ہم ہی رہ گئے تو اندازہ ہو قحط الرجال کا…ایاز امیر
ہم کا مطلب ہم چار‘ جن کا نام بطور نگران وزیر اعلیٰ پنجاب لیا جا رہا ہے۔ میں زیادہ تو نہیں کہنا چاہتا لیکن اگر بات یہاں تک آ گئی ہے تو اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ حالات پانچ دریاؤں کی سرزمین پر کہاں تک پہنچ چکے ہیں۔ پانچ دریا تو محاورہ ہی رہ گیا ہے۔ ہمار ے حصے اب تین دریا ہیں اور اُن میں بھی پانی سکڑ کے رہ گیا ہے۔
دفاعی اور ایٹمی ماہرین تو ہمیں چاہیے تھے لیکن اچھا ہوتا کہ آبی ذخائر کے ماہرین پہ بھی ہم توجہ دیتے۔ سندھ طاس معاہدے کے مطابق ہم پہ منحصر تھا کہ اپنے حصے کے دریاؤں کا پانی ہم کس بہتر طریقے سے استعمال کرتے ہیں۔ اُوپر کی وادیوں پہ ہم پہلے ڈیم بنا لیتے تو ہندوستان پر بازی لے جاتے اور پانی کا اس طریقے سے استعمال ہندوستان نہ کر سکتا۔ لیکن بہت سی چیزوں پہ جیسے ہم سوئے رہے پانی کے مسئلے پہ بھی خوابوں کی دنیا میں رہے ۔ سندھ طاس معاہدہ 1960ء میں طے پایا تھا ۔ ہندوستان نے جو ڈیم بنانے شروع کیے وہ بہت بعد میں تھے۔ لیکن ہم اور امور پہ بڑھکیں مارتے رہے اور پانی کے مسئلے کو جتنی ضرورت تھی اہمیت نہ دی ۔ افغانستان فتح کرتے رہے ، مسلمانان پاکستان کو ایک بار نہیں کئی بار دوبارہ مسلمان بناتے رہے ۔ سمجھ سے بالا تر جہادوں میں مگن رہے ، جو ضروری تھا بھول گئے۔ اب رونا رو رہے ہیں کہ پانی کے مسئلے پہ ہندوستان ہمیں دَغا دے رہا ہے۔
کہاں پنجاب کے ماضی کے درخشاں ستارے اور کہاں آج کے نگران نگہباں۔ ماسٹر مَدن کا وہ گانا غور سے سننے کے قابل ہے ‘راوی دے پرلے کنڈھے وے مترا وسدا اے دِل دا چور‘۔ دریا ئے راوی کا اُس زمانے میں کیا سماں ہو گا۔ ایک کنارے سے دوسرے کنارے بہتا پانی، بیچ میں کشتیاں اور کہیں درمیان میں کامران کی بارہ دَرّی۔ اب راوی کا یہ حال ہو گیا ہے کہ اُوپر سے گزرتے ہوئے نیچے دیکھا نہیں جا سکتا۔ ایک دفعہ سگیاں پل پہ پیدل چلنے کا ارادہ باندھا ۔ اتنی بدبُو تھی کہ جلد ہی فیصلے پر پچھتایا اور پھر کبھی ایسی جسارت نہ کی۔
پنجاب کے ستاروں کا نام لیں تو کاغذ ختم ہو جائیں ۔ دُنیائے موسیقی میں اُستاد بڑے غلام علی خاں ، روشن آراء بیگم ، کندن لال سہگل ، محمد رفیع ، نور جہاں اور یہ محض چوٹی کے نام ہیں۔ پوری فہرست بنے تو لمبی ہوتی جائے۔ شمشاد بیگم لاہورکی تھیں۔ ثریا گوجرانوالہ میں پیدا ہوئیں۔ شیامہ باغبان پورہ کی تھیں۔ جو اُس محلے کی تھیں جو کہ بادشاہی مسجدکے زیر سایہ ہے اور جنہوں نے میدانِ رَقص میں اپنا نام پیدا کیا‘ کتنی ہی تھیں۔ شاعروں کا نام لیں تو حکیم الامت علامہ اقبال سے لے کر بات کہاں تک پہنچ جاتی ہے‘ فیض احمد فیض ، حفیظ جالندھری، منیر نیازی ، حبیب جالب اور اَن گنت اور۔ لکھنے والے کتنے اِس سرزمین پہ آئے اور اپنی نشانیاں چھوڑ گئے۔ لاہور کے کوچے اور گلیاں تاریخ کی مختلف نشانیوں سے بھری پڑی ہیں‘ گو ہماری کوشش ہمیشہ رہی کہ ان نشانیوں کو مٹا دیا جائے۔
میدان سیاست میں کتنے بڑے نام رہے۔ کئی ایک نے عروج انگریزوں کے زمانے میں پایا لیکن جو بھی اُن کا سیاسی کردار تھا، بڑے نام تو تھے: سر فضلِ حسین ، سر سکندر حیات اور 1947ء کے بعد افتخار حسین خان ممدوٹ ، میاں ممتاز محمد خان دولتانہ اور پھر ایوبی دور میں نواب آف کالا باغ اور بھٹو صاحب کے زمانے میں مصطفی کھر (وہ مصطفی کھر جو مائی فیوڈل لارڈ کے پہلے سے تھے)۔ اِن ناموں کو سامنے رکھیں اور پھر ہم نگرانوں کو دیکھیں تو اپنے پہ ہنسی آ جاتی ہے ۔ لیکن حال ہی میں حکمرانی کرنے والوں کو دیکھیں تو پھر خیال آتا ہے کہ ٹھیک ہے ایسی بھی کوئی بات نہیں ۔ یہ میں یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ متوقع نگرانوں میں سر فضلِ حسین یا میاں دولتانہ کی خاصیت نہ ہو گی لیکن اُن میں سے کوئی بھی وہ کرتب نہ دکھا سکے جس کی مہارت کچھ دن پہلے کے حکمرانوں میں کوٹ کوٹ کے بھری ہوئی تھی۔ سپریم کورٹ کے سامنے جانا اور سوال پوچھا جائے 56 کمپنیوں کا اور آپ جواب دیں اپنے فرضی کارناموں کا اور یہ سوال سات مرتبہ پوچھا جائے اور آپ سات مرتبہ سوال کو گول کریں‘ اور کسی اور طرف چل پڑیں۔ ایسی ہمت ہر ایک میں نہیں ہو سکتی۔
یہ بھی غور کیجیے کہ نون لیگی حکومت رخصت ہوئے ایک ہفتہ نہیں ہوا اور قائدِ جمہوریت میاں محمد نواز شریف اسلام آباد میں فرماتے ہیں کہ ہم تو وافر بجلی چھوڑ کے گئے تھے‘ اب پتہ نہیں کیا ہو گیا ہے۔ چکوال جیسے شہروں میں ہر گھنٹے کے بعد بجلی جا رہی ہے اور چکوال بہ نسبت دوسرے علاقوں کے اس لحاظ سے خوش قسمت سمجھا جاتا ہے۔ پنجاب کے بہت سے علاقوں میں چوبیس گھنٹوں میں چودہ پندرہ گھنٹے بجلی جا رہی ہے اور یہ جمہوریت کے نئے پروانے بلا کسی جھجک کے کہتے ہیں کہ لوڈ شیڈنگ کا مسئلہ ہم حل کر گئے۔ دروغ گوئی تو چلیے سخت لفظ ہے لیکن افسانہ سازی کی بھی کوئی حد ہونی چاہیے۔
پنجاب کے خزانے میں کوئی پیسہ نہیں رہا۔ روزمرہ کے حکومتی کام چلانے کیلئے پیسے نہیں۔ مزید قرضہ جات نہ لیے گئے تو کاروبارِ حکومت ٹھپ ہو کے رہ جائے گا‘ لیکن شہباز شریف کو سُنیں تو یوں لگتا ہے کہ ترقی کی سب منزلیں طے ہو گئیں اور خزانہ بھرا پڑا ہے۔ اور تو چھوڑئیے شہباز شریف کے چار غیر ضروری اخراجات صوبے پہ ایسا بوجھ چھوڑ گئے ہیں کہ جلد تلافی نہ ہو سکے گی ۔ لاہور، راولپنڈی اور ملتان کی تین میٹرو بسیں اور ایک لاہور کی اورنج لائن ٹرین۔ ان چاروں منصوبوں کی ضرورت نہ تھی۔ پیسہ جو تھا یا جو چین سے بطور قرض لیا گیا ہے پنجاب کے اور بنیادی مسائل پہ لگتا تو بہتر ہوتا۔ لیکن شہباز شریف کو اپنی نمائش عزیز تھی ۔ اپنی کارگزاری کی واضح مثالیں پیش کرنا چاہتے تھے۔ اس لئے ایسے منصوبے چنے گئے جو نظر آ سکیں‘ چاہے اُن کی چنداں ضرورت نہ ہو۔ پینے کا صاف پانی پاکستان کے سب سے بڑے صوبے میں کہیں بھی میسر نہیں۔ لاہور میں سرکاری نل سے پانی پینا موت کو دعوت دینے کے مترادف ہے۔ سرکاری ہسپتالوں میں جانا عبرت کا باعث ہے ۔ لاہور میں سرکاری سکول ایسے ہیں جن کی حالت پہ رونا آتا ہے‘ لیکن شہباز شریف کی ترجیحات اور رہیں۔
ایک طرف حکومتی ڈھانچہ موجود ہے اور ساتھ ہی ساتھ مساوی ڈھانچہ 56 کمپنیوں کی شکل میں کھڑا کیا گیا۔ جس میں منظور نظر سرکاری افسروں کو ہی بھاری تنخواہوں پہ کھپایا گیا۔ چیف جسٹس پوچھتے ہیں کہ یہ کس قانون کے تحت کیا ۔ شہباز شریف غیر متعلقہ افسانے بیان کرنے لگ پڑتے ہیں کہ ہم نے بڑی ترقی کی ۔ پنجاب کا خزانہ برباد ہو گیا اور کہتے ہیں کہ قوم کے پیسے بچائے۔
دراصل اِنہیں کوئی پوچھنے والا نہ تھا۔ پی ٹی آئی نے ضرور اِن کی مخالفت کی اور اِن کا جینا حرام کیا۔ حکمرانی اِن کی بدمزہ ہو کے رہ گئی‘ لیکن صحیح پوچھ گچھ اگر کسی نے کی تو وہ چیف جسٹس آف پاکستان جناب ثاقب نثار تھے۔ 56 کمپنیوں کا مسئلہ تو کمال مہارت سے عوام کی نگاہ سے چھپا ہوا تھا۔ یہ مسئلہ بھی سپریم کورٹ نے کھنگالا۔
اب صورتحال یہ ہے کہ سورج اِن کا غروب ہو گیا‘ لیکن حکومت اور انتظامیہ میں اِن کی نشانیاں بدستور موجود ہیں۔ آئی جی پنجاب کو مخاطب ہو کے چیف جسٹس صاحب کو بھی کہنا پڑا کہ میرے احکامات پہ آپ کے چہرے پہ گھبراہٹ کے آثار کیوں آ جاتے ہیں۔ یہ اُس پیرائے میں بات ہوئی جب چیف جسٹس صاحب نے عائشہ احد کی درخواست سنتے ہوئے حکم دیا کہ اگر پہلے سے ماتحت عدالت کا کوئی حکم موجود ہے تو حمزہ شہباز وغیرہ کے خلاف مقدمہ درج کیا جائے۔ مقدمہ تو درج ہو گیا لیکن پولیس کی طرف سے اَبھی تک کوئی کارروائی دیکھنے میں نہیں آئی۔ حالات بدل چکے لیکن مکمل بدلنے میں اَبھی کچھ وقت باقی ہے۔