ہُن کی کریئے۔۔؟….اجمل جامی
یہ وہ سوال ہے جو مسلم لیگ ن کے اراکین اسمبلی اب برملا پوچھتے ہیں۔ تجزیہ کاروں سے، صحافیوں سے، بڑے بوڑھوں سے اور پارٹی کے سینئر رہنمائوں سے۔ انہیں تاحال تسلی بخش جواب نہیں مل پار ہا۔ پارٹی انہیں مطمئن نہیں کر پارہی اور قیادت انہیں مستقبل کا زائچہ دکھانے سے قاصر ہو چکی کہ عہد و پیمان باندھا جاوے تو آخر کس سہارے؟ نواز شریف طبل جنگ بجا چکے۔ شہباز شریف بحیثیت پارٹی صدر اور شاہد خاقان بطور وزیر اعظم’ڈیمیج کنٹرول’ (Damage Control)کرنے کی اپنی سی کوشش میں مکمل طور پر ناکام ہو چکے۔ پارلیمانی پارٹی اجلاس میں اراکین قومی اسمبلی کے تحفظات سننے کے بعد چھوٹے میاں کہتے ہیں کہ وہ بڑے بھائی صاحب کو پیار سے سمجھانے کی کوشش کریں گے اور آنے والے دنوں میں ان کا لب وہ لہجہ نرم ہو گا۔پارٹی کے مخلص ترین اراکین بھی تذبذب اور کنفیوژن کا شکار ہیں۔ آزاد یا دیگر جماعتوں سے آئے لوگ البتہ کہتے ہیں کہ معاملہ آسان ہو گیا اور وہ جن کے لئے پارٹی چھوڑنا مشکل تھا، کہتے ہیں کہ لیجئے؛ مشکل آسان ہوئی۔ فائلیں کھلیں گی نہ نیب آئے گی۔
ایسے میں سوال یہ پوچھا جا تا ہے کہ نواز شریف نے ممبئی حملوں بارے بیان دینے سے پہلے پارٹی کا بھی نہ سوچا؟ اچھے خاصے جلسے کر رہے تھے، ایک خاص نوعیت کا ‘مومینٹم’ بھی ان کی سیاسی سرگرمیوں میں دیکھا جا رہا تھا، لیکن ایک بیان نے پارٹی کو کُھڈے لائن لگا کر رکھ دیا۔ سادہ سی بات ہے، وہ اقتدار سے باہر ہو چکے، نا اہل ہو چکے، ایوان اقتدار میں دوبارہ آنا ان کے لئے شاید دیوانے کا خواب ہو۔ ہم تو ڈوبے ہیں صنم کے مصداق موصوف نے طے کر لیا کہ ‘نظریہ’ انڈیلنے کا وقت ہوا چاہتا ہے۔ سینہ کھول دیا جائے۔ ایسے میں ان کے قریبی حلقے دلیل گھڑتے ہیں کہ اس کے علاوہ ان کے پاس آپشن ہی کیا تھی؟ اور پھر یہ کہ پارٹی کا کیا ہے، پارٹی ‘گوز’ آن۔ لاکھوں نہ سہی، ہزاروں نہ سہی، سینکڑوں نہ سہی، درجنوں ہی سہی، بیس تیس با اثر افراد بھی اگر ہمارے ساتھ راگ الاپیں، تو ہمارا مقصد پورا ہوتار ہے گا۔ پلان توبین الاقوامی سرکل کو متوجہ کرتے ہوئے مقتدر حلقوں کو بیک فٹ پر لا کر اپنی پِچ پر کھِلانا ہے، لیکن وہ یہ بھول گئے کہ رات طویل بھی ہو جائے تو علی الصبح پارٹی اوور ہو جاتی ہے۔ پارٹی کو رات کے اندھیرے ہی جاری رکھ سکتے ہیں۔ پو پھوٹتے ہی شرکا اپنی باقیات اٹھاتے ہوئے کھسک لیتے ہیں۔ پو پھوٹ رہی ہے۔ شرکا رات بھر کے ہنگامے کے بعد چل دینے کو تیار ہیں۔
ابھی چند روز پہلے چکوال سے بااثر سیاستدان سردار غلام عباس نے ن لیگ چھوڑ دی، یہ بھی ٹکٹ کے مسئلے پر عاجز آچکے تھے، موقع نہیں مل رہا تھا، اب نواز شریف کا بیان ان کی پرواز کا ایندھن بنا۔ سردار صاحب ایک پریس کانفرنس میں فرما رہے تھے کہ انتخابی مہم میں ان کے لئے نواز شریف کے بیان کا دفاع کرنا نا ممکن ہے لہٰذا وہ ن لیگ سے راہیں جدا کرتے ہوئے آزاد گروپ کی حیثیت اختیار کر رہے ہیں۔ یہ وہی غلام عباس ہیں جو بلدیاتی انتخابات میں آزاد حیثیت سے چکوال سے بائیس بلدیاتی نمائندے منتخب کروانے میں کامیاب رہے۔ اور اب فیصل آباد سے کرنل (ر) غلام رسول ساہی نے پارٹی قیادت کے نام استعفیٰ میں لکھا ہے کہ، ”سابق وزیراعظم نوازشریف کے ممبئی حملوں پر متنازع بیان اور قومی سلامتی کمیٹی کے موقف کو مسترد کرنے کے بعد وہ ن لیگ کی اپنی نشست سے مستعفی ہو رہے ہیں۔ اور یہ کہ وہ مسلم لیگ ن کی موجودہ صورتحال کے پیش نظر پارٹی کے ساتھ نہیں چل سکتے۔”
ادھر جھنگ اور اطراف سے’ الیکٹیبلز’ (Electables)کا ایک اور بڑا ریلہ تحریک انصاف میں شامل ہو ا ہے، رکن قومی اسمبلی غلام بی بی بھروانہ اور صاحبزادہ محمد نذیر سلطان کے ہمراہ کرنل غلام عباسی قریشی، مہر محمد اسلم بھروانہ، میاں مظفر محمود، رانا شہباز احمد خان، میاں آصف کھاٹیہ، غلام احمد خان گاڈی، شیخ محمد یعقوب اور مہر سلطا ن سکندر تحریک انصاف کا علم تھام چکے ہیں۔ اس سے پہلے مخدوم خسرو بختیار کا جنوبی پنجاب صوبہ محاذ لگ بھگ بیس اراکین قومی و صوبائی اسمبلی کا گروپ لئے تحریک انصاف میں ضم ہو ا تھا۔ تحریک انصاف کے دوست بتاتے ہیں کہ اب تک پچاس لیگی (موجودہ اور سابق اراکین اسمبلی) انصافین قرار پائے ہیں۔
خانیوال سے رضا حیات ہراج اور میاں مظہر ایسے رکن قومی اسمبلی بھی کئی دن ہوئے نواز لیگ سے منہ موڑ چکے۔ گوجرانوالہ سے میاں طارق محمود اور فیصل آباد سے رکن قومی اسمبلی نثار جٹ ، ننکانہ صاحب کے نوجوان رکن قومی اسمبلی بلال ورک، رمیش کمار، اور کامونکی کے رانا عمر نذیر کا شمار بھی ان لیگیوں میں سے ہے جو نواز شریف کے بیانیے سے اختلاف کرتے ہوئے بنی گالا کی منڈیر پر منڈلا رہے ہیں۔
نقطہ دان زیر زبر لگاتے ہوئے یوں بھی گویا ہوتے ہیں کہ صاحب دیکھئے ناں، یہ تو وہی لوگ ہیں جو ہر حکومت کے ساتھ ہو لیتے ہیں، اقتدار میں رہنے کے لئے انتخاب لڑتے ہیں۔ اقتدار ان کی خورا ک ہے، وغیرہ وغیرہ۔ مسلم لیگ کے یہ حامی مگر بھول جاتے ہیں کہ اڑتالیس ق لیگی اراکین اسمبلی ان کے ہاں بھی اقتدار کا مزہ چکھنے آئے جنہیں بانہیں کھول کر خوش آمدید کہا گیا، ان میں آدھے تو کابینہ میں رہنے کے ثمرات بھی لوٹ چکے۔ تب یہ اڑتالیس دانے با ضمیر کہلائے، انہیں لوٹے کہنے والوں کی آوازیں سننے کو کوئی تیار نہ تھا۔ آج انہی میں سے اکثر اگر پھر کسی اور منزل کے راہی ہیں تو اب یہ لوٹے قرار پا رہے ہیں۔ دو ہزار دو ہو، آٹھ ہو یا تیرہ، ماضی قریب کے ان تینوں انتخابات کے دوران موسمی پرندوں کی ہجرت دیکھنے کو ملی۔
کہا گیا کہ یہ تو آزاد، الیکٹیبلز، لوٹے اور جنوبی پنجاب کے پنچھی ہیں جو اڑے جا رہے ہیں، جی ٹی روڈ اور وسطی پنجاب کہیں نہیں جائے گا، گوجرانوالہ، فیصل آباد، شیخوپورہ، ننکانہ صاحب، چکوال اور جہلم کی مثالیں تو دے چکا۔ ہاں اگر وسطی پنجاب سے مراد لاہور اور اس کے اطراف میں واقع دو چار اضلاع ہیں تو اس بھاری بھرکم دلیل کو زائل کرنے کے کارن کچھ نقطوں کو آپس میں ملا دیکھتے ہیں: ”یعنی پارٹی سے بے وفائی کا طعنہ پائوں میں زنجیر بنا رہا۔ ملک سے بے وفائی کی بو آرہی ہے،پارٹی کسی بھی اہم مدعے پر آن بورڈ نہیں، ہر ہفتے لاہور آتے ہیں، شہباز صاحب سے پوچھتے ہیں، ”میاں صاحب کوئی گل بنی یا نئیں؟ ” شہباز صاحب حسب معمول وہی پرانی گولی دیتے ہیں۔ پہلے ختم نبوت کے مدعے پر لگا کہ عوام میں جانا شاید رسکی ہو، اب ممبئی حملوں پر بیان نے ایک دوسرے گروہ کو بھی جان کادشمن بنا دیا۔ آپ ہی بتائیے اب ایسے میں پارٹی سے بے وفائی کا طعنہ بھلا کیا معنی رکھتا ہے۔”
یہ استفسار نما تبصرہ شہر لاہور اور اس کے نواح میں واقع ایک ضلع کے چار ایم پی ایز اور دو ایم این ایز گلبرگ کے ایک نسبتاً گمنام چائے کدہ میں بیٹھے خاکسار سے کر رہے تھے۔ پارٹی چھوڑی جائے یا رُکا جائے، یہ سوال تو ‘آبسیلیٹ’ ہو چکا۔ سوال یہ تھا کہ تحریک انصاف میں شامل ہوں یا آزاد لڑیں۔؟تُسی کُج روشنی پاو کہ ہُن کی کرئیے۔۔؟ ہم فقط یہی کہہ پائے کہ فی الحال شکر والی کڑک ٹرک چائے پیجئے۔ چند روز مزید انتظار فر ما لیجئے، آپ کی راہنمائی ‘فطری’ انداز میں ہو جائے گی۔
نواز شریف کا بیانیہ البتہ واضح ہے، وہ اپنے ایک ایک شبد پر نہ صرف قائم ہیں بلکہ مزید راز افشا کرنے کو بھی تیار ہیں۔ باقی پوری پارٹی اگر مگر اور چونکہ چنانچہ جیسے ہومیوپیتھک زبانی ٹوٹکوں سے کام چلا رہی ہے۔ انہیں آپریشن تھیٹر یا کسی مناسب ورکشاپ میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنا ہوگا۔کپتان چند برسوں بعد موسمی پرندوں کی ہجرت ایسے صدمے سے دوچار نہیں ہونا چاہتے تو ایک ترکیب لڑا دیکھیں، محض انتخابات کے ہنگام پارٹی وفاداریاں بدل کر تحریک انصاف میں شامل ہونے والوں کو ٹکٹ نہ دیں۔ یہ ادھر کے رہیں گے نہ ادھر کے۔ وَنس فار آل، مثال بن جائیں گے۔