ہم نے دہشت گردوں کی کمر توڑ کر رکھ دی ہے….خالد مسعود خان
”ہمیں اس بات کا اعتراف کرتے ہوئے خوشی محسوس ہو رہی ہے کہ آج ہم جس سر زمین پر ایک دوسرے سے مل رہے ہیں روایتی طور پر ”کارنا‘‘ (CAURNA) لوگوں کی ملکیت ہے اور ہم ان کی اس ملک سے روحانی تعلق کا احترام کرتے ہیں۔ اور ہم یہ بھی تسلیم کرتے ہیں کہ کارنا لوگ ایڈیلیڈ ریجن کے حقیقی وارث ہیں اور ان کے ثقافتی اور تہذیبی اعتقادات ہمارے لیے آج بھی اسی طرح محترم ہیں‘ جیسا کہ کارنا لوگوں کے لیے ہیں۔‘‘
ایڈیلیڈ میں ہونے والی ہر تقریب سے پہلے بولے جانے والے سرکاری جاری شدہ Statement of Acknowledgment کا اُردو ترجمہ ہے ‘جو وہاں پر قابض گورے مفتوحہ کارنا لوگوں کے اس سر زمین کا حقیقی وارث ہونے کے اعتراف کرتے ہوئے بولتے ہیں۔ کارنا آسٹریلیا کے اس علاقے کے Aborigines(جنمی یا حقیقی باشندے) کو کہتے ہیں۔ قریب دو سو سال پہلے جب برطانیہ نے اپنے مجرموں کو مشقت کی غرض سے آسٹریلیا بھیجنا شروع کیا ‘تو اس وقت آسٹریلیا ”ایبوریجنز‘‘ کی ملکیت تھا۔ امریکہ کے ”ریڈ انڈینز‘‘ کی طرح۔ آسٹریلیا کے ایبوریجنز کی کہانی بھی امریکہ کے ریڈانڈینز سے مختلف نہیں۔ ان پر ابتلا کے چار دَور گزرے ہیں۔
پہلا دَور اُن کے قتل عام کا تھا۔ اس دَور میں ان کا بے تحاشا قتل عام ہوا۔ بالکل ویسا ہی‘ جیسا امریکہ میں ریڈانڈینز کا ہوا تھا۔ اس کی تفصیل میں دو چار سال پہلے ”شاہراہ ِگریہ‘‘ کے نام سے دو کالموں میں بیان کر چاک ہوں۔ یہ تفصیل اتنی دردناک ہے کہ لکھتے ہوئے کئی بار میری بھی آنکھیں بھیگ گئیں ۔ لاکھوں مقامی باشندوں کا قتل‘ ان کو ایک علاقے سے کئی ہزار میل دُور دوسری جگہ کی علاقہ بدری‘ اس مصائب سے بھرے ہوئے سفر میں ان کو چیچک کے جراثیموں والے کمبلوں‘ سردی‘ بھوک اور سفر کی تکالیف کے باعث اتنی اموات کا سامنا کرنا پڑا کہ تاریخ نے ہزاروں میل کی‘ اس ہجرت کو Trail Of Tears کا نام دیا۔ آسٹریلیا کے ایبوریجنز کو بھی اسی قسم کی صورتحال در پیش رہی۔
پہلے پہل ان کا قتل عام کیا گیا۔ دوسرا دَور ان کو غلام بنایا گیا اور ان سے بیگار لی گئی ‘جو کئی عشروں پر محیط تھی‘ پھر ان کو ”انسان‘‘ بنانے کی غرض سے عیسائی کرنے کا آغاز کر دیا گیا اور انہیں جانوروں کی طرح ہانک کر چند مخصوص علاقوں میں قید کر دیا گیا اور ان سے غلامی کے ساتھ ساتھ مذہب کی زبردستی تبدیلی کا عمل شروع کر دیا گیا‘ پھر عشروں کی اس محنت کے بعد تسلیم کیا گیا کہ یہ جاہل ٹھیک نہیں ہو سکتے‘ لہٰذا اب یہ کیا جائے کہ ان کے بچوں کو ان سے علیحدہ کر کے گورے عیسائیوں کے سپرد کر دیا جائے‘ تا کہ ان کی بچپن سے ہی مہذب قسم کی تربیت کی جائے اور انہیں تہذیب یافتہ انسان بنایا جا سکے۔ ماں باپ سے زبردستی علیحدہ کے گئے‘ ان بچوں کو Stolen Generation یعنی چوری شدہ نسل کا نام دیا گیا۔ یہ بچے ایک ایسے تہذیبی المیے کی تصویر ہیں کہ اس پر جتنا ماتم کیا جائے ‘کم ہے۔ یہ بچے ذہنی طور پر اتنے منتشر ہیں کہ خود اس نظریے کے خالق بھی ‘اس عمل پر ماتم کناں نظر آتے ہیں۔ ایسے کارنا بچے دھوبی کے کتے کی مانند‘ نہ گھر کے رہے اور نہ گھاٹ کے۔ ان کی جوان ہونے والی لڑکیوں سے گوروں نے شادیاں کر لیں ‘مگر ان کے جوان ہونے والے لڑکوں سے گوریوں نے شادی سے انکار کر دیا۔ ان لڑکوں کو لوٹ کر پھر کارنا لوگوں میں شادیاں کرنا پڑیں اور بعض کیسز میں بعد میں پتا چلا کہ لڑکے کی اس کی بہن سے شادی ہو گئی ہے۔ غرض اس تجربے نے کارنا لوگوں کی بربادی میں آخری کیل ٹھونک دیا۔ دو سو سالہ ان تمام تجربات کے باوجود کارنا لوگ آج بھی آسٹریلیا کے معاشرے کا حصہ نہیں بن پائے۔ کارنا لوگ تو صرف ایڈیلیڈ کے علاقے سے تعلق رکھتے ہیں۔ پورے آسٹریلیا کے آبائی باشندے ‘یعنی ایبوریجنز اجتماعی طور پر اسی حالت ِزار کا نمونہ ہیں ‘جو ایڈیلیڈ میں کارنا کی حالت ہے۔
کسی کے پاس مردم شماری کے صحیح اعداد و شمار تو موجود نہیں‘ لیکن ایک اندازے کے مطابق جب گوروں نے آسٹریلیا کی سر زمین پر قدم رکھا‘ تب یہاں ایبوریجنز کی تعداد پانچ لاکھ کے لگ بھگ تھی۔ انسانی نسل میں اضافے کی شرح کا تخمینہ یوں ہے کہ قریباً تیس سال میں انسانی آبادی دو گنا ہو جاتی ہے (مغرب میں مسلسل کم ہوتی ہوئی شرح ِپیدائش کو ایک طرف رکھتے ہوئے‘ تعلیم سے محروم ایبوریجنز کی سماجی ساخت کو سامنے رکھیں‘ تو شاید آبادی میں اضافے کی شرح اس سے بھی زیادہ ہو) اس حساب سے دو سو سال بعد آج ایبوریجنز کی آبادی کم از کم چونسٹھ گنا ہو جانی چاہئے تھی۔ ممکن ہے‘ آپ کے حساب سے یہ چھ گنا ہونی چاہئے‘ مگر ایسا نہیں۔ پہلے تیس سال بعد پانچ لاکھ کی آبادی ‘دس لاکھ‘ ساٹھ سال بعد دس لاکھ‘ دو گنا ہو کر بیس لاکھ۔ نوے سال بعد بیس لاکھ‘ دو گنا ہو کر چالیس لاکھ۔ اگلے تیس سال بعد چالیس لاکھ کی آبادی‘ اسی لاکھ‘ ایک سو پچاس سال بعد ایک کروڑ ساٹھ لاکھ اور ایک سو اسی سال بعد تین کروڑ بیس لاکھ ہونی چاہئے تھی‘ مگر آج یہ آبادی محض سات لاکھ چھیاسی ہزار سات سو ہے‘ یعنی دو سوسال بعد ایبوریجنز کی آبادی میں صرف دو لاکھ چھیاسی ہزار سات سو کا اضافہ ہوا ہے۔ یہ اضافہ ستاون فیصد کے قریب ہے‘ یعنی تیس سال میں سو فیصد کی بجائے کمپائونڈ اضافے کے حساب سے ساڑھے سات فیصد سے کچھ کم بنتا ہے‘ لیکن ایسا ممکن نہیں۔ یہ صرف اس لیے ہوا کہ ان کا اتنا قتل ِعام کیا گیا کہ ان کی آبادی بارہ ہزار تین سو یا اس کے لگ بھگ رہ جانی چاہئے تھی‘ مگر ایسا بھی شاید نہ ہوا ہو ‘مگر ان دو سو سال کے دوران ہونے والے مسلسل قتل ِعام‘ غلامی‘ ظلم و تشدد اور دیگر عوامل نے ان کا حشر نشر کر کے رکھ دیا۔
یہ سب کچھ مجھے اس لیے یاد آیا کہ میں آج ایڈیلیڈ میں ہوں۔ یہاں مجھے ایک چھوٹی سی تقریب میں شرکت کرنا تھی۔ اس کا اہتمام ڈاکٹر افضل محمود نے کیا ہے۔ ایئر پورٹ سے ہم سیدھا فاروق احمد کے گھر چلے گئے‘ جہاں عبدالقیوم اور ڈاکٹر شاہد بھی موجود تھے۔ یہ سب قائداعظم میڈیکل کالج بہاولپور کے گریجوایٹ ہیں اور اب ایڈلیڈ میں اکٹھے ہو چکے ہیں۔ فاروقی کے گھر بڑی مزیدار محفل تھی اور وقت گزرنے کا پتا ہی نہ چلا۔ زیادہ تر گفتگو سیاست پر ہوئی۔ پہلے پہل میں نے کوشش کی کہ اس سے بچا جائے‘ مگر سب مجھے گھیر گھار کر اس طرف ویسے ہی لے آئے ‘جیسے ماسٹر نے حساب سے چالو بچوں کو خرگوش گننے پر لگا دیا اور گنتی سکھا دی۔
سیاست میں دہشت گردی کی لہر نے جہاں پاکستان بھر کو غمگین کیا ہے ‘وہاں بیرون ِملک بسنے والے پاکستانی بھی اس المیے پر کم دکھی نہیں ہیں۔ فاروق میرے کالموں کا مستقل قاری ہے۔ اسی دہشت گردی کے حوالے سے اسے یاد آیا کہ میں نے کافی عرصہ پہلے اپنے کسی کالم میں لکھا تھا کہ عدم برداشت کی‘ جو لہر ہماری قومی زندگی میں عموماً اور مذہب کے ساتھ ساتھ ریاست میں در آئی ہے‘ اس کے باعث آئندہ الیکشن اسی رویے کے باعث خونریز بھی ہو سکتے ہیں۔ میرا یہ خوف سچ ہوتا نظر آ رہا ہے۔ پہلے گمان تھا کہ یہ الیکشن امیدواروں کو جوتے مارتے گزر جائے گا‘ مگر ہارون بلور اور اب سب سے ہولناک واقعہ سراج رئیسانی کی شہادت کا ہے‘ جس میں ایک سو تیس سے زائد انسانی جانیں دہشت گردی کی نذر ہو گئیں۔ یہ الیکشن کو متنازعہ بنانے کے ساتھ ساتھ ٹرن اوور کم کرنے اور نتائج کو مشکوک بنانے کی سازش ہے اور دہشت گردوں کی کمر توڑنے کے دعوے کی نفی بھی۔
خدا جانے ‘ان دہشت گردوں کی کتنی کمریں ہیں ‘جو ہم بار بار توڑتے ہیں اور وہ نئے سرے سے اپنی مضبوط کمر کے ساتھ آ دھمکتے ہیں؟ سراج رئیسانی کی شہادت بلوچستان میں محب ِوطن سیاستدانوں کے لیے ایک وارننگ بھی ہے اور انہیں اس عمل سے دُور رکھنے کی سازش بھی۔ سب دوستوں کو دہشت گردی کی اس نئی لہر بارے بڑی تشویش تھی‘ لیکن میرے پاس اس کا کوئی شافی جواب نہیں تھا‘ بلکہ میرے پاس شاید کسی کے پاس بھی نہیں۔ سوائے اس سالہا سال پرانے اور گھسے پٹے ہوئے جملے کے کہ ”ہم نے دہشت گردوں کی کمر توڑ کر رکھ دی ہے‘‘۔