منتخب کردہ کالم

ہم سب کا پاکستان (حرف ناز) نازیہ مصطفیٰ

پاکستان ایک عرصہ سے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں اُن سفاک دہشت گردوں سے نبرد آزما ہے، جو دشمن کی شہہ اور مدد سے پاکستان کو نقصان پہنچانے کے مذموم خواب دیکھ رہے ہیں، لیکن پاکستان اپنی بہادر قوم اور جری سپاہ کی وجہ سے دہشت گردوں کے مذموم عزائم کو خاک میں ملانے میں کامیاب رہا ہے۔ پاکستان کو ترنوالہ سمجھنے والوں پر اس طویل اور صبر آزما جنگ میں یہ راز کھلا کہ جس قوم کو وہ ترنوالہ سمجھے تھے، وہ قوم تو لوہے کا وہ چنا ثابت ہوئی ہے، جسے چبایا جاسکتا ہے نہ ہی نگلا جاسکتا ہے۔ کچھ عرصہ پہلے دشمن سمجھتا کہ وہ پاکستان کو تاریخ کا حصہ بنانے اور دنیا کے نقشے سے مٹانے میں کامیاب ہوجائے گا۔ اُس وقت پاکستان کے تحفظ اور بقاء کی جنگ ملک کے گلی کوچوں اور چوراہوں میں لڑی جارہی تھی۔ ملک کا کوئی کونہ دہشت گردوںکی دست برد، بم دھماکوں، خودکش حملوں اور ٹارگٹ کلنگ سے خالی نہ تھا۔ حد تو یہ ہے کہ یوم پاکستان جیسی سالانہ تقاریب کا سلسلہ بھی متروک ہوچکا تھا، افواج پاکستان کی سالانہ پریڈ تو گویا لوگ بھول ہی چکے تھے،لیکن جس طرح قوموں اورملکوں کی زندگی میں ایک وقت ایسا بھی آتا ہے جب وطن اپنے بیٹوں سے تن من دھن کی قربانی مانگتا ہے۔اگر ایسے موقع کوئی پیٹھ دکھا جائے تو پھر ساری عمر کسی کو منہ دکھانے کے قابل نہیں رہتا۔یہی وقت ہوتا ہے جب انفرادیت کی بجائے بحیثیت مجموعی سوچنا ہوتا ہے اور یہی وقت ہوتا ہے جب جزو کی بجائے کُل کی بات کرنا ہوتی ہے۔جو قومیں اس وقت کو پہچان لیتی ہیں، وہ ہمیشہ زندہ رہتی ہیں اور جن قوموں سے یہ وقت پہچاننے میں ذرا سی بھول چوک ہوجائے، وہ اپنا راستہ کھوٹا کرکے تاریخ کے گم شدہ اوراق کا حصہ بن جاتی ہیں۔ اس موقع پر دشمن کی امیدوں کے برعکس جس طرح قوم نے1965ء میں وقت کو پہچان کر ڈٹ جانے کا فیصلہ کیا اور قوم کا ہر فرد دشمن کے ناپاک ارادوں کے سامنے سیسہ پلائی دیوار بن گیا، وہی جذبہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں بھی دکھائی دیا۔پاکستانی قوم پورے جذبے کے ساتھ ملک دشمن قوتوں کے خلاف اُٹھ کھڑی ہوئی۔
دشمن نصف صدی پہلے لڑی جانے والی جنگ سے بھی سبق نہ سیکھ سکا، جب جنگ عظیم دوم کے بعد چھمب اور چونڈہ میں ٹینکوں کی سب سے بڑی لڑائی لڑی گئی تھی۔ اُس لڑائی میں پاکستانی فوج کے شیر دل جوانوں نے سینکڑوں بھارتی ٹینک تباہ کرکے اپنی پیشہ ورانہ برتری کی دھاک بٹھادی تھی۔بھارتی فضائیہ کے سربراہ ایئر مارشل ریٹائرڈپی سی لال نے اپنی یادداشتوں میں لکھا ہے کہ ”1965ء کی جنگ میں بھارتی بری فوج اور بھارتی فضائیہ کے درمیان کوارڈینیشن کی کمی کی واضح طور پر محسوس کی گئی۔ ایک جانب بھارتی بری فوج نے بھارتی فضائیہ کو اپنے وار پلان سے آگاہ ہی نہ کیا تو دوسری جانب بھارتی وزارت دفاع اور بھارتی بری فوج نے جو ”وار پلان‘‘ تیار کیا تھا، اس میں بھارتی فضائیہ کا کوئی کردارسرے سے رکھا ہی نہ گیا تھا۔ بھارتی بری فوج کا ادارہ جاتی برتری کا یہی خناس اُسے لے ڈوبا‘‘۔دوسری جانب پاکستانی بری فوج اور پاک فضائیہ کے مثالی کوارڈینیشن اور جوابی جنگی حکمت عملی نے بھارت کو ناکوں چنے چبوادیے تھے۔پاک فضائیہ کے ہونہار سپوت ایم ایم عالم نے سیسنا جیسے فرسودہ جنگی طیارے میں بیٹھ کر بھی شجاعت اور جوانمردی کی ایسی داستان رقم کی جورہتی دنیا تک یاد رکھی جائے گی۔یوں پاکستانی جوانوں نے انتہائی بے سرو سامانی کے عالم میں بھی جرات و بہادری کی وہ درخشاں مثالیں قائم کیں جو تاریخ میں سنہری حروف سے لکھے جانے کے قابل ہیں۔دراصل بھارتی فوج کا خیال تھا کہ وہ راتوں رات پاکستان کے اہم علاقوں
پر قبضہ کرلے گی ، لیکن یہ شاید اُس کے وہم و گمان میں بھی نہ تھا کہ شیر سویا ہوا ہو تو بھی شیر ہی ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جونہی اس شیر کو پتہ چلا کہ اس کی کچھار پر حملہ کردیا گیا ہے تو فوج تو فوج، عام شہری بھی سروں پر کفن باندھ کر دشمن سے بھڑ گئے۔ جسموں سے بم باندھ کر ٹینک اڑانے کے ایسے ناقابل فراموش واقعات نے جنم لیا جو حربی تاریخ نے اس سے پہلے کبھی نہ دیکھے تھے۔ ہندو بنیے نے مذموم عزائم کے ساتھ پاک دھرتی کا رُخ کیا تو اسے اندازہ نہ تھا کہ پاکستانی سپوت اپنے وطن کی طرف اٹھنے والی ہر میلی آنکھ کو پھوڑنے کی پوری صلاحیت رکھتے ہیں۔ بھارت کو معلوم نہ تھا کہ پاکستانی اپنی جان وار دیتے ہیں لیکن وطن پر آنچ نہیں آنے دیتے۔طاقت کے نشے میں چور بھارت جو پاکستان کو دنیا کے نقشے سے مٹانے کے لئے آیا تھا ، خود ناکامی اور خجالت کا بد نما داغ اپنے سینے پر سجا کر واپس لوٹ گیا۔رات کی تاریکی میں بزدلوں کی طرح حملہ کرتے وقت بھارت بھول گیا تھا کہ جو زمین شہداء کے لہو سے سیراب ہوتی ہے وہ بڑی زرخیز اور بڑی شاداب ہوتی ہے۔
پاکستان کے خلاف کھلی جنگوں میں ہزیمت اٹھانے کے بعد بھارت نے چھپ کر وار کرنا شروع کردیے اور دہشت گردی کے ذریعے پاکستان کو کمزور کرنے کی سازش شروع کردی، لیکن سانحہ اے پی ایس کے بعد یہ شیر قوم 65ء کی طرح پھر بیدار ہوگئی۔دہشت گردوں کے خلاف پہلے آپریشن ضرب عضب شروع کیا گیا ، جس کے بعد قومی ایکشن پلان کوبروئے کار لایا گیا۔جس کے مثبت نتائج نکلے تو یوم پاکستان کی
سالانہ پریڈ کا سلسلہ بھی شروع کردیا گیا۔دہشت گردی کے خلاف جنگ شروع ہونے کے بعد گزشتہ روز ملک بھر میں 76 واں یوم پاکستان ملی جوش و جذبے سے منایا گیا، اسلام آباد سمیت ملک کے تمام چھوٹے بڑے شہروں میں تقریبات کا انعقاد کیا گیا۔یوم پاکستان پر تمام سرکاری ونجی عمارات پر قومی پرچم اس طرح لہرائے گئے کہ سارا ملک سبز ہلالی پرچموں میں نہاگیا۔ وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں مسلح افواج کی جانب سے شاندار مشترکہ پریڈ کا مظاہرہ کیا گیا، لیکن گزشتہ سال کی پریڈ کے برعکس اس سال پریڈ کی خاص بات یہ تھی کہ تاریخ میں پہلی مرتبہ پاکستان کی تینوں مسلح افواج کے ساتھ ساتھ چین، ترکی اور سعودی عرب کے فوجی دستوں نے بھی پریڈ میں حصہ لیا۔اسلام آباد میں شکرپڑیاں کے گراؤنڈ میں ہونے والی شاندار پریڈ میں بری، بحری اور فضائی افواج کے ساتھ ساتھ ایف سی کے جوانوں، ایس ایس جی کمانڈوز، لائٹ انفنٹری، کمانڈو بٹالین بھی پریڈ میں شامل تھے۔ آرمی ایوی ایشن کے مختلف ہیلی کاپٹرز، پاک فضائیہ کی طرف سے جے ایف 17، ایف 16، میراج اور ایف سیون جیسے لڑاکا طیاروں نے شاندار فلائی پاسٹ کرکے شرکاء کا لہو گرمایا۔ بیلسٹک اور کروز میزائل کی مکمل رینج اور پاکستان میں بنائے جانے والے جدید ہتھیاروں کی نمائش بھی کی گئی۔
قارئین کرام!!اگرچہ جنگیں اسلحہ اور تعداد کی برتری پر نہیں جیتی جاتیں،بلکہ یہ کسی ملک کے جوانوں کا جذبہ حب الوطنی، شجاعت، دلیری اور بہادری ہی ہوتی ہے جو انہیں ہر طرح کے محاذ پر سرخرو کرتی ہے۔ یوم پاکستان کی مرکزی تقریب اور پریڈ کے موقع پر صرف اسلحہ ، ہتھیار اور گولہ و بارود دیکھ کر ہی پاکستان کے ناقابل تسخیر ہونے کا پتہ نہیں چل رہا تھا بلکہ پریس گیلری میں بیٹھے اس کالم نگار نے پریڈ میں شریک فوجیوں سے لے کر ہر فرد کے چہرے کوجذبہ ایمانی سے تمتماتے دیکھا تو یقین ہوگیا کہ پاکستان کو کوئی شکست نہیں دے سکتا، کیونکہ اب ہم سب ایک ہیں اور یہ ہم سب کا پاکستان ہے۔