منتخب کردہ کالم

ہم اسامہ بن لادن تک کیسے پہنچے؟ (جمہور نامہ) رئوف طاہر

دہشت گردی کی جنگ کے حوالے سے پاک‘ افغان سرحد کی بات بھی ہوتی ہے‘ جس کے اُس طرف پاکستان میں دہشت گردی کرنے والوں کی تربیت گاہیں اور محفوظ پناہ گاہیں موجود ہیں۔ برادرم ابراہیم راجا نے اس اتوار اپنے کالم میں 2400کلو میٹر طویل پیچیدہ ترین سرحد پر سنگلاخ چٹانوں‘ بلند پہاڑوں‘ ڈھلوانوں اور دشوار گزار راستوں کا ذکر کرتے ہوئے سوال اٹھایا کہ کیا دونوں ملکوں کے لیے ایسی سرحد کی مکمل نگرانی ممکن ہے؟ اس پر ہمیں خود اپنا ایک سنسنی خیز سفر یاد آیا۔ امریکہ کو مطلوب ‘ اسامہ بن لادن سے ملاقات میں ایسے مراحل بھی آئیں گے‘ یہ ہمارے وہم و گمان میں نہ تھا۔
مئی1998ء کا آخری ہفتہ‘ نماز مغرب کا وقت تھا جب پاک افغان سرحد پر ‘ چیک پوسٹ سے کچھ فاصلے پر ہم نے گاڑی چھوڑ دی۔ نماز کے بعد ”گائیڈ‘‘ سے مشاورت ہوئی ۔اس کا کہنا تھا کہ سرحد پر متعین ملیشیا والوں سے بچ کر‘ افغانستان کی سرزمین پر پہنچنے کا محفوظ ترین راستہ اختیارکرنا ہے تو اڑھائی تین گھنٹے کا پیدل سفر درکار ہو گا۔ اس کے لیے ابھی سے چل پڑیں۔ دوسرا راستہ مختصر ہے جس پر ایک ڈیڑھ گھنٹے لگے گا لیکن اس میں چیک پوسٹ والوں کی نظر سے بچنے کے لیے بہت احتیاط سے کام لینا ہو گا اور پہلی احتیاط یہ ہے کہ شب کی سیاہی کے گہرا ہونے کا انتظار کیا جائے۔ مشاورت کے بعد دوسرا راستہ اختیار کرنے کا فیصلہ ہوا۔
تاریکی گہری ہوئی تو گائیڈ نے کہا‘ دو‘ دو کی ٹولیاں بنا لیں جو ایک دوسرے سے کچھ فاصلے پر رہیں تاکہ قدموں کی آہٹ زیادہ نہ ہو۔ اس نے اس دوران مکمل خاموشی‘(انگریزی والی”پن ڈراپ سائیلنس‘‘) کی بھی ہدایت کی کہ سانسوں کی آوازبھی سنائی نہ دے۔ پہاڑی علاقے میں تاریک راہوں کا یہ سفر یادگار بنتا جا رہا تھا۔ اونچے نیچے پتھر‘ کچھ اندازہ نہ ہوتا تھا کہ اگلا پائوں کہاں پڑے گا۔ دو تین بار ٹھوکر کھائی۔ ایک طرف کھائیاں‘ جن سے بچنے کے لیے دوسری جانب جھاڑیوں کی طرف ہاتھ بڑھایا تو سوئیاں سی چُبھ گئیں۔ تاریکی میں اندازہ ہی نہ ہوا کہ یہ خار دار ہیں۔ تھوڑی دیر بعد احساس ہوا‘ ہتھیلی سے خون رِس رہا تھا۔
اواخر مئی کا یہ دن بہت گرم گزرا تھا۔ شام بھی بہت شدید تھی۔ اونچے نیچے خطرناک راستوں پر پیاس نے آ لیا تو یاد آیا کہ پانی کی بوتلیں تو گاڑی میں چھوڑ آئے تھے۔ حلق میں کانٹے سے چبھنے لگے۔ اچانک بائیں جانب کچھ فاصلے پر سرحدی چوکی سے لائٹ بلند ہوئی‘ یوں لگا جیسے اس کا رخ ہماری جانب ہو۔ گائیڈ نے سرگوشی کی‘”یہیں بیٹھ جائیں‘ بلکہ اگر ہو سکے تو لیٹ جائیں‘ ہم نے اکڑوں بیٹھنے پر ہی اکتفا کیا۔ اونچے نیچے پتھروں پر لیٹنا آسان تو نہ تھا۔
چند ساعتوں کے بعد چیک پوسٹ کی جانب سے دو لائٹیں حرکت کرتی نظر آئیں۔ خوف کی لہر سی ابھری‘ کیا شک پڑنے پر ہمارا تعاقب شروع ہو گیا ہے؟ گائیڈ نے کہا‘ اب بیٹھنے یا لٹینے کی بجائے‘ آواز پیدا کئے بغیر تیزی سے آگے بڑھیں۔ دو‘ دو افراد پر مشتمل چار‘ پانچ ٹولیاں تیزی سے حرکت کرنے لگیں۔ اندیشے نے سر اٹھایا کہ گھپ اندھیرے میں اِدھر اُدھر بھٹک گئے تو ویرانے میں جانے کیا گزر جائے؟ فیض صاحب یاد آئے ع
ہم جو تاریک راہوں میں مارے گئے
بہرحال گرتے پڑتے ‘ بچتے بچاتے‘ رُکتے رکاتے‘ تقریباً سوا‘ ڈیڑھ گھنٹے بعد ہم نسبتاً کھلے علاقے میں تھے۔ گائیڈ نے خوش خبری دی‘ خطرہ ٹل گیا‘ اب ہم افغانستان میں ہیں۔ کچھ فاصلے پر طالبان کی چیک پوسٹ تھی جنہیں ہماری آمد کی پہلے سے اطلاع تھی۔ وہ بڑے والہانہ انداز میں آگے بڑھے‘ ”پاکستانی برادران‘‘ ! اور پھر ہمارے چہروں پر داڑھی نہ پا کر انہیں قدرے مایوسی بھی ہوئی۔ ہم نے چشمے کے تازہ پانی سے پیاس بجھائی اور آگے بڑھ گئے۔
رات ہمیں ایک ”جہادی کیمپ‘‘ میں گزارنا تھی۔ پہاڑوں کے دامن میں یہاں جنریٹر سے بجلی کا بندوبست کیا گیا تھا۔ رات کا کھانا اور عشاء کی نماز کے بعد فرشی بستروں پر ہم کھلے آسمان کو تک رہے تھے۔ برسوں بعد ایسا شفاف آسمان اور چمکدار تارے نظر آئے تھے۔ آلودگی سے پاک ماحول بھلا محسوس ہو رہا تھا۔ سفر کی ساری صعوبت ذہن سے محو ہو گئی تھی۔
شب کے گیارہ بج رہے تھے جب دو گاڑیاں اس کیمپ میں پہنچیں۔ یہ اسامہ بن لادن کے رفقا تھے جو پاکستان سے آنے والے اس صحافتی وفد کے خیر مقدم اور ان سے تعارف کے لیے آئے تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ انٹرویو کا حتمی وقت ابھی طے نہیں کیا جا سکتا۔ امکان ہے کہ یہ اگلے روز صبح ہو جائے۔ صحافتی وفد میں مسعود ساحر‘ رحیم اللہ یوسف زئی‘ نجم ولی خاں‘ اجمل ستار اور ابو شیراز کے علاوہ اسلام آباد میں متعین ایک چینی اخبار نویس مسٹر چن بھی تھے۔ اگلی صبح اسامہ کے یہ رفقا پھر ہمارے پاس تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ ملاقات شاید آج شب نو بجے سے پہلے نہ ہو سکے۔ معلوم ہوا کہ کچھ عرصہ قبل امریکی ٹیلی ویژن کی ایک ٹیم بھی یہیں آ کر ٹھہری تھی اور اسامہ نے اسے بھی شب نو بجے کا وقت دیا تھا‘ یہ شاید سکیورٹی کے تقاضوں کے پیشِ نظر تھا کہ تاریکی میں پتہ نہ چلے کہ کن راستوں پر آمدو رفت ہوئی اور انٹرویو کس جگہ پر ہوا لیکن پہاڑی علاقے میں پُر پیچ راستوں پر دن کی روشنی میں بھی اجنبی کو کچھ پتہ نہیں چلتا کہ کدھر سے آ رہے ہیں‘ کدھر جا رہے ہیں۔
ہم اپنے میزبانوں کو احساس دلا رہے تھے کہ ہم پاکستان میں کیا حالات چھوڑ کر آئے ہیں جہاں کسی بھی لمحے ایٹمی دھماکہ متوقع ہے‘ چنانچہ ہم جلد از جلد واپس جانا چاہتے ہیں۔ اور یہ بھی کہ ہمیں امریکیوں کی طرح”ٹریٹ‘‘ نہ کیا جائے‘ ہمارے حوالے سے سکیورٹی کی غیر معمولی احتیاطوں کی ضرورت نہیں۔ وہ یہ کہہ کر رخصت ہوئے کہ ہم تیار رہیں۔ ہمیں کسی بھی وقت انٹرویو کے لیے لے جایا جا سکتا ہے۔
نماز ظہر کے وقت تین ڈبل کیبن گاڑیاں ہمیں لے جانے کے لیے آ گئیں‘ جن میں وائرلیس سیٹ نصب تھے۔ ہماری گاڑی کا عرب ڈرائیور بڑی مہارت سے اونچے نیچے راستوں پر گاڑی دوڑائے لیے جا رہا تھا۔ راستے میں آنے والے ندی نالوں کو وہ بڑی مشاقی سے عبور کرتا رہا۔
دو گھنٹے سے زائد سفر کے بعد اب نئے دلچسپ اور سنسنی خیز مراحل درپیش تھے۔ ایک موڑ پر اچانک تین نقاب پوش گاڑی کے سامنے آ کھڑے ہوئے‘ دو کے ہاتھ میں کلاشنکوف اور تیسرے کے پاس راکٹ تھا۔ ان کے کچھ اور مسلح نقاب پوش ساتھی جھاڑیوں کے سائے میں چاق و چوبند کھڑے تھے۔ ڈرائیور نے اپنے وائرلیس پر کسی ”ذمہ دار‘‘سے اس کی بات کرائی اور اسے آگے جانے کا اذن مل گیا۔ لیکن ابھی عشق کے امتحان اور بھی تھے۔ گاڑیاں پھر اونچے نیچے اور ٹیڑھے میڑھے راستوں پر دوڑنے لگیں۔ پندرہ بیس منٹ بعد پھر چیکنگ کا یہی مرحلہ درپیش تھا۔ وائرلیس پر رابطہ کیا گیا اور ”اوپر ‘‘ سے کلیرنس ملنے کے بعد آگے بڑھنے کی اجازت ملی۔ دس پندرہ منٹ بعد پھر یہی آزمائش۔
اور اب ہم منزل پر پہنچ چکے تھے۔ پہاڑوں کے دامن میں اس کیمپ کے سیاہ گیٹ پر آخری بار چیکنگ ہوئی اور وائرلیس پر ”احکامات‘‘ حاصل کرنے کے بعد گیٹ کھول دیا گیا۔ یہاں عمارتوں کی چھتوں پر بڑی تعداد میں مسلح گارڈ موجود تھے۔ گردو پیش پہاڑوں پر بھی باوردی مسلح افراد بڑی تعداد میں مستعد کھڑے تھے۔ ہمیں کانفرنس روم میں لے جایا گیا۔ ملاقات کے ”آداب‘‘ میں یہ بات شامل تھی کہ یہاں کوئی تصویر اتارنے کی کوشش نہ کی جائے۔ اسامہ کی تصاویر کے لیے الگ سیشن ہو گا اور اس دوران بھی ہمیں تمام ہدایات پر پوری طرح عمل کرنا ہو گا۔ پندرہ منٹ بعد بتایا گیا کہ اسامہ پہنچنے والے ہیں۔ مسلح افراد کے جلو میں ہم باہر کو لپکے۔ فضا میں فائرنگ کی گونج تھی۔ کیمپ کی عمارات کی چھتوں اور قریبی چوٹیوں پر موجود مسلح افراد بھی ہوائی فائرنگ کر رہے تھے۔ یہ اپنے قائد کا استقبال ہی نہیں‘ ایک طرح کا حفاظتی اقدام بھی تھا۔