کینیڈا اور امریکا ایک دوسرے کے اسی طرح ہمسایہ ہیں جس طرح پاکستان اور بھارت۔ امریکا اور کینیڈا کی مشترکہ سرحد کی لمبائی تقریباً 9 ہزار کلومیٹر ہے۔ ان دونوں ہمسایہ ممالک نے ایک دوسرے کے خلاف کبھی جارحیت کا ارتکاب کیا ہے نہ سرحدی خلاف ورزی کی ہے۔ پاکستان کے مشرق میں بھارت ہمارا ہمسایہ ہے۔ پاک بھارت مشرقی مشترکہ سرحد کی لمبائی تقریباً تین ہزار کلومیٹر ہے۔
پاکستان معرضِ عمل میں آیا تو ہمارے سبھی قائدین کی یہی تمنا تھی کہ اب ہم دونوں ممالک، پاکستان اور بھارت، امن و عافیت میں اسی طرح رہیں گے جس طرح دو بھائی تھوڑی سے ناچاقی کے بعد ایک دوسرے سے علیحدہ تو ہو جاتے ہیں لیکن ہمسائیگی ترک کرتے ہیں نہ ایک دوسرے کے حقوق غصب کرتے ہیں۔
اسی امن پسندانہ خواہش کے پس منظر میں بانی پاکستان حضرت قائداعظم محمد علی جناح نے پاکستان بنتے ہی فرمایا تھا: ’’پاکستان اور بھارت اسی طرح امن و محبت سے، ساتھ ساتھ، رہیں گے جس طرح امریکا اور کینیڈا رہ رہے ہیں۔‘‘ افسوس کی بات مگر یہ ہے کہ قائداعظم کے برعکس بھارتی سیاستدانوں نے ہمیشہ پاکستان کا وجود ختم کرنا چاہا۔ واقعہ یہ ہے کہ ہم پاکستانی اپنے ہندوستانی ہمسایہ سے ترکِ تعلق کر سکتے ہیں نہ بھارتیوں کے خلاف ہمہ وقت ہتھیار اٹھائے رکھنا چاہتے ہیں۔ ہم اس بھارت سے بھلا کیسے اور کیونکر نفرت اور عناد رکھ سکتے ہیں جس کی راجدھانی، دلّی، کی یاد میں ہمارے قومی شاعر حضرت علامہ اقبال نے بھی آنسو بہائے تھے:
سرزمیں دلّی کی مسجودِ دلِ غم دیدہ ہے
ذرے ذرے میں لہو اسلاف کا خوابیدہ ہے
پاک اس اجڑے گلستاں کی نہ ہو کیونکر زمیں
خانقاہ عظمت اسلام ہے یہ سرزمیں
سوتے ہیں اس خاک میں خیر الامم کے تاجدار
نظمِ عالم کا رہا جن کی حکومت پر مدار
یہی نہیں بلکہ حضرت علامہ اقبال نے تو بھرتری ہری اور سوامی رام تیرتھ ایسی نامور ہندو شخصیات کو سلامِ عقیدت بھی پیش کیا۔ ان کے کلام میں ہمیں آبِ گنگا کا ذکر بھی پڑھنے کو ملتا ہے۔ مطلب یہ ہے کہ ہمارے فکری اور سیاسی قائدین نے بھارت اور ہندو کی گردن مارنے کا درس کبھی نہ دیا۔ اقبالؔ سے فیضؔ تک یہ سلسلہ بغیر کسی رکاوٹ کے جاری رہا۔ پاکستان میں بھارتی فنکاروں، سیاستدانوں اور دانشوروں کا ہمیشہ محبت و احترام سے سواگت اور استقبال کیا گیا ہے۔
ابھی حال ہی میں لاہور لٹریچر فیسٹول میں معروف بھارتی اداکارہ محترمہ عائشہ سلطانہ بیگم عرف شرمیلا ٹیگور، مدعو تھیں جہاں ہر شخص نے انھیں سرآنکھوں پر بٹھایا۔ پنجاب حکومت نے انھیں غیر معمولی پروٹوکول سے نوازا۔ افسوس کے ساتھ مگر کہنا پڑتا ہے کہ بھارت نے اپنے ہاں ہمارے فنکاروں، سیاستدانوں اور دانشوروں کے ساتھ مناسب سلوک نہ کر کے پوری پاکستانی قوم کو مایوس ہی کیا ہے۔ قائداعظم سے نواز شریف تک ہمارے ہر حکمران نے ہمیشہ بھارت کی طرف تعاون اور محبت کا ہاتھ بڑھایا ہے لیکن نہرو سے نریندر مودی تک ہر بھارتی حکمران نے ہمیشہ پاکستان کے خلاف عناد ہی کا ثبوت فراہم کیا ہے۔ پاکستان، بھارت کو الفت کے پھول بھیجتا ہے اور بھارت کی طرف سے جواب میں پاکستان دشمن جاسوس بھیجے جاتے ہیں۔ آئے روز پاکستان کے خلاف بھارتی الزامات بھی قابلِ مذمت ہیں۔ یہ سلسلہ رکنے کا نام ہی نہیں لے رہا۔
پٹھانکوٹ ائیربیس پر حملہ بھی اسی الزام کے ذیل میں آتا ہے۔ رواں سال کے پہلے دن ہی بھارت نے تہمت لگا دی کہ پاکستان کے بعض ’’غیر ریاستی عناصر‘‘ نے پٹھانکوٹ فوجی ائیربیس پر حملہ کر دیا ہے۔ اس مبینہ حملہ ڈرامہ میں کُل چودہ افراد کے مارے جانے کی اطلاعات سامنے لائی گئیں۔ جناب نواز شریف کی حکومت نے نہ صرف اس حملے کی مذمت کی بلکہ بھارتی اطمینان کے لیے پاکستان میں (نا معلوم افراد کے خلاف) مقدمہ بھی درج کیا۔ میاں صاحب کی حکومت کو اس سلسلے میں اپنے ملک کے اندر ہی سے تنقید کا سامنا بھی کرنا پڑا لیکن وہ یہ کام بھی کر گزرے تا کہ بھارت کی ہر حجت کا جواب دیا جا سکے۔ مارچ 2016ء کے آخری ہفتے پانچ افراد پر مشتمل پاکستان کی ایک ’’جے آئی ٹی‘‘ کو تحقیقات کے لیے پٹھانکوٹ بھی بھیجا گیا۔
بھارتی اسٹیبلشمنٹ نے مگر پاکستان کی اس جوائنٹ انویسٹی گیشن ٹیم سے مطلوبہ تعاون کرنے کے بجائے اس کی راہ میں بار بار رکاوٹیں کھڑی کیں۔ بھارت نے اس ٹیم کو نہ تو پٹھانکوٹ کے مبینہ حملے کے عینی شاہدین سے ملنے دیا اور نہ ہی اس اہم ترین سوال کا جواب دیا کہ پٹھانکوٹ ائیربیس پر حملے کی شام ہوائی اڈے کے ارد گرد چوبیس کلومیٹر کو محیط لائن کے اکثر برقی بلب خراب کیوں تھے؟ بھارت نے دعویٰ کیا تھا کہ ائیربیس پر حملہ کرنے والے مبینہ چار پاکستانی افراد کے کپڑے ان کے قبضے میں ہیں لیکن بھارت نے پاکستان کی ’’جے آئی ٹی‘‘ کو یہ کپڑے حوالے کرنے، حتیٰ کہ دکھانے سے بھی انکار کر دیا۔
آخر کیوں؟ ان ہتھکنڈوں سے اس تاثر کو تقویت ملی ہے کہ پٹھانکوٹ ائیربیس حملہ خود بھارت کا خونیں ڈرامہ تھا تا کہ پاکستان کو عالمی سطح پر بدنام کیا جا سکے۔ اب جب کہ بھارت کے اندر جا کر اور جائے وقوعہ پر پاکستانی تحقیقاتی ٹیم نے سوالات اٹھائے تو بھارتی اسٹیبلشمنٹ نے راہِ فرار اختیار کرنے میں ہی عافیت سمجھی ہے۔ اسی دوران پٹھانکوٹ حملے کی تحقیق کرنے والے بھارتی ادارے، این آئی اے، کے ایک سینئر مسلمان افسر، تنزیل احمد، کو (دو اور تین اپریل 2016ء کی درمیانی شب) بھارت میں پُراسرار طور پر قتل کر دیا گیا۔
اہلِ خبر کا کہنا ہے کہ تنزیل احمد کو بھارتی ایجنسیوں ہی نے اس لیے قتل کر دیا کہ وہ تحقیقات کے بعد اس نتیجے پر تقریباً پہنچ گئے تھے کہ پٹھانکوٹ حملہ خود بھارتی ڈرامہ تھا۔ اور اس سے پہلے کہ یہ راز افشا ہوتا، تنزیل احمد ہی کو راستے سے ہٹا دیا گیا۔ طے شدہ شرائط کے مطابق، تنزیل احمد کو پاکستانی ’’جے آئی ٹی‘‘ سے اپنے تحقیقاتی نتائج شیئر کرنا تھے کہ انھیں مار ڈالا گیا۔ قتل کے دس روز بعد، بارہ اپریل 2016ء کو، تنزیل احمد کے ’’دو قاتلوں‘‘ کو بھارتی پولیس نے گرفتار کرنے کا ایک اور ڈرامہ رچایا اور کہا گیا کہ تنزیل کا قتل دراصل خاندانی جھگڑے کا شاخسانہ تھا۔
پاکستان خود بھی برسہا برس سے دہشت گردی کا شکار بنتا آ رہا ہے۔ دہشت گردوں نے گزشتہ چند برسوں کے پاکستان کو نہ صرف سیکڑوں ارب ڈالر کا مالی نقصان پہنچایا ہے بلکہ ایک لاکھ کے قریب پاکستانی عوام اور سیکیورٹی فورسز کے جوان بھی شہید کر ڈالے ہیں۔ اس پس منظر میں پاکستان ہر گز نہیں چاہتا کہ بھارت بھی دہشت گردوں کا ہدف بنے؛ چنانچہ جب ہمارے مشیرِ قومی سلامتی، لیفٹیننٹ جنرل (ر) ناصر جنجوعہ، کی طرف سے اپنے بھارتی ہم منصب، اجیت کمار ڈوول، کو دہشت گردوں کے بارے میں حساس نوعیت کی اطلاعات فراہم کی جاتی ہیں تو اس اقدام کا یہی مطلب ہے کہ پاکستان ہر سطح پر بھارت سے عملی تعاون کرنا چاہتا ہے لیکن مقامِ صد افسوس ہے کہ بھارتی ڈوول کی طرف سے پاکستان کو مسلسل الزامات اور پاکستان دشمن بھارتی ایجنٹ دیے جا رہے ہیں۔ پاکستان کے خلاف بھارتی سازشوں کا یہ جال بنگلہ دیش کے ساتھ ساتھ افغانستان میں بھی پھیلایا جا چکا ہے۔
افغانستان میں پاکستانی سرحد کے ساتھ ملحقہ افغانی شہروں اور قصبات میں ڈیڑھ درجن کے قریب بروئے کار بھارتی قونصل خانے اس امر کا ثبوت ہیں۔ یہ اطلاعات بھی سامنے آ رہی ہیں کہ بھارتی ایجنسیاں افغانستان میں ’’داعش‘‘ کو مالی و اسلحی امداد فراہم کر رہی ہیں۔ یہ خبر افغان پارلیمنٹ کے ایک سینئر رکن نے افشا کی ہے۔ بھارتی منصوبہ یہ ہے کہ ان افغان داعشیوں کو افغان طالبان کے ساتھ ساتھ پاکستان کے خلاف بھی استعمال کیا جائے۔
یہ بھی خبر ہے کہ بھارت نے پاکستان سے ملحق ایک دوسرے اسلامی ملک میں بھی اپنے قونصل خانوں کا جال پھیلا دیا ہے۔ ہمیں یقین ہے کہ یہ اسلامی برادر ملک قطعی نہ چاہے گا کہ اس کی سرزمین پاکستان کے خلاف استعمال ہو سکے۔ کیا پاکستان کے منتخب حکمران اور عسکری قیادت ان شرارتوں کا مقابلہ کرنے کے لیے مطلوبہ تیاری کر چکے ہیں؟