ہمہ گیر انقلاب…..علامہ ابتسام الٰہی ظہیر
تاریخ ِ عالم میں بہت سے انقلاب آئے‘ جنہوں نے انسانی معاشروں اور انسانوں کی زندگیوں کومتاثر کیا۔ کئی انقلابی تبدیلیوں کے نتیجے میں معاشروں کی پوری جہت ہی تبدیل ہو گئی ۔ کئی انقلاب ایسے بھی آئے‘ جن کے نتیجے میں انسانوں کو بڑی تعداد کو تہ ِ تیغ کر دیا گیا۔ انقلاب کے نتیجے میں فتح یاب ہونے والے یا غالب آونے والوں نے مفتوحین کو بلا تفریق قتل کر ڈالا۔ تاریخ عالم میں ایسے واقعات بھی رونما ہوئے کہ بڑے بڑے کتب خانوں کو کتابوں سمیت دریا برد کر دیا گیا اور انسانوں کے خون سے دریاؤں کو رنگین کر دیا گیا‘ لیکن وہ واحد ہمہ گیر انقلاب جس میں انتقام کی بجائے محبت اور پیار کا عنصر نظر آتا ہے اور تشدد اور افتراق کی بجائے فقط خیر خواہی ہی نظر آتی ہے‘ وہ نبی ٔکریم حضرت محمد ﷺ کا قائم کردہ انقلاب ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات اور آپﷺ کی دعوت کے اثرات کے نتیجے میں جو ہمہ گیر انقلاب بپا ہوا ‘اس نے زندگی کے ہر شعبے کو متاثر کیا؛ چنانچہ جب ہم آپﷺ کے قائم کردہ انقلاب کا گہرائی سے جائزہ لیتے ہیں‘ تومنظر کچھ یوں نظر آتا ہے‘ اگر اس انقلاب کا ترتیب کے ساتھ جائزہ لیا جائے‘ تو بات کچھ یوں نظر آتی ہے:
1۔عقائدمیں انقلاب : نبی ٔ کریمﷺ کی بعثت سے قبل لوگ بتوں کی پوجا کیا کرتے تھے ۔ لات منات‘عزیٰ ‘ اور ہبل جیسے بتوں کے سامنے جھکا کرتے تھے‘اسی طرح بعض لوگ سورج ‘ چاند‘ ستاروں کی پوجا کیا کرتے تھے۔ آتش پرست آگ کی پوجا کیا کرتے تھے اور ثنویت‘ یعنی دو خداؤں پر یقین رکھا کرتے تھے ۔ نصرانیوں نے حضرت مسیح علیہ السلام کی ذات کے حوالے سے مبالغہ آمیزی کرتے ہوئے ان کو اللہ تبارک وتعالیٰ کا بیٹا قرار دے دیا اور تین خداؤں‘ یعنی تثلیث کو ماننا شروع ہو گئے۔ نبیٔ مہربان حضرت محمدﷺ نے عقائد کی دنیا میں ایک ایسا انقلاب بپا کیا کہ لوگوں کو بت پرستی چھڑوا کر ‘ ستارہ اور سورج پرستی سے ہٹا کر اور مسیح علیہ السلام کی پرستش سے دُور کر کے ان کو ایک اللہ کی وحدانیت کا درس دیا اور لوگوں کو غیر اللہ کی آستانے سے ہٹا کر ایک اللہ کے آستانے پر جھکنے کا سبق پڑھایا۔ اور لوگوں کی اعتقادی اور فکری گمراہی کو دُور کیا۔
2۔سماج میں انقلاب: جاہلیت کے معاشرے میں سماجی برائیاں اپنے پورے عروج پر تھیں ۔ طوائفیں سرعام جسم فروشی کے دھندے میں ملوث تھیں‘ بے حیائی اپنے پورے عروج پر تھی ۔ عورتوں کا استحصال انتہا پر تھا۔ لوگ بیٹیوں کو زندہ درگور کر دیا کرتے تھے‘ اپنے باپ کی منکوحہ کے ساتھ بھی نکاح کر لیاجاتا تھا۔ ناچ گانے‘ رقص وسرور کا چلن عام تھا۔ شراب نوشی کی قباحتیں اپنے پورے عروج پر نظر آتی تھیں‘لوگ چھوٹی چھوٹی باتوں پر ایک دوسرے کی گردن کاٹ دیا کرتے تھے۔ گھمنڈ اور تکبر کی وجہ سے دوسرے انسانوں کو بغیر کسی معقول وجہ کے بے دری سے قتل کر دیا جاتا تھا ۔ لوگ مختلف قبائل میں بٹے ہوئے نظر آتے تھے اور کسی بھی طور پر ایک دوسرے کے ساتھ ہم آہنگ ہونے کے لیے تیار نہ تھے۔نبی ٔمہربان حضرت محمد ﷺ کی بعثت کے بعد ایسا انقلاب رونما ہوا کہ بیٹیوں کو زندہ درگور کرنے والے لوگ بیٹیوں کی عزتوں اور آبروؤں کے رکھوالے بن گئے‘ اپنے باپ کی منکوحہ کے ساتھ نکاح کو ہمیشہ کے لیے حرام قرا ر دے دیا گیا۔ بے حیائی اور زناکاری کا ارتکاب تو بڑی دور کی بات ہے‘ ان کے قریب جانے سے بھی لوگوں کو منع کر دیا گیا۔ بدکرداری کی روک تھام کے لیے اللہ تبارک وتعالیٰ کے حکم سے پردے داری کے نظام کو بھرپور طریقے سے معاشرے میں قائم کر دیا گیا۔ غیر محرم عورت سے ناجائز تعلق تو بڑی دور کی بات ہے‘ لوگ ان کی طرف آنکھ اٹھا کر دیکھنا بھی گوارا نہیں کرتے تھے۔ شراب اور دیگر نشہ آور اشیاء کو ہمیشہ کے لیے حرام قرار دے دیا گیا اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے شراب تو بڑی دور کی بات ہے‘ ان پیمانوں کو بھی رکھنا گوارہ نہیں کیا‘ جن میں کبھی شراب چھلکا کرتی تھی۔
معاشرے میں انسانی جان کے احترام کو اس حد تک اہمیت دی گئی کہ ایک انسان کے قتل کو پوری انسانیت کا قتل قرار دیا گیا اور ایک انسان کو زندہ کرنے کو پوری انسانیت کو زندہ کرنے کے مترادف قرار دے گیا۔ بھائی چارے اور اخوت کا چلن پوری طرح عام ہوگیا۔ نبی ٔکریمﷺ نے جاہلیت کے فخر کا ہمیشہ کے لیے خاتمہ فرما دیا اور اس بات کو واضح فرما دیا کہ کسی عربی کو کسی عجمی پر اور کسی کالے کو کسی گورے پر نسل اور رنگ کی وجہ سے کوئی فوقیت حاصل نہیں۔
3۔معاشی انقلاب: زمانہ ٔ جاہلیت میں مختلف طریقوں سے لوگوں کا معاشی استحصال اور استیصال کیا جاتا تھا۔ معاشی معاملات میں دوسروں کے ساتھ زیادتیاں کی جاتی تھیں۔ معاشی استحصال کی بدترین قسم سودی نظام تھا‘ جس میں مقروض کی مجبوری کا فائدہ اُٹھاتے ہوئے‘ اصل قرض کے ساتھ اضافی تاوان بھی وصول کیا جاتا تھا۔ نبی ٔکریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سود کو ہمیشہ کے لیے حرام قرا ردے دیا گیا‘ بلکہ کلام مجید میں سودی لین دین کرنے والے کو اللہ اور اس کے رسول کے خلاف جنگ کرنے والا قرار دے دیا گیا۔
4۔معاشرے میں ناانصافی کا خاتمہ: معاشرے میں انصافی کا خاتمہ کرکے حقیقی عدل کا نظام جاری کر دیا گیا۔ اونچ اور نیچ کے فرق کو مٹا دیا گیا اورا س بات کی ضمانت دی گئی کہ قانون کا یکساں اطلاق کیا جائے گا۔ بنومخزوم کی ایک اونچی عورت کی چوری کے ارتکاب پر جب اسامہ ابن زید رضی اللہ تعالیٰ عنہ سفارشی بن کر رسالت ِمآب صلی اللہ علیہ وسلم میں حاضر ہوئے‘ تو آپﷺ نے فرمایا :”اگر میری بیٹی فاطمہ بھی چوری کرے‘ تو میں اس کے بھی ہاتھ کاٹ ڈالوں‘‘۔ اور ساتھ سابقہ امتوں کے زوال کی ایک بڑی وجہ یہ بھی بتلائی کہ ان میں اگر کوئی بڑا جرم کرتا تو اس کو چھوڑ دیا جاتا اور اگر کوئی چھوٹا جرم کرتا‘ تو اسے سزا دی جاتی۔‘‘ زناکاری کے خاتمے کے لیے شادی شدہ زانی کے لیے رجم اور کنوارے زانی کے لیے سو 100 کوڑوں سزا کو مقرر کر دیا گیا۔ چور ی کرنے والے کے ہاتھ کو کاٹنے کی سزا کو مقرر کرکے چوری کی روک تھام کو یقینی بنا دیا گیا۔ بہتان تراشی کو روکنے کے لیے اسی80کوڑے قذف کی سزا کو مقرر کر دیا گیا‘ قتل کا بدلہ قتل مقرر کرکے انسانوں کی جان کی حرمت کو یقینی بنانے کی ضمانت دی گئی۔
نتیجتاً جزیرۃ العرب ہمیشہ کے لیے سنگین نوعیت کے جرائم سے پاک ہو گیا۔
5۔خیرخواہی کا نظام: نبی ٔکریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جہاں مختلف شعبوں میں ایک انقلاب کو بپا کیا‘ وہیں پر لوگوں کی معاونت کے لیے معاشی خیر خواہی کاایک منتظم ترین نظام زکوٰۃ اور عشر کی شکل میں لوگوں کو عطا کیا۔ اس نظام کا تقاضا یہ تھا کہ ہر صاحب نصاب شخص اپنے مال اور کاروبار میں ڈھائی فیصد اللہ کے راستے میں خرچ کرے اور اس مال کو جس علاقے سے وصول کیا جائے ‘اسی علاقے کے مفلوک الحال طبقات میں تقسیم کر دیا جائے ‘اس عمل کا نتیجہ یہ نکلا کہ غربت اور مفلوک الحالی کا پورے طریقے سے خاتمہ ہو گیا۔
نبی ٔکریمﷺ کا یہ ہمہ گیر انقلاب آپﷺ کی حیات مبارکہ ہی میں جزیرۃ العرب اور یمن پر غالب آگیا اور آپﷺ کے خلفاء کے عہد میں یہ انقلاب بڑھتا بڑھتا روم اور ایران تک جا پہنچا اور بعد میں آنے والے ادوار میں اس نے پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ اس ہمہ گیر انقلاب نے اعتقادی ‘فکری‘ سماجی ‘ سیاسی اور معاشی سطح پر مسلمانوں کی جس انداز میں رہنمائی کی ‘اس نے مسلمانوں کو دنیا کی سب سے بڑی طاقتور قوم بنا دیا‘ لیکن بعد ازاں جب رفتہ رفتہ مسلمان کتاب اللہ اور سنت نبوی شریفﷺ سے دور ہوئے‘ تو زوال ان کا مقدر بن گیا۔ آج بھی اگر مسلمان زوال سے نکلنا اور پسماندگی کا خاتمہ چاہتے ہیں‘ تو ان کو چاہیے کہ وہ کتاب وسنت کی طرف مراجعت کریں ۔ آج بھی سیرت نبوی شریف ﷺ پر عمل پیرا ہو کر ہم اپنی فکری درماندگی اور ذہنی پسماندگی پر قابو پانے میں کامیاب ہو سکتے ہیں۔اللہ تبارک وتعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہم سب کو صحیح معنوں میں نبیٔ کریمﷺ کی سیرت مبارکہ پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین