آخر کارچین کی46ارب ڈالرکی سرمایہ کاری کے زور پر ‘ پاکستان کے وزیرخزانہ آئی ایم ایف سے 50کروڑ ڈالر قرض کی ایک نئی قسط حاصل کرنے میں کامیاب ہو گئے۔ آئی ایم ایف سے معاہدے کے مطابق سرکاری کنٹرول میں چلنے والے 40 سے اوپر اداروں کی نجکاری کر کے‘ جو بھاری سرمایہ جمع ہونا تھا‘ اس کے بارے میں بے یقینی پائی جاتی ہے۔ لیکن جب کوئی بیرونی قرض خواہ اپنی تشویش ظاہر کرتا ہے‘ تو پاکستانی اہلکار جواب دیتے ہیں کہ چین ،اقتصادی راہداری کے منصوبوں کے تحت ہمیں بھاری رقوم دینے والا ہے اور ہم حکومتی انتظام کے تحت چلنے والے دیگر اداروں کو بھی فروخت کرنے والے ہیں۔ جس کے نتیجے میں پاکستان کے زرمبادلہ کے ذخائر میں بھاری اضافہ ہو گا اور ہم آسانی سے واجب الادا قسطیں ادا کر سکیں گے۔ لیکن یہ امیدیں بھی اسی طرح ہیں‘ جیسے پی آئی اے کی نجکاری سے وابستہ کی گئی تھیں۔ گزشتہ چار روز کے دوران جو صورتحال پیدا ہوئی‘ اس کا کسی کو اندازہ نہیں تھا۔ حکومت کو تو شاید آج بھی نہیں۔ ارباب اقتدار بے شک چینی سرمایہ کاری میں ڈالروں کی بارش ہوتے دیکھ رہے ہوں لیکن چین اپنے منصوبوں کے لئے دی گئی رقوم ‘پہلے سے موجود دوسرے ملکوں کے قرضوں پر صرف نہیں ہونے دے گا۔ ابھی تک ہماری حکومتوں نے چین کی سیاسی اور سٹریٹجک ضرورتوں کے تحت ملنے والی رقوم کو دیکھا ہے۔ لیکن سرمایہ کاری پر چین کے سیاسی منصوبے اثر انداز نہیں ہوتے۔ چین نے پاکستان کو مختلف منصوبوں پر زرمبادلہ دینے کے جو وعدے کئے ہیں‘ انہیں پورا کرنا ہمارے ارباب اقتدار کے لئے مشکل ہو گا۔
ہمارے مالیاتی ماہرین‘ آئی ایم ایف سے طرح طرح کے وعدے کر کے‘ قرض حاصل کرتے رہتے ہیں اور اس میں اپنی کامیابی سمجھتے ہیں۔ لیکن تلخ اور اصل حقائق اب سامنے آنے لگے ہیں۔ مثلاً پی آئی اے کی نجکاری سے جتنی رقم حاصل ہونے کی جو توقع رکھی جا رہی تھی‘ اب اس میں بہت فرق پڑ گیا ہے۔ کوئی نہیں جانتا ‘پی آئی اے میں پیدا ہونے والا مالی اور انتظامی بحران کیا رخ اختیار کرے گا؟ ارباب اقتدار ابھی تک اسی بھروسے پر بیٹھے ہیں کہ یونین کے ساتھ سودے بازی کر کے‘ نئے نئے وعدوں کی بنیاد پر مہلت اور رعایت حاصل کر لیں گے۔ لیکن آئی ایم ایف کے ماہرین بھی صورتحال پر کڑی نظر رکھے ہوئے ہیں۔ ان کا وہ شعبہ‘ جو پاکستان سٹیل مل کی نجکاری پر مامور ہے‘ ابھی سے سارے تخمینے لگائے بیٹھا ہے اور سٹیل مل کی نجکاری کا وعدہ کس طرح اور کب پورا ہو سکے گا؟ اس کے بارے میں ہمارے ماہرین کو اندازہ نہیں۔ ابھی پی آئی اے کی نجکاری ‘ جسے بہت آسان سمجھا جا رہا تھا‘ زیادہ مشکل ہو گئی ہے۔ انتظامیہ اور یونین کی جو کشمکش شروع ہو چکی ہے‘ اس میں انتظامیہ کے لئے پرانے حربے آزمانے کے طریقے کامیاب ہوتے نظر نہیں آ رہے۔ ابھی تک یونین اور انتظامیہ کا روایتی جھگڑا ‘ تصادم تک نہیں پہنچا تھا۔ انتظامیہ کا خیال تھا کہ یونین کے لیڈروں کے ساتھ سودے بازی کر کے‘ وہ نجکاری کے عمل کو آسان بنا لیں گے۔ لیکن گولیاں چلنے کے بعد جو صورتحال پیدا ہو چکی ہے‘ وہ اب صرف یونین اور انتظامیہ کا مسئلہ نہیں رہ گیا۔ اب اس جھگڑے میں ملک کی دوسری یونینیں شامل ہونے کی فضا بن گئی ہے۔ سیاسی طاقتیں بھی اپنے اپنے کردار کا جائزہ لے رہی ہیں۔ حکومت کا بڑھتا ہوا اعتماد اور کنٹرول دیکھ کر‘ اپوزیشن کی پارٹیاں موقع کی تاک میں بیٹھی تھیں۔ اس موقع سے سب فائدہ اٹھانے کی کوشش کریں گے۔ خصوصاً پیپلزپارٹی‘ جو سندھ میں حکمران ہے‘ وہ اپنی حریف پارٹی کی حکومت کو مزید مستحکم ہونے کا موقع نہیں دے گی۔ بظاہر یہ لگتا ہے کہ اپوزیشن
پارٹیوں اور پیپلزپارٹی کے درمیان باہمی تعاون کا کوئی راستہ نکل آئے گا اور یہ دونوں دیگر اتحادیوں کے ساتھ مل کر‘ سیاسی عدم استحکام پیدا کرنے کا راستہ نکالیں گی۔ اپوزیشن کی پارٹیاں‘ دھرنے کے ایام میں حکومت کی پریشانی اور بوکھلاہٹ کا مشاہدہ کر چکی ہیں۔ انہیں اچھی طرح معلوم ہے کہ موجودہ حکمران‘ بحران پر قابو پانے کی صلاحیت نہیں رکھتے۔
دھرنے کے دنوں میں حکومت جس بری طرح سے بوکھلائی ہوئی تھی‘ اپوزیشن کو اس کا پورا تجربہ ہے۔ انہیں یقینا یاد ہو گا کہ ایک موقع پر آ کر احتجاجی تحریک سے وزیراعظم اور ان کی ٹیم گھبرا گئی تھی اور وزیراعظم نے عندیہ دیا تھا کہ اگر بحران نے زیادہ طول پکڑا‘ تو وہ حالات بگڑنے سے پہلے استعفیٰ دے دیں گے۔ مگر اپوزیشن نے اس صورتحال میں حکومت کو سہارا دیااور کھل کر اس کا ساتھ دینے کے اعلانات کر دیئے۔ اپوزیشن کو اس طرح حکومت کی حمایت کے لئے صف بستہ ہوتے دیکھ کر‘ دھرنے کے قائدین کے حوصلے بھی ماند پڑنے لگے۔حکومت نے یہ صورتحال دیکھ کر مذاکرات کو طول دینا شروع کر دیا۔ اس دوران صورتحال میں جو ٹھہرائو آیا‘ اس کا فائدہ اٹھاتے ہوئے حکومتی ٹیم نے سخت رویہ اختیار کرنے کا تاثر پیدا کیا۔ جس سے اپوزیشن نے سمجھا کہ حکومت کو منظم اداروں کی حمایت حاصل ہو گئی ہے اور اب وہ تصادم کے لئے پوری طرح تیار ہے۔ سیاسی کشمکش میں حریف کے دائو اور حربے سمجھنا بڑی مہارت کا کام ہوتا ہے۔ دھرنا دینے والی پارٹیوں کے لیڈر‘ سیاسی دائوگھات کی مہارت نہیں رکھتے۔ عمران خان اور مولانا طاہرالقادری جو کہ دھرنوں کی قیادت کر رہے تھے‘ دونوں ہی سیاسی دائو پیچ کے تجربوں سے نہیں گزرے تھے۔ خصوصاً اقتدار کی کشمکش میں یہ دونوں کبھی مرکزی اکھاڑے میں نہیں اترے تھے۔ اقتدار کی جنگ میں یہ بالکل نئے تھے۔ جبکہ پیپلزپارٹی کے پاس تجربہ کار سیاسی لیڈر موجود تھے۔ انہوں نے موجودہ حکومت کی مدد کے لئے ایسی زبردست فضا پیدا کی جس سے نہ صرف حکومت کے اعتماد میں اضافہ ہو گیا بلکہ یہ تاثر پیدا ہوا کہ حکومت بحران سے نکل رہی ہے اور اس کے اعتماد میں اضافہ ہو رہا ہے۔ یہی تاثر حقیقت میں بدل گیا اور استحکام پیدا ہوتے دیکھ کر‘ اپوزیشن کے حوصلے بھی پست ہونے لگے۔ قریباً سال بھر اپوزیشن اور حکومت کے مابین تعاون کا ماحول دکھائی دیا۔ لیکن بنیادی طور پر اندر ہی اندر مفادات کا
تصادم جڑیں پکڑنے لگا۔ خصوصاً سندھ کے حالات میں وفاقی حکومت کی مداخلت دیکھ کر‘ باہمی تعاون کی فضا بدلنے لگی اور جب ایک وفاقی ادارہ مسلح طاقت کے ساتھ‘ سندھ میں امن و امان بحال کرنے کے لئے آیا‘ تو صوبائی حکومت نے جلد ہی محسوس کرنا شروع کر دیا کہ رینجرز جسے محض امن و امان بحال کرنے اور دہشت گردوں کو کچلنے کے لئے بلایا گیا تھا‘ وہ ایسے معاملات میں بھی مداخلت کرنے لگی ہے‘ جو آئینی طور پر اس کے دائرہ اختیار میں آتے ہیں۔ صوبائی حکومت نے اپنی وفاقی قیادت کو تعاون کی راہ پر چلتے دیکھ کر‘ خاموشی اختیار کر لی اور یہ سمجھ لیا کہ اس کی جماعت اور ن لیگ میں مفادات پر سمجھوتے ہو گئے ہیں اور اس نے باہمی تعاون کے عملی مظاہرے شروع کر دیئے ہیں۔ حقیقت میں پیپلزپارٹی کی اصل قیادت اور ن لیگ کے درمیان باہمی تعاون کی جگہ اقتدار کی کشمکش لے چکی تھی۔ جس کا صوبائی قیادت کو دیر میں پتہ چلا۔ اب باہمی کشمکش کھل کر عوام کے سامنے آ چکی ہے۔ لیکن اپوزیشن کی قیادت ‘ماضی کے مہیب سایوں میں گھرنے لگی تھی۔رینجرز نے بہت سے جرائم پیشہ عناصر کو گھیرے میں لے لیا تھا۔ اس گھیرے میں زیادہ تر ایسے لوگ آئے‘ جو اپوزیشن کے نمایاں لیڈر تھے۔ آج صورتحال یہ ہے کہ پیپلزپارٹی کی صوبائی حکومت میں جو لوگ بہت بااثر اور طاقتور تھے‘ وہ جلاوطنی اختیار کرنے پر مجبور ہو گئے اور صف اول کی قیادت کو‘ اس کے ماضی نے گھیرنا شروع کر دیا۔ اب حکومت‘ اپوزیشن کی بڑھتی ہوئی مجبوریوں اور کمزوریوں کو استعمال کرنے کی پوزیشن میں آ چکی ہے۔ حکمران جماعت ‘ طاقت کے زعم میں ‘ اپوزیشن کو ہمیشہ کے لئے پیچھے دھکیلنے پر آمادہ ہے۔ حکومت کی مضبوطی کا تاثر‘ اپوزیشن کی ان جماعتوں کو جو کھل کر حکومت کے سامنے نہیں آ رہی تھیں، مجبور کر دیا کہ وہ دیگر اپوزیشن جماعتوں کے ساتھ مل کر‘ اپنی طاقت کا مظاہرہ کریں۔ پی آئی اے کی یونین نے ایک ایسی طاقت کو بیدار کر دیا ہے‘ جو ایک مدت سے حکومتی طاقت کے سامنے بے بس تھی۔ یہ طاقت مزدوروں‘ محنت کشوں اور کسانوں کی ہے۔ اپوزیشن اب اس طاقت کو متحرک کرنے کی راہیںڈھونڈ رہی ہے۔ انہیں حالات محنت کشوں کی تحریک کے لئے بہتر نظر آ رہے ہیں اور اپوزیشن کی سیاسی قیادت یہ کوشش کرے گی کہ آگے بڑھ کر محنت کشوں کی تحریک کا حصہ بن کر‘ ان کی طاقت کو منظم اور متحرک کیا جائے۔ مزدورلیڈر بھی بورژوا پارٹیوں کے دائو پیچ کو اچھی طرح سمجھ چکے ہیں۔ وہ بورژوا سیاسی پارٹیوں کے دائو پیچ کے تلخ تجربوں سے گزرے ہیں اور وہ آسانی سے اقتدار کے کھلاڑیوں کے جھانسے میں نہیں آئیں گے۔ پاکستان ایک ایسے بحران کی طرف بڑھ رہا ہے‘ جس پر قابو پانا نظام میں موجود تمام سیاسی کھلاڑیوں کے بس کی بات نہیں ہو گی۔ ایسا وقت آ رہا ہے کہ سیاسی جماعتوں کی قیادتیں‘ محنت کشوں کی ابھرتی ہوئی طوفانی لہروں پر سوار ہونے کی کوشش کریں۔ مگر اقتدار کے کھلاڑی آگے بڑھنے سے ہرحال میں روکنے کی کوشش کریں گے۔ یہ کشمکش تھوڑے ہی عرصے میں سامنے آئے گی۔ہمیں اس بدلتی ہوئی صورتحال کو سمجھنے کے لئے امریکی صدر کی یہ پیش گوئی سامنے رکھنا پڑے گی کہ ”آنے والے عشروں میں افغانستان اور پاکستان عدم استحکام کا شکار رہیں گے۔‘‘ سیاسی اور مالیاتی بحرانوں میں مبتلا قومیں‘ عالمی کھلاڑیوں کے دائو پیچ سے بچنے کی صلاحیت سے محروم ہونے لگتی ہیں۔شاید اسی وجہ سے اوباما نے ہمیں افغانستان کی صف میں رکھ کر دیکھا ہو؟