب بھی انہوں نے اسی بات پر زور دیا کہ امریکی صدر کو اس ایشو کو نیٹو کی کانفرنس میں نہیں لانا چاہئے تھا۔ انہوں نے کہا ”نورڈ سٹریم پائپ لائن کے بارے میں مختلف النوع خیالات اور تصورات پائے جاتے ہیں اور ان تصورات کے بارے میں سبھی اچھی طرح جانتے ہیں۔ کوئی بھی چیز چھپی ہوئی نہیں ہے لیکن یہ نیٹو کا مسئلہ نہیں ہے کہ وہ اس معاملے کو طے کرے۔ یہ ایک قومی معاملہ ہے اور یورپی ممالک کو ہی اسے حل کرنا چاہئے‘‘۔ سٹولٹن نے مزید کہا کہ جب توانائی کی بات آتی ہے تو یقیناً اس حوالے سے قومی سلامتی کے سوالات موجود ہیں۔ کچھ ممالک کو تحفظات بھی ہیں‘ لیکن نیٹو کو دراصل ‘انرجی سکیورٹی‘ کے بارے میں تحفظات ہیں‘ کیونکہ ہم اچھی طرح جانتے ہیں کہ توانائی اور سکیورٹی میں کیا تعلق ہے؟
ٹرمپ نورڈ سٹریم ایشو کو امریکہ یورپی یونین تنازع کے تناظر میں پہلے بھی زیرِ بحث لا چکے ہیں۔ لیکن اس معاملے کو فوری طور پر نیٹو کی کانفرنس میں لے آنا اور وہ بھی کانفرنس شروع ہونے سے پہلے‘ ظاہر کرتا ہے کہ جرمنی پر دبائو بڑھایا جا رہا ہے کہ وہ پائپ لائن کے منصوبے کو ترک کر دے۔ خود جرمنی کے اندر بھی اس منصوبے کی اچھی خاصی مخالفت کی جا رہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جرمن چانسلر اینجلا مرکل نے اشارے دئیے ہیں کہ وہ اس منصوبے سے بد دل ہو رہی ہیں۔ اس سارے عرصے میں توانائی کے ذرائع کے سٹیک ہولڈرز کی نظریں‘ صدر ٹرمپ پر مرکوز رہیں کہ نورڈ سٹریم کے معاملے میں مزید کیا پیش رفت کرتے ہیں؟ بہرحال صدر ٹرمپ نے جس طرح پائپ لائن کے ایشو کو نیٹو کانفرنس کے موقع پر اجاگر کیا ہے‘ اس سے لگتا ہے کہ آنے والے دنوں میں یہ معاملہ مزید تنازعات کا باعث بھی بن سکتا ہے‘‘۔