منتخب کردہ کالم

ہم محسن کش لوگ ہیں!: راؤ منظر حیات

ورتھ کنڈرک(Worth Condrick)امریکی حکومت کی طرف سے پاکستان بھیجاگیا۔وہ امریکی سروے ڈیپارٹمنٹ کاملازم تھا۔1954ء میں پاکستان کے ساحلی علاقوں کے متعلق جامع تحقیق کے لیے بلوایاگیاتھا۔ورتھ کراچی سے لے کرسینکڑوں میل لمبی سمندری ساحلی پٹی پرسفرکرتا رہا۔ نوٹس لکھتااورتصاویر کھینچتا رہا۔ سمندر کے ساتھ ساتھ سڑکوں کانہ ہونا،عمیق ریگستان اوردشوار سفر کے باوجودتندہی سے کام کرتارہا۔ورتھ سمندراوراس سے منسلک علاقوں کی اہمیت سے بخوبی واقف تھا۔اندازہ تھاکہ مناسب جگہ پر بندرگاہ پورے ملک کی قسمت تبدیل کرسکتی ہے۔1954ء کا پاکستان آج سے بہت مختلف تھا۔ دہشتگردی،شدت پسندی اورکرپشن سے دور،ایک لبرل مسلمان ملک، جو پوری دنیاکے لیے مثال بن چکاتھا۔

کنڈرک سروے کرتاہواگوادرپہنچاتوششدررہ گیا۔ یقین نہ آیاکہ دنیامیں ایک ایساساحلی علاقہ بھی ہوسکتاہے جو قدرت کے طاقتورہاتھوں سے بنی بنائی بندرگاہ ہے۔صرف بندرگاہ نہیں،گہرے پانیوں والی بندرگاہ،جہاں ہرجسامت کے بحری جہازبغیرکسی دشواری سے آجاسکتے تھے۔کنڈرک کو معلوم ہوچکاتھاکہ یہ گزرگاہ ملک کے لیے بہت سودمندہوسکتی ہے۔مشکل یہ تھی کہ گوادرسلطنت مسقط وعمان کاٹکڑا تھا۔

کنڈرک نے امریکی اورپاکستانی حکومت کوبتایاکہ گوادر دنیاکی بہترین بندرگاہ بن سکتی ہے۔ ہماری حکومت کے لیے ایک نئے مسئلہ کاآغازہوا۔گوادرکوپاکستان کے لیے کس طرح حاصل کیاجائے۔حکومت نے مسقط سے باضابطہ درخواست کی کہ گوادر پاکستان کودے دیا جائے۔ یہ علاقہ ڈیڑھ سو برس سے مسقط کے پاس تھا۔ چاربرس تک مذاکرات ہوتے رہے مگرکوئی فیصلہ نہ ہوسکا۔اس اثناء میں فیروزخان نون وزیراعظم بن گئے۔ 1954ء سے لے کر 1957ء تک گوادر کے حوالے سے مذاکرات بے نتیجہ چل رہے تھے۔ فیروز خان نون کے وزیراعظم بنتے ہی ہر چیز تبدیل ہوگئی۔

اکثر لوگوں کوشائداب یادہی نہیں ہوگاکہ اس نام کا ایک وزیراعظم رہاہے۔مگرفیروز خان نون ایک غیرمعمولی ذہانت رکھنے والاسیاستدان تھا۔ سرگودھاسے تعلق رکھنے والاایک وسیع القلب زمیندار۔ سیاست کے میدان کا ایک غیرمعمولی کھلاڑی۔ آکسفورڈ یونیورسٹی سے فارغ التحصیل صوبائی اسمبلی کی نشست تو اس کی جیب میں رہتی تھی۔

اس کی قابلیت دیکھ کرتقسیم سے پہلے حکومت نے اسے برطانیہ میں سفیرمتعین کردیاتھا۔برطانوی حکومت نے اسکو “سر” کا خطاب دیا۔برطانوی پارلیمنٹ اورچرچل پراسکااثر غیرمعمولی تھا۔1945ء میں فیروزخان نے قائداعظم کے حکم پرمسلم لیگ میں شمولیت اختیارکرلی۔1957ء میں سکندرمرزانے اسے وزیراعظم بنادیا۔گوادراورفیروزخان نون کانام ایک دوسرے سے جڑاہواہے۔صرف چھ ماہ کے مذاکرات کرنے کے بعدمسقط کے بادشاہ کوقائل کرلیاکہ پوراعلاقہ پاکستان کو فروخت کردے۔ اب دوسرے مسئلے کاآغاز ہواکہ سلطان کو اس پورے علاقے کی کیاقیمت دی جائے۔قیمت کاتعین تین ملین ڈالر کیا گیا۔

فیروزخان نون نہیں چاہتاتھاکہ پاکستانی خزانہ پرکسی قسم کا بوجھ پڑے۔ اس نے سرآغاخان سے مالی مددکی درخواست کی۔ سرآغا خان نے رقم فراہم کی اورمسقط نے یہ تمام علاقہ پاکستان کے حوالے کردیا۔بغیرکسی مسئلہ کے پاکستان کے وزیراعظم نے یہ اہم ترین علاقہ اپنے ملک میں شامل کرلیا۔اس موقعہ پروزیراعظم نون نے بے مثال تقریر کی۔ اسکالب لباب تھاکہ دنیاکاہرمسئلہ ایسے مذاکرات سے حل ہوسکتاہے جس میں تمام فریقین غیرجذباتیت اورتعصب کے بغیرمل بیٹھنے کے لیے تیار ہوں۔ اس زمانے میں ہمارے پاس بین الاقوامی ساکھ والے متعدد سیاستدان تھے۔

ہندوستان سے ہمارے تعلقات ٹھیک نہیں تھے مگردونوں ملکوں کے وزراء اعظم اور وفودہربات پرمسلسل مذاکرات کرتے رہتے تھے۔دونوں ریاستوں کے وزراء اعظم ایک دوسرے کے ملک جاکرکھلے دل سے بات کرنے کی کوشش کرتے تھے۔آج کاجذباتی ملک نہیں تھاجس میں ہمارامنتخب وزیراعظم ہندوستان جائے،تواس کی حب الوطنی کے متعلق سوالات کھڑے ہو جاتے ہیں۔اکیسویں صدی کاپاکستان جذباتیت میں ڈوبا ہواایک ایساجزیرہ ہے جس میں مسائل کودلیل پرحل کرنے کی کوئی گنجائش نہیں۔ہمسایہ ملک سے اگرآپ دوستی کی بات کریں، تو آپکو غدار بنادیا جاتاہے۔آپ ہمسایہ ملک کوجتنی گالیاں دیں،آپکی حب الوطنی اتنی ہی نکھرتی جائے گی۔

فیروزخان نون ہندوستان سے تمام سرحدی تنازعات بات چیت سے حل کرناچاہتے تھے۔گوادرحاصل کرنے کے بعدجب پاکستانی وزیراعظم مذاکرات کے لیے دہلی گیا تو جواہر لال نہروگوادرکے موضوع پرباربارہمارے وزیراعظم سے دریافت کرتارہاکہ آپ نے یہ سب کچھ کیسے حاصل کیا۔ آپ ہمارے اولین سیاستدانوں کاقد کاٹھ اورمدبرانہ رویہ ملاحظہ کریں۔آج کے سیاستدانوں سے موازنہ کریں تو صرف اورصرف تکلیف ہوتی ہے۔ جنات اوربونوں کاکوئی مقابلہ نہیں ہوسکتا۔اپنی خودنوشت میں فیروزخان نے تحریر کیا ہے۔ گوادر کا معاوضہ ادا کرنا پڑا لیکن جہاں ملک کی حفاظت اور وقار کا مسئلہ ہووہاں پیسہ کوئی حقیقت نہیں رکھتا۔ گوادر جب تک ایک غیرملک کے ہاتھ میں تھاتومجھے یوں محسوس ہوتاتھاکہ گویاہم ایک ایسے مکان میں رہتے ہیں جسکاعقبی کمرہ کسی اجنبی کے تصرف میں ہے اوریہ اجنبی کسی وقت بھی اسے پاکستان دشمن طاقت کے ہاتھ فروخت کر سکتا ہے۔

دشمن طاقت اس سودے کے عوض بڑی سے بڑی رقم اداکرسکتی ہے”۔ فیروزخان نون صرف ایک برس وزیراعظم رہ سکے۔ ذہانت اوراہلیت والاانسان نظام کے لیے خطرہ بن چکا تھا۔ اس محب الوطن شخص کے ساتھ بالکل وہی ہوا،جسکا ایک لائق شخص مستحق ہوسکتاہے۔سکندرمرزاگورنرجنرل اس وقت ایوب خان کے ہاتھوں میں کھیل رہے تھے۔اس تمام ٹولے کویہ فکرپڑگئی کہ اگرفیروزخان نون ملک کے تمام سرحدی مسائل حل کرنے میں کامیاب ہوگیاتووہ ایک انتہائی طاقتور سیاستدان بن کراُبھرے گا۔ وہ درباری سازشوں کا شکار ہو گیا۔سکندرمرزااورجنرل ایوب نے اسے برخاست کروادیا ملک کوایک ایسی ڈگرپرڈال دیاجس میں مسائل کو حل کرنے کے لیے صرف اور صرف طاقت کااستعمال جائز سمجھا جاتا ہے۔

جس سیاستدان، سائنسدان، اہل فن یااہل علم نے ملک کی خدمت کرنے کی کوشش کی، اسکو بھاری قیمت اداکرنی پڑی۔فیروزخان نون کو پاکستان میں گوادرشامل کرنے کی بھرپورسزادی گئی۔جنرل ایوب نے پاکستان کو1965ء کی جنگ کاتحفہ دیا،جس نے ہماری ملکی معیشت کے تیزچلنے والے پہیے کوناقابل یقین حدتک برباد کر ڈالا۔ ذوالفقار بھٹو تمام ترکوتاہیوں کے باوجود اس ملک کو ایٹمی پروگرام دینے میں کامیاب ہوگیا۔جس ذہانت سے ڈاکٹرعبدالقدیرخان کو پاکستان لاکرایٹمی پروگرام شروع کیا گیا،پوری دنیامیں اس کی کوئی مثال نہیں ملتی۔اس جیسی اہلیت کاآدمی مذاکرات کے ذریعہ ہندوستان سے وہ کچھ لے آیا، جسکاتصوربھی شکست خورداملک نہیں کرسکتا۔شملہ معائدہ اورمغربی پاکستان کی سالمیت کوقائم رکھنا بھٹوکا کرشماتی کام تھا۔مگربھٹوکواپنے دونوں ملک دوست کارناموں کی مکمل سزادی گئی۔

اس کے خاندان کو برباد کردیا گیا۔فیروزخان نون خوش قسمت تھاکہ اسے سزائے موت نہیں ہوئی۔جنرل ضیاء نے سیاچین کاآدھاحصہ گنوادیا۔وہ اس درجہ بے خبر صدر تھا کہ سیاچن پرقبضہ کے متعلق آخری وقت تک لاعلم رہا۔اس کے تاریخی فقرے کہ ایسے علاقے جس پر گھاس تک نہیں اُگتی، وہاں ہندوستان کے قبضے سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ ضیاء الحق نے ہماری پوری ریاست اور سیاست کوتہہ وبالا کرڈالا۔ہروہ حرکت کی جس سے ملک ایک مخصوص فکرکی قیدمیں آجائے۔ ضیاء الحق اس سازش میں کامیاب رہا۔آج کی اکثرخرابیوں کاتعلق اس دورسے کہیں نہ کہیں جڑاہواہے۔ضیاء الحق کو اپنے ظلم کی کوئی دنیاوی سزا نہیں ملی۔وہ سرکاری اعزازسے دفن ہوا۔ نواز شریف، ہندوستان کے وزیراعظم کولاہورتک لے آئے۔

ایک بار بھرپورامیدپیداہوئی کہ دونوں ملک تعصب اورجذباتیت کو علیحدہ رکھ کرمسائل حل کرسکتے ہیں۔مگرجنرل مشرف نے کارگل شروع کردیا۔ایک ایسی جنگ جس میں ہمارے ہزاروں لوگ شہیدہوئے۔ نواز شریف کومسائل حل کرنے کی بھرپورسزادی گئی۔جیل اور اس کے بعدجلاوطنی کا سامنا کرنا پڑا۔کارگل کی جنگ اورشکست پر مشرف سے کوئی پوچھ گچھ نہیں ہوئی۔مجموعی طورپرجائزہ لیجیے۔توایسے لگتاہے کہ جس سیاستدان یااہل علم نے ملک کی سربلندی کے لیے کام کیا۔

مسائل کوحل کرنے کی مدبرانہ کوشش کی۔ ہمارے ملکی نظام نے اس شخص کوبربادکرکے رکھ ڈالا۔ آج گوادر کا ذکر ہر جگہ، ہرموقع،ہرتقریراورہرتحریرمیں مسلسل کیا جاتاہے۔مگرکوئی پاکستان کے وزیراعظم فیروزخان نون کااحسان تسلیم کرنے کے لیے تیارنہیں۔میں نے آج تک انکانام تک نہیں سنا۔کسی نے ذکرکرنابھی ضروری نہیں سمجھا۔بحیثیت قوم ہم محسن کش لوگ ہیں۔ماضی کا مسلسل تجربہ تویہی ہے۔نظام صرف ملک سے محبت کرنے والوں کوسزادیتاہے۔سزابھی انتہائی بھیانک اورکڑی!