منتخب کردہ کالم

ہم ہیں چودھری ٹِچ! سہیل وڑائچ

ہم ہیں چودھری ٹِچ! سہیل وڑائچ

یہاں پر سب ایک جیسے ہیں‘ یہ بھی اور وہ بھی‘ میں بھی اور تو بھی‘ ہم سب چودھری ٹِچ ہیں۔ چودھری ٹِچ سے کیا مراد ہے؟
مُربی ّ ٹکا محمد اقبال سنایا کرتے ہیں۔ ”قصہ یوں ہے کہ ساہیوال کے ایک نواحی گائوں میں ایک چودھری رہا کرتا تھا‘ جو گاہے ماہے ساہیوال شہر کا چکر لگاتا رہتا تھا‘ اس کا قد چھوٹا اور مونچھیں بڑی بڑی تھیں۔ وہ اپنے لمبے تڑنگے محافظوں کے ساتھ شہر کا چکر لگاتا تو لوگ زیرِ لب مسکراتے اور ایک دوسرے کے کان میں کہتے ”وہ دیکھو چودھری ٹِچ جا رہا ہے‘‘ رعب داب اور دہشت اتنی تھی کہ کسی کو جرأت نہیں تھی کہ کبھی باآواز بلند چودھری صاحب کو بتا سکے کہ شہر کے لوگوں نے آپ کا نام ٹِچ رکھا ہوا ہے۔ چودھری صاحب کا ایک باوفا دوست فقیریا چائے والا تھا۔ چودھری ٹِچ صاحب بازار جاتے تو چند منٹ رک کر فقیریے سے چائے کا کپ ضرور پیتے۔ ایک روز چودھری صاحب اچھے موڈ میں تھے۔ فقیریے نے پرانی بے تکلفی اور چودھری کے اچھے موڈ کے پیشِ نظر چودھری سے کہا کہ ”لوگ آپ کی جھوٹی عزت کرتے ہیں‘ آپ کو ٹِچِ بٹن قرار دیتے ہیں ”یعنی کسی نہ کام کا چھوٹا بٹن‘‘ بظاہر آپ کو سلام کرتے ہیں مگر پیٹھ پیچھے آپ کو چودھری ٹِچ کہہ کر پکارتے ہیں۔‘‘ فقیریے نے یہ مصرعہ پڑھا
”یہ جو زہر خند سلام تھے‘ مجھے کھا گئے‘‘
فقیریے نے مزید کہا ”چودھری صاحب! آپ کی یہ توہین مجھے اچھی نہیں لگتی‘ اس کا کچھ تدارک کریں‘‘۔
فقیریے کی توقع کے برعکس چودھری ٹِچ نے کھلے دل سے قہقہہ لگایا اور کہا: میں ان سب کو ”ٹِچ‘‘ سمجھتا ہوں‘ میری بلا سے یہ لوگ مجھے جو مرضی کہتے یا سمجھتے رہیں‘ میں تو وہی کروں گا جو کرتا ہوں‘ اور ویسے ہی رہوں گا جیسے رہتا ہوں۔ اس مثال کو سن کر مجھے لگتا ہے کہ ہم سب بھی ”چودھری ٹِچ‘‘ بن چکے ہیں‘ کوئی ہمیں انتہا پسندی کا طعنہ دیتا ہے تو ہم چودھری ٹِچ کی طرح اسے انتہا پسند قرار دے دیتے ہیں‘ کوئی ہمیں فرقہ پرست کہے تو ہم جواباً اسے فرقہ پرست ثابت کر دیتے ہیں‘ کوئی ہمیں کہے کہ عدل کرو‘ انصاف کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑو تو ہم اسے توہینِ عدالت کا مرتکب قرار دے دیتے ہیں۔ کوئی اگر منع کرے کہ مارشل لاء لگانا غلط ہے‘کیونکہ ماضی میں اس سے بہت نقصان ہوا ہے تو ہم اسے فوج کا مخالف قرار دے دیتے ہیں‘ کوئی اگر یہ کہے کہ جمہوریت میں بہتری لائیں‘ گورننس ٹھیک کریں تو ہم اسے جمہوریت مخالف کہہ کر چودھری ٹِچ بن جاتے ہیں۔
آئیے ذرا‘ اپنا گریباں چاک کریں اور دیکھیں‘ چودھری ٹِچ والا رویّہ ہمیں کہاں لے جا رہا ہے؟
میری ہی مثال لیں۔ بزعمِ خود میں بہت بڑا دانش ور ہوں۔ کوئی مجھے لاکھ سمجھائے کہ یہ بات غلط ہے‘ ثبوت بھی پیش کر دے مگر میں پھر بھی اپنی بات پر ڈٹا رہتا ہوں۔ ہے نا چودھری ٹِچ والا رویہ۔
نون والے بھی چودھری ٹِچ کے خول سے باہر نکلنے کو تیار نہیں۔ آواز لگ چکی ہے کہ ”The Party is Over‘‘ مگر وہ اس بحث میں مصروف ہیں کہ قانون کی رو سے‘ آئین کے ضابطوں کے تحت‘ نااہلی نہیں ہو سکتی۔ ان کا خیال ہے کہ مظلومیت کا تاثر مخالفوں کا دل دہلا دے گا اور حامیوں کا دل پسیج جائے گا اور وہ سڑکوں پر نکل آئیں گے۔ مگر یاد رہے کہ مظلومیت کا ڈھول تب اپنا رنگ جماتا ہے جب بھٹو کو پھانسی ہو چکی ہوتی ہے یا پھر جب نااہلی کا فیصلہ سنایا جا چکا ہوتا ہے اور پھر حالات کنٹرول نہیں ہو پاتے۔ تب ظالم اور مظلوم واضح ہو جاتے ہیں۔ سزا کے تکمیل پانے تک چودھری ٹِچ جیسوں پر خون سوار رہتا ہے اور وہ خون بہائے بغیر ٹلتے نہیں۔
عسکری خان ہم سب سے بہادر اور عقلمند ہے مگر وہ بھی کسی کی نہیں سنتا۔ وہ بھی سب کو برا اور اپنے آپ کو اچھا سمجھتا ہے۔ چار مارشل لاء لگائے تاکہ تضادستان کی اصلاح کر سکے مگر ہر بار جاتے ہوئے کانوں کو ہاتھ لگائے کہ یہ ٹھیک نہیں ہو سکتااور اب مارشل لا دوبارہ نہیں لگانا۔ مگر ہر بار کوئی نیا مہم جُو آتا رہا اور پھر وہی غلطی دہراتا رہا۔ عسکری خان چاہے جتنا مرضی غیر جانبدار رہے‘ چاہے سیاست اور عدالت میں مداخلت نہ کرے‘ چاہے جے آئی ٹی کو کوئی ہدایت نہ دے‘ پھر بھی جب کوئی بڑا واقعہ ہو گا تو عسکری خان ہی ذمہ دار ٹھہرایا جائے گا۔ تضادستان کے سارے چودھری ٹِچ اکٹھے ہو کر عسکری خان ہی کی طرف انگلیاں اٹھائیں گے۔ عسکری خان ملک کا مرکزِ ثقل ہے اس لیے اسے سیاست سے بالاتر ہی رہنا چاہیے۔
بابائے جمہوریت نوابزادہ نصراللہ خان کہا کرتے تھے کہ ”آمریت کے خلاف جدوجہد کرکے بڑی مشکل سے جمہوریت آتی ہے‘ جمہوریت کے لیے ضروری ہے کہ وہ کرپشن سے پاک ہو۔ ہم جمہوری دور میں کرپشن کے خلاف چور چور کا شور مچاتے ہیں۔ مقصد یہ ہوتا ہے کہ چوری ختم ہو مگر ہوتا کیا ہے چوری ختم ہونے کی بجائے سینہ زور آ جاتے ہیں‘ جو پہلے سے بھی بڑا بحران پیدا کرنے کا سبب بنتے ہیں‘‘۔
متحرک اور تعلیم یافتہ مڈل کلاس کی حمایت یافتہ تحریک انصاف کا رویہ بھی چودھری ٹِچ سے مختلف نہیں۔ جمہوریت کی جس شاخ کے ذریعے سے انہیں خلعتِ شاہی ملنے کی امید ہے یہ اسی شاخ کو کاٹ رہے ہیں۔ ڈر ہے کہ احتساب کا نعرہ کل کو عدالت خان اور عسکری خان کے لیے وہ ہتھیار بن جائے گا‘ جس سے تحریک انصاف کے لئے اقتدار کی منزل دور کردی جائے گی۔
خود ہماری ریاست ”تضادستان‘‘ کا رویہ بھی چودھری ٹِچ جیسا ہے۔ اقوام متحدہ اور امریکہ ہمارے افغان اور کشمیری حریت پسندوں کو دہشت گرد قرار دے رہے ہیں اور ہم چودھری ٹِچ کی طرح دشمن کی توپوں میں کیڑے پڑنے کی دعائیں مانگتے رہتے ہیں اور چودھری ٹِچ کی طرح کندھے اُچکا کر خطرناک ترین صورتحال سے نظر ہٹا کر دوسری طرف دیکھنا شروع کر دیتے ہیں۔ چودھری ٹِچ کی طرح دوسروں کو ہمیشہ ٹِچ سمجھنا درست نہیں ہوتا۔ اپنی غلطیوں اور کوتاہیوں پر غور کرکے ملکی پالیسی پر نظرثانی کرنا ہی بہتر حکمتِ عملی ہوتی ہے۔
چودھری ٹِچ کی خود پرستی اور انا پرستی بجا‘ مگر دنیا کے ساتھ چلنے کے لئے آپ کو دنیا کی سننا بھی پڑتی ہے۔ قائد اعظم محمد علی جناح سے لے کر آج تک ریاست کی یہ واضح پالیسی رہی ہے کہ اقوام متحدہ اور اس کے فیصلوں کے سامنے ہر صورت میں سر جھکانا ہے اور ہم ہمیشہ اقوام متحدہ کے رکن ممالک میں سے ذمہ دار ترین ملک رہے ہیں۔ اگر ہمیں کسی معاملے سے اختلاف بھی ہوتا تھا تو ہم کسی دوست ملک کی مدد سے ویٹو کروا کے اقوام متحدہ کے اپنی ریاست کے خلاف فیصلوں کو التوا میں ڈال دیتے تھے‘ لیکن اب آہستہ آہستہ یہ محسوس ہونے لگا ہے کہ ہم پر مصائب اس قدر پڑے ہیں کہ ہم چودھری ٹِچ کی طرح پوری دنیا مع اقوام متحدہ سب کو ٹِچ ہی سمجھنے لگے ہیں۔ یہ رویہ کہیں ہمیں کسی مشکل میں نہ ڈال دے۔
یاد رکھنا چاہئے کہ زندگی کے لطف کے لئے تو چودھری ٹِچ جیسے کردار ضروری ہیں‘ ان کی باتوں سے حظ بھی اٹھایا جاتا ہے مگر جب سارے اہم کردار ہی چودھری ٹِچ بن جائیں اور باقیوں کو بالکل نظر انداز کرکے ٹِچ سمجھنے لگ جائیں تو پھر ملک و قوم کے مستقبل پر سوال اٹھنے شروع ہو جاتے ہیں۔
آئیے اپنے اندر سے چودھری ٹِچ کو نکالیں۔ آنکھیں اور دماغ کھولیں اور اپنے آپ کو زمانے کے مطابق ڈھالیں۔ یہی بہترین راستہ ہو گا…!