ہمارے محقق ہمارے ماہر….نذیر ناجی
گزشتہ روز خدا کے فضل و کرم سے قومی اسمبلی میںفاٹاکے خیبر پختونخوا میں انضمام سے متعلق 31 ویں آئینی ترمیم کو منظور کر لیا گیا ۔سپیکر سردار ایاز صادق کی زیرصدارت یہ کارنامہ سرانجام دیا گیا۔ اجلاس میں وزیراعظم شاہد خاقان عباسی اورتحریکِ انصاف کے چیئرمین عمران خان خصوصی طور پر شریک ہوئے۔اجلاس کے دوران وفاقی وزیر برائے قانون و انصاف محمود بشیر ورک نے فاٹا کے خیبر پختونخوا میں انضمام سے متعلق 31ویں آئینی ترمیم کا بل پیش کیا۔حکومت کی اتحادی جماعت جمعیت علمائے اسلام (ف) جس کے سربراہ مولانا فضل الرحمان ہیں‘ نے بھر پور مخالفت کی۔ مخالفت کرنے والی دیگر جماعتوں میںپشتونخوا ملی عوامی پارٹی پیش پیش تھی۔ میرے لئے حیرت کی بات یہ تھی کہ پشتونخوا ملی عوامی پارٹی کے اراکین نے قومی اسمبلی اجلاس کے دوران بل کی کاپیاں تک پھاڑ ڈالیں۔حکومت کے اہم اتحادی مولانا فضل الرحمان اور محمود خان اچکزئی ایوان میں حاضر ہی نہ ہوئے اور ان دونوں جماعتوں نے کھل کی آئینی ترمیمی بل کی مخالفت کی۔آپ اس بات سے اندازہ کر لیں کہ حکمران جماعت کے دونوں اہم اتحادی اس معاملے میں کس قدر سنجیدہ ہیں؟ فاٹا کے خیبرپختونخوا میں انضمام سے متعلق 31 ویں آئینی ترمیم کی شق وار منظوری لی گئی۔ پاکستانی قوم کے لئے خوشی کی بات یہ تھی کہ بل کی حمایت میں 229 اراکین نے ووٹ دیا جبکہ صرف ایک رکن نے اس کی مخالفت کی۔
فاٹا کے خیبر پختونخوا میں انضمام سے متعلق 31ویں آئینی ترمیم کے بل سے سب سے بڑا فائدہ یہ ہو گا کہ صوبائی حکومت کی عملداری سے صدر اور گورنر کے خصوصی اختیارات ختم ہو جائیں گے اور ایف سی آر کا بھی مکمل خاتمہ ہو جائے گا۔این ایف سی ایوارڈ کے تحت فاٹا کو 24 ارب روپے کے ساتھ 100 ارب روپے اضافی ملیں گے‘ جس سے قبائلی عوام کا احساس محرومی ختم ہوگا۔ اورسب سے بڑھ کر 10 سال کے لیے ایک ہزار ارب روپے کا خصوصی فنڈ ملے گا جو کسی اور جگہ استعمال نہیں ہو سکے گا۔ جیسا کہ میں پہلے عرض کر چکا ہوں کہ اس بل کی منظوری میں سردار ایاز صادق نے اہم کردار ادا کیا۔اگر آپ گزشتہ تمام آئینی مسودے تیار کرنے والوں کے نام یاد کریں تو معلوم ہوگا کہ اس آئینی ترمیم کی تیاری میں ذہین ماہرین اور محققین نے حصہ لیا۔حالیہ اجلاس میں ہمارے وفاقی وزیرقانون و انصاف محمود بشیر ورک کی پیش گئی 31ویں آئینی ترمیم کو من و عن منظور نہیں کیا گیا۔اس نئی ترمیم میں کون کون سے نئے نکات اور ترامیم شامل کی گئی ہیں اور مزید بحث کے بعد کتنی مزید ترامیم شامل کی جائیں گی؟ اس کا پتہ چند روز میں چل جائے گا؟ آپ اندازہ کر سکتے ہیں کہ حالیہ نئی ترمیم کو تیار کرنے میں قوم کے کتنے برس‘ اور انتہائی اعلیٰ درجے کے تعلیم یافتہ ماہرین قوانین نے کتنی سرکھپائی کی؟ ہر نئی آئینی ترمیم کے وقت‘ عصر حاضر کے مفکرین اور مبصرین کی مدد سے کتنی مطلوب مغزماری درکار ہوتی ہے؟ اور پاکستان کے زرخیز دماغوںنے کتنے کتنے آئین ایجاد کئے ؟ہر پرانے آئین کی مرمت اور درستی کے لئے جب کوئی نیا آئین تیار ہو ‘تو پرانا آئین عمارتوں میں جمع کر کے‘ آنے والی نسلوں کے لئے محفوظ کر دیا جاتاہے تاکہ جب ان کا دل چاہے‘ وہ اپنے زمانے کے آئینی شعور اور ارتقا کا ریکارڈ ‘ دیکھ کرجدید عہد کے تقاضے پورے کرنے کے لئے نئی سے نئی نسل ریسرچ کریں۔
سچی بات ہے مجھے اس بات پر ہمیشہ ‘ ‘ فخر‘‘ رہا کہ ہمارے” عظیم سیاست دانوں ‘‘ مفکروں اور محققین نے دنیا میں ایک نئی طرز کا آئین ایجاد کر کے ہم پر لاد دیا۔ ہماری کمریں کبڑی ہوتی گئیں‘لیکن پاکستان کے آئین میں نئے نئے خیالات اور اختراعات کے اضافے کا سلسلہ جاری رکھا گیا۔زندہ قوموں کی طرح پاکستان کے آئینی ماہروں اور مفکروں نے ہمارے آئین میں فرسودہ اور پرانے قوانین کو کبھی ملحوظ خاطر نہیں رکھا ۔ ہمارے آئین سازوں نے آئین میں ایسے ایسے جدید آئیڈیاز شامل اور نکتہ سازیاں کیں کہ ساری یونیورسٹیاںاعلیٰ درجے کی ریسرچ اور کارناموں سے اپنے دور کو مال مالا کر گئیں۔