منتخب کردہ کالم

اس پر کوئی سو موٹو نہیں بنتا؟ ….رئوف طاہر

اس پر کوئی سو موٹو نہیں بنتا؟ ….رئوف طاہر

نریندر مودی کے بھارت کا انگاروں پر لوٹنا تو سمجھ میں آتا ہے‘ لیکن اپنے خان صاحب کی تلملاہٹ کیوں؟ مالدیپ نے اپنی آزادی کی 52 ویں سالگرہ پر قومی تقریبات کے لئے جنوبی ایشیا (سارک ممالک) سے کسی اور کو نہیں وزیراعظم نوازشریف کو مہمان خصوصی بنانے کا فیصلہ کیا تو یہ بلاشبہ پاکستان کے لئے ایک اعزاز تھا۔ ایک وقت تھا کہ جنوبی ایشیا کے سات ممالک کی اس تنظیم میں‘ بھارت کی رعونت اور بالادستی کے عزائم کے خلاف بنگلہ دیش سمیت سبھی ممالک پاکستان کو اپنا سہارا سمجھتے تھے۔ بنگلہ دیش میں حسینہ شیخ کی بھارت نواز حکومت کے قیام کے بعد صورتِ حال بدلنے لگی۔ گزشتہ سال سارک سربراہ کانفرنس اسلام آباد میں ہونا تھی‘ لیکن بھارت نے بنگلہ دیش اور بھوٹان کو ساتھ ملا کر اسے ناممکن بنا دیا۔ (اب افغانستان بھی سارک کا رکن ہے اور یوں بھارت کو یہاں اپنی تائید کے لئے ایک اور حامی بھی مل گیا ہے) ایسے میں سری لنکا اور مالدیپ جیسے ملکوں کی دوستی پاکستان کے لئے مزید اہم ہو گئی ہے۔
مالدیپ کی آزادی کے روز اوّل (26 جولائی 1966ء) سے پاکستان اور مالدیپ کے تعلقات دوستانہ سے بڑھ کر برادرانہ رہے ہیں۔ ہمیں یاد ہے 1980ء کی دہائی میں مالدیپ کے صدر (اب سابق) جناب مامون عبدالرزاق پاکستان آئے تو خود صدر جنرل ضیاء الحق اسلام آباد کے ہوائی اڈے پر ان کے استقبال کے لئے موجود تھے۔ معزز مہمان کے دورہ لاہور میں بھی صدر پاکستان ان کے ہمراہ تھے۔
اب وزیراعظم پاکستان کا دارالحکومت مالے میں خیرمقدم بھی بے پناہ تھا۔ مالدیپ کی سرزمین پر وزیراعظم نوازشریف کہہ رہے تھے۔ بھارت کا طرزعمل سارک کے منشور اور اس کے اہداف کے منافی ہے۔ انہوں نے گزشتہ سال اسلام آباد میں سارک سربراہ کانفرنس کے التواء کا ذکر کرتے ہوئے یاد دلایا کہ بھارت حالیہ برسوں میں چار بار اس طرح کے اقدامات اٹھا چکا ہے جو سارک کے مقاصد کے لئے سخت نقصان دہ ہیں۔
مالدیپ کے صدر عبداللہ یامین عبدالقیوم نے وزیراعظم پاکستان کے مئوقف کی تائید کرتے ہوئے اگلی سربراہ کانفرنس کے اسلام آباد میں انعقاد کی حمایت کی۔ جس وقت یہ سطور لکھی جا رہی تھیں وزیراعظم پاکستان‘ مالدیپ میں باہمی تعاون کے متعدد سمجھوتوں پر دستخط کے بعد وطن روانہ ہو چکے تھے۔
وزیراعظم کی مالدیپ روانگی سے ایک روز قبل لاہور میں دہشت گردی کا افسوسناک واقعہ ہو چکا تھا۔ جس میں چھ پولیس اہلکاروں سمیت 26 افراد جاں بحق ہوئے۔ ہمارے خیال میں تو خدانخواستہ اس سے بڑا سانحہ ہونے کی صورت میں بھی وزیراعظم کو مالدیپ ضرور جانا چاہیے تھا جہاں برادر ملک کے عوام اپنی قومی تقریبات کے لئے مہمان خصوصی کے طور پر ان کی شرکت کے منتظر تھے۔
خان کا کہنا ہے لاہور میں اس سانحے کے باوجود وزیراعظم مالدیپ چلے گئے لیکن اس دورے کے التواء سے پوری دنیا کو پاکستان میں امن و امان کے حوالے سے کیا میسج جاتا؟ یاد آیا‘ احمد پور شرقیہ میں (آئل ٹینکر والا) سانحہ ہوا تو وزیراعظم ابھی لندن پہنچے ہی تھے مگر اس سانحہ کی خبر پاتے ہی پاکستان واپسی کی راہ لی اور سیدھے احمد پور شرقیہ پہنچے۔ تب خان کا کہنا تھا‘ پنجاب میں سانحہ پر تو وزیراعظم فوراً لوٹ آئے لیکن وہ پاراچنار کیوں نہ پہنچے‘ کیا پنجابیوں کا خون پاراچنار والوں سے زیادہ قیمتی ہے؟
اور ”دلچسپ‘‘ بات یہ ہے کہ خود خان صاحب احمد پور شرقیہ پہنچے تھے‘ نہ پاراچنار۔ لاہور کے تازہ سانحہ کو آج (جب یہ سطور لکھی جا رہی ہیں) چوتھا دن ہے لیکن خان صاحب لاہور نہیں آئے‘ حالانکہ جہانگیر ترین کا جہاز ان کی خاطر پرواز کے لئے چوبیس گھنٹے تیار رہتا ہے۔
اِدھر پاناما لیکس کے فیصلے کے لئے خان کی بے تابی بڑھتی جا رہی ہے۔ اس فیصلے کا صرف خان کو نہیں‘ ساری قوم کو انتظار ہے لیکن کیا اس کے لئے معزز ججوں کو ڈکٹیشن دی جا سکتی ہے؟قابل احترام جج بھی اسی ملک کے شہری ہیں‘ انہیں بھی احساس ہے کہ فیصلے کے انتظار میں پورا ملک ”سٹینڈ سٹل‘‘ ہے۔ لیکن تاریخ کے اہم ترین فیصلے کے لئے‘ انہیں تمام ثبوت و شواہد کا بغور جائزہ لینا اور اپنی بہترین قانونی مہارت اور آئین فہمی کی صلاحیت کو بروئے کار لانا ہے۔ بات انتظار کی شدت کے اظہار تک رہتی تو بھی گوارا تھی لیکن خان تو بہت آگے تک چلا گیا۔ فرمایا‘ مجھے دس ارب کی پیشکش کی گئی تھی تو مافیا کا ججوں پر کتنا پریشر ہو گا؟ تو کیا خان یہ کہنا چاہ رہا ہے کہ محترم و معزز ججوں کو خریدنے کی کوشش کی جا رہی ہے (اور خان کو ڈر ہے کہ جج صاحبان کہیں مافیا کے پریشر میں نہ آ جائیں) جہاں تک خان کو دس ارب روپے کی پیشکش کا تعلق ہے۔ شہبازشریف اس کے خلاف دس ارب روپے ہرجانے کے دعوے کے ساتھ عدالت سے رجوع کر چکے‘ اس پر خان کو پہلی پیشی کا نوٹس بھی جاری ہو چکا لیکن خان (یا ان کے وکیل) حاضر نہیں ہوئے۔
اُدھر فرزند لال حویلی تو ہر حد عبور کر گیا۔ اس کا کہنا تھا‘ ایجنسیوں نے ضمیروں کی خریداری کے لئے 50 ارب روپے نکلوائے ہیں لیکن جج صاحبان اور جے آئی ٹی کے ”سپر سکس‘‘ نے ان پر تھوکنا بھی گوارا نہ کیا۔ حیرت ہے‘ ججوں پر اور جے آئی ٹی کے ”سپر سکس‘‘ پر اتنی بڑی ایکسر سائز ہو گئی‘ لیکن انہوں نے اس کا کوئی نوٹس ہی نہ لیا۔ عزیمت اور استقامت کا یہ مظاہرہ قابل صد تحسین ہے لیکن مقدمے پر اثرانداز ہونے کی یہ کوشش کیا ایک سنگین جرم نہیں؟ شیخ کا یہ دعویٰ درست ہے تو فاضل ججوں نے پیشکش کرنے والوں کے خلاف کوئی کارروائی کیوں نہیں کی؟ اور شیخ حسب معمول اور حسب عادت کذب بیانی سے کام لے رہا ہے تو کیا اس پر کوئی سو موٹو نوٹس نہیں بنتا؟
اِدھر پاناما کے ساتھ اقاموں کا معاملہ بھی دلچسپی کا موضوع بن گیا ہے۔ وزیراعظم‘ وزیر دفاع‘ وزیر خزانہ اور وزیر ترقی و منصوبہ بندی کی طرف سے وضاحتیں آ چکیں۔ جہاں تک وزیر ترقی و منصوبہ بندی احسن اقبال کا معاملہ ہے‘ تو ہم اُن دنوں جدہ میں ہوتے تھے۔
سرور پیلس آنا جانا معمول تھا۔ ہم یہاں ہفتے میں ایک دو بار احسن اقبال کو بھی پاتے۔ ایک دن پوچھا‘ تو معلوم ہوا کہ گورنر مدینہ نے شہر نبیؐ کے ڈیجیٹل اکانومی پروجیکٹ کے لئے ان کی خدمات بطور مشیر حاصل کر لی ہیں۔ لاہور کی انجینئرنگ یونیورٹی کے فارغ التحصیل احسن اقبال امریکہ کی ایک اعلیٰ یونیورسٹی کے ڈگری ہولڈر بھی ہیں۔ احسن نے بتایا تھا کہ یہ دو سال (2004-06) کا پراجیکٹ ہے۔ یہ پاکستان میں ڈکٹیٹر کا دور تھا‘ احسن نے گورنر مدینہ کی پیشکش یہ سوچ کر قبول کر لی کہ ایک تو شہر نبیؐ کے ایک پراجیکٹ میں خدمت کی سعادت حاصل ہو رہی تھی اور دوسرے اپنے لیڈر نوازشریف سے میل ملاقات کے مواقع بھی حاصل رہیں گے۔ احسن کا دعویٰ ہے کہ اس نے 2006ء کے بعد کوئی معاوضہ وصول نہیں کیا۔ فواد چوہدری نے اقاموں کے اس معاملے پر اورنگزیب عالمگیر کے ٹوپیاں بیچنے کی پھبتی کسی ہے۔ ہمیں یہاں فواد کے انکل چوہدری شہباز حسین یاد آئے جدہ میں قیام کے دوران جنکی خصوصی محبت اور شفقت ہمیں حاصل رہی۔ جدہ کی مدینہ روڈ پر ان کا ریسٹورنٹ تھا (شاید اب بھی ہے) یوں وہ سعودی عرب کے اقامہ ہولڈر تھے۔ تب وہ پیپلز پارٹی سے وابستہ تھے‘ پھر قاف لیگ کے ٹکٹ پر جہلم سے ایم این اے منتخب ہو کر‘ مشرف حکومت میں وزیر بہبود آبادی ہو گئے لیکن جدے میں کاروبار بھی جاری رہا۔ چونکہ اقامہ ہولڈر تھے‘ اسلئے وزارت کی مصروفیات سے فراغت ملتی تو جدہ کا چکر بھی لگا لیتے۔ ہماری وطن واپسی کو دس سال ہو گئے لیکن جدہ کی خوشگوار یادوں میں چوہدری شہباز حسین کا حصہ بھی کچھ کم نہیں۔