ہیرو کا المیہ….خورشید ندیم
گمان اور رومان کا کوئی پردہ،اگر باقی تھا تو اب چاک ہوا۔تحریکِ انصاف اب ویسی ہی ایک سیاسی جماعت ہے جیسی کوئی دوسری ہو سکتی ہے۔
”سیاست کے سینے میں دل نہیں ہوتا‘‘۔ابوالکلام کی زبان سے نکلا یہ جملہ برصغیر کی فضاؤں میں کچھ ایسے گھل گیا جیسے غالب کا کوئی مصرع۔سیاست جب کسی حادثے سے گزرتی ہے تو یہ جملہ کہیں سے اڑتا ہوا آتا اور ذہن سے چپک جاتا ہے۔ مولانا آزاد ایک صاحبِ دل آدمی تھے۔ سیاسی رومان ٹوٹا تو پھٹ پڑے۔ دلی جامع مسجد کے میناروں نے ایک درماندہ رہرو کی صدائے درد ناک کو سنا اور پھر تاریخ کا حصہ بنا دیا۔ ان کی آواز ہمیشہ کے لیے محفوظ ہو گئی۔ آج بھی سنی جا سکتی ہے۔ ان کی زندگی سے بڑھ کر، ان کے اس جملے کی بہتر شرح نہیں ہو سکتی۔ وہ یہ جانتے ہوئے بھی سیاست سے دل لگا بیٹھے کہ ان کے محبوب کا سینہ تو دل سے خالی ہے۔
آج رمضان کی پچیس تاریخ ہے جب میں یہ سطور لکھنے بیٹھا ہوں۔ جھوٹ تو کبھی نہیں بولنا چاہیے مگر ایسا کم نصیب کون ہو گا جو ان دنوں بھی اس سے باز نہ آئے۔ واقعہ یہ ہے کہ عمران خان کا یہ زوال میرے لیے ذاتی صدمہ ہے۔ گزشتہ پانچ سالوں میں ان کا اخلاقی وجود برف کی سل ثابت ہوا۔ ذرا سیاسی درجہ حرارت بڑھا تو پگھلنے لگا۔ محض پانچ سال میں پوری طرح تحلیل ہو گیا۔
تحریکِ انصاف کے رومان پسند کارکنوں کا دکھ میں سمجھ سکتا ہوں۔ اس رومان کی خاطر مجھ سمیت کتنے لوگوں کو انہوں نے گالیاں دیں اور گناہِ بے لذت کے مرتکب ہوئے۔کاش وہ پیپلز پارٹی اور جماعت اسلامی، بلکہ اس سے پہلے مسلم لیگ اور خاکسار تحریک کے کسی بچے کھچے کارکن سے مل لیتے۔ تحریکِ پاکستان ہی کی کسی یادگار سے رابطہ کرتے۔ انہیں معلوم ہوتا کہ رومان سے سیاست کا کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ سطحِ زمین پر پھیلی حقیقتیں اتنی بے رحم ہیں کہ کوئی ان سے صرفِ نظر نہیں کر سکتا۔ تحریکِ انصاف کا ‘نظریاتی کارکن‘ اگر اس کا ادراک کرتا تو آج یوں سراپا احتجاج نہ ہو تا۔
تحریکِ انصاف کے پاس دو ہی راستے تھے: اپنے رومان کی حفاظت یا انتخابات میں کامیابی۔ اس نے دوسرے راستے کا انتخاب کیا‘ اور اسے یہی کرنا چاہیے تھا۔ انتخابات جیتنے ہی کے لیے لڑے جاتے ہیں۔ اس بات کو سمجھ لینے کے بعد، تحریک انصاف انہی امیدواروں کا انتخاب کر سکتی تھی جو اس نے کیا۔ اپنے دعوووں کے برعکس، امیدواروں کی اکثریت وہی ہے جو بدلتے موسموں میں نئے آشیانے تلاش کرتی ہے اور اکثر کامیاب رہتی ہے۔ مسئلہ یہ نہیں کہ ایسے لوگوں کا انتخاب کیوں کیا گیا، مسئلہ کارکنوں اور عوام کو جھوٹے سپنے دکھانا ہے۔ اس سے فکر و عمل کا وہ تضاد جنم لیتا ہے جس کی تاویل نہیں کی جا سکتی۔
تحریکِ انصاف بدقسمتی سے اپنے کسی دعوے کا پاس نہ کر سکی۔ امیدواروں میں بنیادی کارکن بس اتنے ہی ہیں جتنا آٹے میں نمک ہوتا ہے۔ یہی تناسب ‘یوتھ‘ کا بھی ہے۔ حسنِ سیرت یا پھر اخلاص ایسی جنس نہیں جس کی اس بازار میں کوئی قدر ہو۔ سیاست اپنی تمام تر بے رحمی کے ساتھ نمودار ہوئی ہے۔
جو لوگ اب بھی تحریکِ انصاف کے ان فیصلوں کے اخلاقی دفاع پر بضد ہیں، ان کے پاس جوابی طعنے کے سوا کوئی دلیل نہیں: ”آخر ن لیگ بھی تو یہی کرتی ہے‘‘۔ جی ہاں مگر ن لیگ نے کب ان معنوں میں ‘نظریاتی‘ ہونے کا دعویٰ کیا ہے جس مفہوم میں تحریکِ انصاف خود کو نظریاتی کہتی تھی۔ ن لیگ نے ہمیشہ زمینی حقائق کی سیاست کی ہے۔ اس میں بھی ٹکٹوں کے مسئلے پر اختلاف ہو گا مگر اس کی بنیاد دو سیاسی حریفوں کی کشمکش ہو گی۔ ن لیگ کا کارکن جانتا ہے کہ سیاست کس چڑیا کا نام ہے۔ اس نے اپنی قیادت کے ساتھ کوئی رومان نہیں پالا۔ پھر یہ کہ ایسی دلیل ن لیگ کے کسی معترض کا منہ تو بند کر سکتی ہے، عام آدمی کو کیسے مطمئن کر ے گی؟
گمان اور رومان کے اس خاتمہ بالخیر کے بعد، میں سوچتا ہوں کہ عمران خان نے آخر کیا پایا؟ ان کی منزل کیا ہے؟ عمران کی سیاست سامنے ہے۔ پاکستان کے ‘دوست میڈیا‘ کے سامنے تو وہ بڑے بڑے دعوے کر سکتے ہیں کہ انہیں کم ہی کسی جاندار سوال کا سامنا ہوتا ہے‘ لیکن بی بی سی کے ‘ہارڈ ٹاک‘ میں وہ جس طرح بے دست و پا دکھائی دیے، اس سے یہ سمجھنا مشکل نہیں کہ ان کے پاس کہنے کو کوئی مثبت بات موجود نہیں۔ ان کی ذاتی زندگی جس طرح زیرِ بحث ہے، وہ بھی یقیناً ان کے لیے خوش گوار نہیں۔ ہر قدر گنوانے اور اپنی نجی زندگی کو یوں بازیچۂ اطفال بنانے کے بعد، اگر انہوں نے اقتدار حاصل کر لیا تو کیا اسے کامیابی کہا جا سکتا ہے؟
ایک عمران خان وہ تھا جو پوری قوم کا ہیرو تھا۔ ایک یہ ہے کہ اقتدار کی بے لگام خواہش نے اس کے گرد تنازعات کا جال بُن دیا ہے۔ اس راہ میں انہوں نے اپنے آپ کو گنوا دیا ہے۔ میرا ذاتی دکھ یہی ہے۔ قیامِ پاکستان کے بعد ہم قحط الرجال کا شکار ہوئے۔ قدرت نے رجال کے باب میں ہمارے ساتھ زیادہ سخاوت کا مظاہرہ نہیں کیا۔ یہ بڑے لوگوں کی ناقدری کی سزا تھی یا اللہ کی سنت، میں کچھ بتا نہیں سکتا۔ بس یہ کہہ سکتا ہوں کہ ہماری صفیں ایسے لوگوں سے کم و بیش خالی ہو گئیں جن پر ہم فخر کر سکتے تھے اور جنہیں غیر متنازعہ کہہ سکتے تھے۔ انگلیوں پر گنے جانے والے چند لوگوں میں ایک عمران خان بھی تھے۔ انہوں نے جس بے رحمی کے ساتھ، اس قوم کو ایک ہیرو سے محروم کیا، یہ میرے لیے ایک ذاتی دکھ ہے۔
کیا عمران خان اندر سے ایسے ہی تھے؟ کیا لوگوں نے ان سے بے جا توقعات باندھ لی تھیں؟ ایسے سوالات کے حتمی جواب نہیں ہوتے کہ انسانی شخصیت مسلسل ارتقا کا شکار رہتی ہے۔ ایک بات البتہ واضح ہے۔ اللہ نے یہ دنیا آزمائش کے قانون پر بنائی ہے۔ اس نے دیکھنا ہے کہ احسن عمل کرنے والا کون ہے؟ اس کے لیے اس نے ارادے اور عمل دونوں کا اختیار انسان کو دے رکھا ہے۔ اس کے بغیر آزمائش کا قانون بے معنی ہوتا۔ اس قانون کے تحت آدمی جانتا ہے کہ اس کی کمزوری کیا ہے۔ اگر وہ اس کمزوری کے باب میں اپنے پروردگار کی حدود کا لحاظ نہیں رکھ سکتا تو پھر وہ عام آدمی ہے۔ جو خود کو نہیں بدل سکتا، یہ طے ہے کہ وہ سماج کو بھی بدل نہیں سکتا۔ یہی پیمانہ ہے جس پر عمران خان کو بھی پرکھنا چاہیے۔
تحریکِ انصاف اب ایک عام سیاسی جماعت ہے۔ تحریکِ انصاف کے کارکنوں کو جو صدمہ پہنچا، اس کا علاج احتجاج نہیں، حقیقت پسندی ہے۔ ان کو سمجھنا ہے کہ سیاست کا کوئی تعلق جذبات اور رومان سے نہیں ہوتا۔ انہیں صرف اس سوال پر بھی غور کرنا ہو گا کہ ان کی جماعت نے انتخابات جیتنے ہیں یا ہارنے ہیں؟ اگر انہیں جیتنا ہیں تو پھر ان کی قیادت وہی فیصلے کر سکتی تھی جو اس نے کیے۔ قیادت کا یہ قصور اپنی جگہ کہ اس نے جھوٹے سپنے دکھائے‘ مگر کچھ قصور سپنے دیکھنے والوں کا بھی تو ہے۔
رہے وہ تجزیہ کار جو آج بھی عمران خان کے حق میں کوئی اخلاقی دلیل تلاش کر رہے ہیں، انہیں بھی جاننا چاہیے کہ اب کھمبا نوچنے کا کوئی فائدہ نہیں۔ عمران خان کو بہتر ثابت کرنے کے لیے انہیں کوئی سیاسی دلیل دھونڈنا ہو گی۔ اب اخلاقی دلائل تراشنا خود کو مزید مضحکہ خیز بنانا ہے۔
مجھے ذاتی طور پر اس کا افسوس رہے گا کہ ہمارا ایک اور ہیرو سیاست کی بھینٹ چڑھ گیا۔ کاش ہم اس کو بچا سکتے۔ کاش وہ بھی اپنی شخصی کمزوریوں پر قابو پا سکتا۔ میری ساری تنقید اسی خسارے سے بچنے کے لیے تھی۔ شاید ہی رمضان کے آخری دنوں میں کوئی جھوٹ بولنے کی جسارت کر سکے۔ ان مبار ک لمحوں میں، میں عمران خان کے لیے دعا گو ہیں۔
تری دعا ہے کہ ہو تیری آرزو پوری
مری دعا ہے تری آرزو بدل جائے