ہے شباب اپنے لہو کی آگ میں جلنے کا نام…ھارون الرشید
طلبہ و طالبات سے آخری بات یہ کہی کہ جوانی میں جس نے ریاضت نہ کی‘ زندگی اس کی کبھی ثمربار نہ ہو گی۔
ہے شباب اپنے لہو کی آگ میں جلنے کا نام
سخت کوشی سے ہے تلخِ زندگانی انگبیں
یونیورسٹی آف سنٹرل پنجاب میں اڑھائی تین گھنٹے بتا کے واپس آیا تو چاروں طرف پھول کھل رہے تھے۔
چلتے ہو تو چمن کو چلیے کہتے ہیں کہ بہاراں ہے
پات ہرے ہیں‘ پھول کھلے ہیں‘ کم کم باد و باراں ہے
ایک اچھی تحریر کیسے لکھی جاتی ہے۔ یہ تھا موضوع اور اس پر ایاز امیر نے ایسی گفتگو کی کہ چراغاں سا ہو گیا۔ یہ تقریر ریکارڈ کی جانی چاہیے تھی۔ انگریزی ادب کی تاریخ اس کمال اور چابک دستی سے انہوں نے دہرائی کہ سننے والے عش عش کر اٹھے۔ درویش یاد آیا: کاش کہ لوگ جانتے نشاط حصول علم ہی میں ہوتی ہے۔ چرچل کا انہوں نے ذکر کیا کہ نصابی تعلیم میں ناقص تھا۔ مشکل سے او لیول کا امتحان پاس کر سکا۔ والدہ کے رسوخ کی بنا پر سینڈھرسٹ میں داخل ہوا۔ مگر اسی پر ماں نے اکتفا نہ کیا۔ اپنے فرزند کی تربیت جاری رکھی۔ چن چن کر اچھی کتابیں اسے بھیجتی رہی۔ شیکسپیئر کے اکثر ڈرامے اس نے ازبر کر لیے اور بعض دوسرے ممتاز ادیبوں کی تحریریں بھی۔ رفتہ رفتہ وہ ایک عظیم خطیب اور نثر نگار ہو گئے۔ طلبہ اور طالبات نے انہماک سے انہیں سنا‘ کرید کرید کر سوالات کیے۔
بساط بھر ناچیز نے بھی بات کی۔ ایاز صاحب انگریزی ادب کے شناور ہیں۔ اس طالب علم نے خود کو اردو ادب کے حوالے تک محدود نہ رکھا‘ تراجم کی مدد سے تھوڑا بہت جو انگریزی ادب پڑھ رکھا ہے‘ روسی‘ فارسی اور عربی بھی‘ اس کے حوالے دیئے۔ ایاز صاحب نے مضمون کو پانی کر دیا تھا۔ کہا کہ اچھی تحریر کے لیے پیہم مطالعہ درکار ہوتا ہے اور لکھتے رہنے کی لگن۔
خاکسار نے گزارش کی کہ فصاحت اللہ تعالیٰ کے انعامات میں سے ایک انعام ہے۔ سبھی فنون اور پیشے محترم ہیں۔ اللہ کی اس وسیع و عریض کائنات کو حاکم اور جنرل درکار ہیں تو انجینئر اور ڈاکٹر بھی‘ اساتذہ‘ مصور اور موسیقار بھی مگر قلم اس کی عظیم ترین نعمتوں میں سے ایک ہے۔ قادرالکلام وہی ہو سکتا ہے‘ جس کا ذخیرۂ الفاظ وسیع ہو۔ ہر روز کچھ نہ کچھ پڑھنا‘ کم از کم پچاس ساٹھ صفحات اور وہ بھی منتخب کتابوں سے۔ نئی نسل کے لکھنے والے ادراک نہیں کرتے کہ لفظ کا بہترین استعمال شاعر کرتے ہیں یا افسانہ اور ناول نگار۔ دو مصرعوں میں شاعر کبھی ایسی بات کہتا ہے‘ نثر نگار جو ہزار الفاظ میں بیان نہ کر سکے‘ مثال کے طور پر میر تقی میرؔ
موسم آیا تو نخلِ دار پہ میرؔ
سرِ منصور ہی کا بار آیا
ایاز صاحب کے بعد‘ یہ نکتہ بھی دہرایا۔ اسداللہ خان غالب کے خطوط‘ جس نے پڑھے نہیں‘ اس کی شاعری کا مطالعہ نہ کیا‘ اردو زبان کے جمال تک اس کی رسائی نہ ہو گی۔ وہ نکتہ جو ایک طویل مقالے میں بھی شاید واضح نہ ہو سکے‘ اس کے شعر میں آشکار ہے۔
ہم مواحد ہیں‘ ہمارا کیش ہے ترک رسوم
ملتیں جب مٹ گئیں اجزائے ایماں ہو گئیں
یہ بھی گزارش کی کہ خیالات کو ایک ترتیب درکار ہوتی ہے۔ حسن کو سادگی میں پرکاری درکار ہوتی ہے۔ حافظِ شیراز سے لے کر بعض اعتبار سے‘ تاریخ کے سب سے بڑے شاعر اقبالؔ تک‘ سبھی نے واعظ کی ریا کاری پہ بات کی‘ میرؔ صاحب کے مگر کیا کہنے:
جامۂِ احرامِ زاہد پر نہ جا
تھا حرم میں لیک نامحرم رہا
طلبہ و طالبات سے عرض کیا کہ زندگی کی دشواریوں سے گھبراتے نہیں۔ تکلیف اگر کوئی بری چیز ہوتی تو اللہ کے محبوب ترین بندوں‘ پیغمبروں کو کبھی نہ پہنچتی۔ اللہ نے انسان کو آزمائش ہی کے لیے پیدا کیا ہے۔ اسی میں ان کا امتحان ہے اور اسی سے ان کی استعداد کار بالا ہوتی ہے‘ حتیٰ کہ رفتہ رفتہ صیقل ہو کر بے پناہ ہو سکتی ہے۔ مثلاً اقبالؔ ہی‘ کبھی وہ اس طرح کی شاعری کیا کرتے:
اے ہمالہ اے فصیلِ کشورِ ہندوستاں
تیری پیشانی کو جھک کر چومتا ہے آسماں
پھر ان موضوعات پر وہ کلام کرنے لگے‘ شعر کی تاریخ‘ جس کی کوئی دوسری نظیر پیش نہیں کرتی۔ کرۂ خاک کی پستیوں سے وہ اوپر اٹھے اور انہوں نے آسمان سے زمین کو دیکھنا شروع کیا۔ رفتہ رفتہ‘ بتدریج وہ ایک علمی مجدد کے مقام پر فائز ہو گئے‘ جن کے افکار کی بازگشت دائم رہے گی۔
یہ نکتہ واضح کرنے کی اپنی سی کوشش بھی کی کہ تمام دوسری مخلوقات کے مقابلے میں انسانی عظمت‘ امانتِ عقل و علم میں پوشیدہ ہے۔ اللہ نے عقل کو پیدا کیا تو اس پہ ناز فرمایا۔ ارشاد کیا کہ آج کے بعد جو بھی کسی کو دوں گا‘ تیرے طفیل دوں گا اور جو بھی کسی سے لوں گا‘ تیری وجہ سے۔ فکر و تدبر سے عاری‘ اندھی تقلید کی عادی مخلوق‘ خالق کو اس قدر ناپسند ہے کہ ان سے اظہارِ بیزاری کرتا ہے۔ قرآن کریم کی ایک آیت کا مفہوم یہ ہے کہ سوچے سمجھے بغیر‘ جو لوگ اللہ کی آیات پہ گرتے ہیں‘ وہ جانوروں سے بھی بدتر ہیں۔
خاندانی رجحانات پہ مت جائیے۔ واعظوں پہ مت جائیے۔ ایک جذباتی ہیجان کے ساتھ اپنے پیدائشی مسلک کا دفاع کرتے رہنا‘ تعصب کا مظہر ہے۔ مسلم تاریخ کے عظیم ترین سکالرز میں سے ایک‘ امام غزالیؒ کی زندگی بدل ڈالنے والی ساعت وہ تھی‘ اپنے آپ سے جب انہوں نے یہ سوال کیا: ایسا کیوں ہے کہ ایک حنفی‘ شافعی‘ مالکی اور حنابلہ خاندان میں پیدا ہونے والا‘ ہمیشہ اسی راہ پہ کیوں چلا کرتا ہے؟ اس سوال کی شدت ایسی تھی کہ غزالی کا نطق بند ہو گیا‘ حتیٰ کہ وہ ایک جملہ ادا کرنے کے قابل بھی نہ رہے۔ دنیا کی سب سے بڑی یونیورسٹی کے سب سے معتبر استاد نے‘ تب اپنے ماحول اور گھر بار کو الوداع کہنے کا فیصلہ کیا۔ روپیہ ان کے پاس فراواں تھا۔ خاندان کو سونپا اور نامعلوم منزلوں کی طرف روانہ ہو گئے۔ دس برس کے بعد لوٹ کر آئے تو کبھی کسی کو یہ نہ بتایا کہ کس حال سے گزرے۔ ہم یہ جانتے ہیں کہ دمشق کی مسجد امیہ میں کچھ دن چلّہ کش رہے۔ مگر کبھی کسی نے پوچھا تو فرمایا: مضیٰ ما مضیٰ‘ جو بیت گیا سو بیت گیا۔
عربی گھوڑے پر سوار‘ پانچ سو دینار کا کرتہ پہنے‘ بغداد سے نکلے تھے۔ لوٹ کر آئے تو خچر پہ تھے اور دو دینار کی قمیض پہنے۔ جلد ہی مگر انہیں امام کہا جانے لگا۔ عمر خیام سمیت اس عہد کے اہل مرتبہ‘ ان کے سامنے بچے نظر آتے۔ یہ تعصبات‘ زعمِ تقویٰ اور خبطِ عظمت سے نجات کا ثمر تھا۔ ایک کے بعد دوسرے موضوع پر انہوں نے قلم اٹھایا اور اجالا کرتے چلے گئے۔
مسلم تاریخ نے ان سے بڑے عالم بھی جنے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ ”تلبیسِ ابلیس‘‘ کے مصنف ابن جوزی سے متاثر ہوئے۔ ابن جوزی گمراہ کرنے والے نفس اور ابلیس کے حربوں پہ ایک طرح سے حرفِ آخر ہے؛ اگرچہ اس موضوع پر کشف المحجوب سے بہتر کتاب شاید کوئی نہ ہو۔ مگر جو سلاست و سادگی‘ جو یکسوئی‘ روانی اور خلوص تصانیفِ غزالی کے ایک ایک ورق میں موجزن ہے‘ کم ہی اس کی کوئی مثل ہو گی۔
ایمان والے خطرے میں ہیں‘ اگر علم سے محروم ہوں
اہلِ علم خطرے میں ہوں گے‘ اگر خلوص سے خالی ہوں
اہلِ خلوص کو خطرہ لاحق رہے گا‘ اگر انکسار نہ رکھتے ہوں
علم کی دنیا میں ایک صدی تک ان کا پرچم اس طرح لہرایا کہ کوئی دوسرا ان کا ہمسر نہ تھا۔
طلبہ و طالبات سے آخری بات یہ کہی کہ جوانی میں جس نے ریاضت نہ کی‘ زندگی اس کی کبھی ثمربار نہ ہو گی۔
ہے شباب اپنے لہو کی آگ میں جلنے کا نام
سخت کوشی سے ہے تلخِ زندگانی انگبیں