یاد آ کر اس نگر میں حوصلہ دیتا ہے تو….ھارون الرشید
کبھی اس سرزمین پہ علم کا آفتاب بھی طلوع ہوگا؟ توازن اعتدال او رفکرونظر کا؟ اقبال نے کہا تھا: بے یقینی غلامی سے بدتر ہے اور اس ذاتِ قدیم‘ حی ّ و قیوم سے مخاطب ہو کر شاعر نے یہ کہا تھا۔
شامِ شہرِ ہول میں شمعیں جلا دیتا ہے تو
یاد آکر اس نگر میں حوصلہ دیتا ہے تو
معاشرے کا خمیر‘ اس کے ماضی سے اٹھتا ہے۔ امریکی تاریخ کیا ہے؟ غلامی‘ خون ریزی اور الحاد۔ دوسروں کا تو ذکر ہی کیا‘ آئن سٹائن نے کہا تھا: ضرور اس کا ئنات کا کوئی خالق ہے مگر میں ایک ذاتی خدا پہ یقین نہیں رکھتا۔ بہت ہی کم لوگ ہوتے ہیں‘ جو رواج اور فیشن سے اوپر اٹھ سکتے ہیں۔ ہر زمانے میں بہت ہی کم روشِ عام سے بلند ہو کر سوچ سکتے ہیں۔ اپنے والدین‘ ابتدائی اساتذہ اور ماحول کے اثرات سے اوپر اٹھ سکتے ہیں۔ساحر ؔلدھیانوی نے کہا تھا:
دنیا نے تجربات و حوادث کی شکل میں
جو کچھ مجھے دیا ہے وہ لوٹا رہا ہوں میں
ایک محدود سی مدت کے سوا ہمیشہ وہ آسودہ رہا،مگر ہمیشہ ناخوش۔ خاندان خوش حال تھا‘ پھر ممبئی کی فلمی صنعت میں جگمگایا۔ لیکن ترقی پسند تحریک نے جو سبق اسے پڑھایا تھا‘ عمر بھر ازبر رکھا۔ اس کی بربادی کا باعث تھاکہ حقائق نہیں زندگی پراپیگنڈے کے غبار میں بسر کی۔ ”تاج محل‘‘ اس کی مشہور نظم ہے۔
یہ چمن زار یہ جمنا کا کنارہ یہ محل
یہ منقش درودیوار یہ محراب یہ طاق
اک شہنشاہ نے دولت کا سہارا لے کر
ہم غریبوں کی محبت کا اڑایا ہے مذاق
تاج محل کی تعمیر ایک فقیدالمثال کارنامہ ہے‘تو دوسری طرف خود غرضی و خود پسندی کا المناک مظہر بھی۔ اربوں‘ کھربوں خلقِ خدا پہ صرف کئے ہوتے۔ سائنسی اور اخلاقی علوم کے فروغ پر‘ درماندہ اور محروم اللہ کی مخلوق پر۔ اعتراضات بجا ہیں‘ لیکن غریبوں کا مذاق؟ یہ تو کبھی شاہ جہاں کے وہم و گمان میں بھی نہ تھا۔
1970ء کے آس پاس‘ دو تین کروڑ پاکستانی سوچے سمجھے بغیر سوشلسٹ ہوگئے۔ ان میں سے اکثر کو معلوم ہی نہ تھا کہ سوشلزم کس چڑیا کا نام ہے۔ لاہور کے ایک ممتاز اخبار نویس ہوا کرتے تھے‘ ”شاہ جی!‘‘ کسی نے ان سے عرض کیا ”ہمیں بھی تو بتائیے کہ سوشلزم کیا ہے‘‘۔ بولے: بھائی میں سنی سوشلسٹ ہوں۔ سن سنا کر ایمان لایا ہوں۔سنّی‘ بریلوی اور دیوبندی‘ شیعہ اور اہل حدیث۔ ایک ایسا آدمی آج تک نہیں ملا‘ خوب سوچ سمجھ کر جس نے کوئی مسلک اختیار کیا ہو۔ گردوپیش نے جو کچھ اسے عطا کیا۔ پھر جو کچھ کسی کو سازگار ہے۔ ایسے لوگ بھی دیکھنے میں آئے ہیں‘ ٹی وی کے واعظوں پر جو جان چھڑکتے ہیں۔ اخبار نویسوں نے ان میں سے‘ جس کسی کے احوال پہ تحقیق کی‘ کانوں کو ہاتھ لگایا۔ درہم و دینار کے بندے‘ جہاد کے مبلغ‘ عملاً مگر جہاد کے منکر۔
ہوس لقمۂ تر کھا گئی لہجے کا جلال
اب کسی حرف کو حرمت نہیں ملنے والی
جگمگاتے‘ جگمگاتے ایک مولوی صاحب ہیں‘ فرمایا: معراج پہ سرکارؐ تشریف لے گئے تو کرّہ خاک کو واپس آتے‘ ستاروں اور آسمانوں کے درمیان‘ ہر فلک پہ ان کا حجامہ ہوا۔ کندھوں کے درمیان زخم لگایا جاتا‘ کچھ خون خارج ہوتا۔ سرکارؐ نے اس کی توثیق کی اور بعض روایات کے مطابق تائید بھی۔ اس موضوع پہ کوئی تحقیق ناچیز نے نہیں کی۔ اہلِ علم سے پوچھا تو انہوں نے کہا: سات آسمانوں پر سات بار حجامہ سفید جھوٹ ہے۔ ایک گھڑی ہوئی کہانی۔ اللہ کے آخری رسولؐ سے کوئی قول منسوب کرنے پر وعید بہت سخت ہے ”سقر فی النار‘‘ آگ میں ڈالا جائے گا۔ واقعہ منسوب کرنا کیا ایسی ہی جسارت نہیں؟۔
ایک شاعری ہوتی ہے‘ وہ کارِدگر ہے۔ ناصر ؔکاظمی کبھی سرگوشی کرتے کہ کربلا کے زمانے کا ایک کبوتر سیدنا حسین ابن علیؓ پر بننے والی داستان انہیں سناتا ہے۔ لاہور کے ایک ماڈرن کھرب پتی مولوی نے کمال کردیا: اپنے خاص مریدوں سے کہا: میرا شمار تابعین میں ہے۔ ختم المرسلین کے زمانے کا ایک جن زندہ ہے۔ اس سے میری ملاقات ہوئی۔ ایک حدیث اس نے مجھے سنائی۔ یہ ”حدیث‘‘ وہ سناتے بھی ہیں۔ اس جسارت پر آدمی حیرت زدہ رہ جاتا ہے۔ گمان یہ ہوتا ہے کہ یہ شخص اللہ کو مانتا ہی نہیں‘ وگرنہ ایسی بے حیائی کا ارتکاب کیسے کرتا؟ ناچیز سے ملاقات کے لیے اصرار کرتے رہے۔ عرض کیا: مجھے معاف رکھیے‘ مجھ پہ رحم کیجئے۔ وہی نہیں‘ دو اور مشہور مولانا ایسے ہیں‘ جن کی زیارت سے معذرت کرلی۔ ہری ٹائی والے ایک سابق وزیرداخلہ سے بھی۔ جھوٹ بولنے میں جس شخص کو کوئی تامل نہ ہو‘ رزق حرام سے گریز نہ ہو‘ اس سے دور رہنا چاہئے۔ شاعر نے کہا تھا۔
نکل جاتی ہو سچی بات‘ جس کے منہ سے مستی میں
فقہیہ مصلحت بیں سے وہ رندِ بادہ خوار اچھا
یہ مصلحت نہیں۔ کچھ مذہبی لوگ جرائم پیشہ ہوتے ہیں۔ اقبالؔ کو قوم نے قبول کیا، مگر ملّا کے باب میں اس کے افکار پہ غور نہ کیا۔ اقبالؔ ہی کیا‘ سیدنا علی ابن ابی طالبؓ سے لے کر‘ ابن جوزی ؒاور امام غزالیؒ تک۔ امام غزالیؒ سے شیخ ہجویرؒ اور شیخ ہجویرؒ سے خواجہ مہر علی شاہؒ تک سبھی نے دین فروش ملاّ سے خبردار کیا۔ بلھّے شاہ کی آواز زیادہ بلند تھی۔
ملّا قاضی راہ بتاون، دین بھرم دے پھیرے
ایہہ تاں ٹھگ جگت دے جھیور، لاون جال چوفیرے
رب رب کر دے بڈھے ہوگئے ملاّ پنڈت سارے
رب دا کھوج کھرا نہ لبھا سجدے کر کر ہارے
باہمی گپ شپ کے لئے‘ اخبار نویسوں کا ایک گروپ ہے‘ ”بزمِ دوستاں‘‘ اس کے برادرم جمال عبداللہ نے آج دو واقعات لکھ بھیجے ۔ صبح سویرے سے خارجیوں کا ایک گروہ در پے تھا۔ یہ واقعات پڑھے تو نکتہ پھر سے آشکار ہوا۔تازہ ہوا بہار کی دل کا ملال لے گئی۔
”اخوند کاشی مرحوم وضو میں لگے تھے۔ اتنے میں ایک صاحب نمودار ہوئے‘ فٹافٹ منہ ہاتھ پیر دھوئے اور نماز پڑھ ڈالی‘ جتنے میں اخوند کا وضو تمام ہوا۔ وہ آداب اور دعائوں کا اہتمام کرتے۔
اخوند نے پوچھا: کیا کر رہے تھے؟
”کچھ نہیں‘‘ اس نے جواب دیا۔
”کچھ بھی نہیں کیا؟‘‘
”ہاں‘ کچھ بھی نہیں‘‘۔ اس نے پھر کہا۔
اخوند: کیا تم نماز نہ پڑھ رہے تھے؟
”نہیں‘‘ اس نے کہا۔
”پھر کیا کیا تم نے؟‘‘
اپنے مالک سے میں یہ کہنے آیا تھا کہ ”میں باغی نہیں ہوں‘‘
بعد کے برسوں میں اخوند مرحوم سے جب ان کا حال پوچھا جاتا،ایک کیفیت ان پہ طاری ہو جاتی اور وہ کہتے: ”میں باغی نہیں ہوں‘‘۔
دوسرا واقعہ بھی جمال عبداللہ ہی کے قلم سے ”دودھ والے حاجی صاحب کے زہد کا چرچا ہمہ گیر تھا۔ ماہِ مبارک میں ایک سو غربا کے لئے روزانہ افطار کا اہتمام کرتے۔ ہر سال رمضان المبارک میں عمرہ کرنے بھی تشریف لے جاتے؛ اگرچہ آپ کو ناگوار تھا‘ لیکن اس کے لیے دودھ میں ذرا سا پانی بھی گوارا کرتے۔ فرماتے :حجور! اب لوگوں کی ناراضی کے لیے اللہ میاں کو تو ناراج نہیں کر سکتا‘‘۔
اللہ کے آخری رسولؐ سے پوچھا گیا: انسانوں میں سے بدترین کون ہیں؟ فرمایا: اللہ ان پر رحم کرے۔ سوال دہرایا گیا تو فرمایا: وہ جو دنیا کے لیے دین کو بیچ دیتے ہیں۔ ایسے ہی نیک بخت کے لیے خارجیوں کے ایک گروہ نے علمائے کرام پہ یلغار کی۔ پھر ایک ارب پتی ان کی مدد کو آیا۔ کچھ دیر طبیعت میں کوفت رہی‘ پھر جنید ِبغدادؒ یاد آئے اور قرآن کریم کی آیت مبارکہ: ”جاہل جب ان سے الجھنے کی کوشش کرتے ہیں‘ تو وہ (طرح دے جاتے ہیں اور) کہتے ہیں: تم پر سلامتی ہو‘‘۔ جنیدؒ کا قول بار بار نقل کیا ہے اور کرنا ہی چاہئے۔ ازل سے ایسا ہی ہوتا آیاہے اور ابد تک ایسا ہی ہوتا رہے گا۔ (باقی صفحہ 13پر)
اللہ کی کتاب میں ارشاد ہے: ”یاحسرۃ علیٰ العباد‘‘۔( اے میرے بندو تم پر افسوس)۔ فرمایا: سوچے سمجھے بغیر اللہ کی آیات پہ گرنے والے وہ لوگ جانوروں سے بھی بدتر ہیں۔
سبھی کا آدمی محاسب ہے‘ اپنا نہیں۔ اپنی ذات‘ اپنے خاندان‘ اپنے قبیلے اور اپنے مکتبِ فکر کا نہیں۔ اس بیل کی طرح آنکھوں پہ پٹی چڑھائے‘ کولہو کے گرد جو گھومتا رہتا ہے‘ انسانوں کی اکثریت بھی پٹے پٹائے راستوں پہ زندگی بتا دیتی ہے۔
پانچ کروڑ سرخ ہندیوں (Red Indians) کو امریکیوں نے ہلاک کیا تھا۔ لاکھوں‘ شاید کروڑوں کو افریقہ سے اغوا کرکے لائے۔ غلام بنانے کی خُواُن کی سرشت میں ہے۔ اس کے لیے خون بہانے کی بھی۔ الحاد ہے کہ دل پتھر کر دیتا ہے۔ انکل سام کے لیے قدرت کا انعام یہ ہے کہ اس کی ایک تہائی آبادی مسلح ہے۔ 1977ء میں میرے امریکی دوست نے کہا تھا: امریکہ کی تین چار نسلیں امارت میں پلی ہیں۔ کبھی کوئی بحران اٹھا تو یہ لوگ ڈھے پڑیں گے۔ سوویت یونین کو ہم نے بکھرتے دیکھا۔ امریکہ بہادر کا انجام بھی شاید قریب آ پہنچا۔
میں یہ سوچتا ہوں کہ ہمیں اس سے کیا حاصل؟ امریکی استعمار کے ساتھ کیا ہمیں ملاّ سے نجات بھی مل سکتی ہے؟ لبرل فاشسٹ سے بھی‘ دو عشرے قبل جو سوشلسٹ ہوا کرتا تھا؟
کبھی اس سرزمین پہ علم کا آفتاب بھی طلوع ہوگا؟ توازن اعتدال او رفکرونظر کا؟ اقبال نے کہا تھا: بے یقینی غلامی سے بدتر ہے اور اس ذاتِ قدیم‘ حی و قیوم سے مخاطب ہو کر شاعر نے یہ کہا تھا۔
شامِ شہرِ ہول میں شمعیں جلا دیتا ہے تو
یاد آکر اس نگر میں حوصلہ دیتا ہے تو