یقین….خالد مسعد خان
کسی نے ایسے ہی تمثیل سی سنائی کہ موت کے فرشتے کو کسی شخص سے کام پڑ گیا (اب اس بات پر بحث فضول ہے کہ بھلا موت کے فرشتے کو کسی سے کیا کام پڑ سکتا ہے‘ سوائے اس کے کہ وہ اس کی جان نکال لے‘ مگر فی الحال بات کو صرف سننے کی حد تک قبول کر لیتے ہیں) اس شخص نے اس کے عوض موت کے فرشتے سے وعدہ لیا کہ وہ اس کی روح قبض کرنے سے پہلے اسے اطلاع دے گا۔ بات کو عرصہ گزر گیا۔ ایک روز اس شخص نے دیکھا کہ موت کا فرشتہ اس کے سرہانے کھڑا ہے۔ اسے گمان ہوا کہ اب وہ اسے اطلاع دینے آیا ہے کہ وہ اس کی جان کب نکالے گا ‘لیکن فرشتے نے کہا کہ وہ اس کی جان لینے آیا ہے۔ اس شخص نے فرشتے کو یاد کروایا کہ ان کے درمیان یہ طے پایا تھا کہ اس کی جان لینے سے پہلے اسے مطلع کیا جائے گا اور اس وعدے کے مطابق موت کے فرشتے کو اس جان لینے کی بجائے اس بار اسے اطلاع دینی چاہئے اور پھر اگلی بار آ کر اس کی جان لینی چاہئے۔ فرشتے نے کہا کہ میں نے تمہیں بارہا اطلاع دی۔ اس شخص نے حیرانی سے پوچھا کہ اسے تو ایک بار بھی اطلاع نہیں دی گئی کجا کہ بارہا کی بات کی جائے۔ فرشتے نے پوچھا تمہارا فلاں ہم مکتب کہاں ہے؟ اس شخص نے جواب دیا کہ وہ گزشتہ سال وفات پا گیا ہے۔ فرشتے نے پھر پوچھا کہ تمہارا فلاں چچا زاد کہاں ہے؟ اس نے کہا کہ وہ دو ماہ قبل اللہ کو پیارا ہو گیا ہے۔ فرشتے نے ایک بار پھر پوچھا کہ اس کا فلاں دوست کہاں ہے؟ اس شخص نے کہا کہ وہ گزشتہ ہفتے انتقال کر گیا ہے۔ فرشتہ کہنے لگا :یہ سب تمہیں اطلاعات ہی تھیں کہ تمہارے ہم عمر اور ہم مکتب ‘اب دنیا سے رخصت ہو رہے ہیں‘ تم تیاری کر رکھو۔ بھلا ان اطلاعات کے علاوہ میں اور تمہیں کیا اطلاع دیتا؟ سمجھنے والے کے لیے ان سب اطلاعات میں جو پیغام پوشیدہ تھا ‘وہ بڑا واضح تھا۔ اب اگر تم اسے نہیں سمجھ سکے ‘تو اس میں میرا کیا قصور ہے؟ میں نے تمہیں بارہا اور بروقت اطلاعات دی تھیں۔ سو مجھے اب میرا کام کرنے دو اور درمیان میں خواہ مخواہ کی اڑچن نہ ڈالو۔ یہ سب وہ اطلاعات ہیں‘ جو روز کسی نہ کسی کو مطلع کرتی ہیں۔ تقریباً ہر روز ہی۔ سو اب یہی ہو رہا ہے۔ موت کا فرشتہ اس عاجز کو ایسی ہی اطلاعات دے رہا ہے۔
شمیم عارف سے پہلی ملاقات کب ہوئی؟ مجھے اس طرح یاد ہے‘ جیسے کل کی بات ہو‘ حالانکہ یہ قریب چالیس سال پرانی بات ہے۔ میں بی اے کے پیپرز دے کر فارغ تھا اور یونیورسٹی میں داخلے کے لیے اپنے تئیں پوری تیاری کر رکھی تھی۔ ہمارا ڈیرہ یونیورسٹی کی کینٹین تھا۔ تب بہائو الدین زکریا یونیورسٹی کا ایک ہی کیمپس تھا‘ جو گورنمنٹ ہائی سکول گلگشت کالونی کی عمارت میں عارضی طور پر قائم تھا۔ میں اسی سکول میں چھٹی کلاس سے میٹرک تک پڑھتا رہا تھا اور پھر درمیان میں ایمر سن کالج چلا گیا۔ چار سال وہاں پڑھتا رہا ‘لیکن یہ چار سال بھی اسی کینٹین پر گزارے۔ شیخ مجید صاحب‘ اللہ انہیں کروٹ کروٹ جنت نصیب کرے۔ اس کینٹین کے ٹھیکیدار تھے۔ پہلے اس کینٹین پر شیخ مجید کے ہی کزن شیخ حفیظ صاحب ٹھیکیدار تھے‘ پھر ان کے بعد شیخ مجید آ گئے‘ میرا اس کینٹین سے تعلق یونیورسٹی آنے سے قریب گیارہ سال پرانا تھا۔ پانچ سال سکول کے‘ چار سال کالج کے‘ جو پانچ سال میں مکمل ہوئے اور 1977ء کی تحریک کے دوران تعلیمی اداروں کی بندش وغیرہ ڈال کر یہ کل گیارہ سال بن گئے۔ اس کینٹین پر ہمارا مستقل ادھار چلتا تھا۔ سکول کے زمانے میں مہینے بعد ابا جی شیخ حفیظ کو ہمارا بل جو روزانہ کے دو سموسوں پر مشتمل عیاشی پر مبنی ہوتا تھا‘ ادا کر دیتے تھے۔ کالج کے زمانے میں ہم شیخ صاحب سے گیارہ مہینے ادھار کھاتے اور بین الکلیاتی تقریبات کے ڈیڑھ مہینے میں ملنے والے ٹی اے‘ ڈی اے سے ادا کر دیئے جاتے تھے۔ ہمارا اور شیخ صاحب کا حساب بڑی ایمانداری سے چلتا تھا۔
یونیورسٹی بنی تو ہم اس کینٹین پر پہلے سے ہی موجود تھے۔ سارا دن یہاں بیٹھے رہنے کی وجہ سے یونیورسٹی کے طلبہ سے یاری دوستی ہو گئی۔ براہ راست نہ سہی‘ بالواسطہ طور پر جیسے یارغار منیر چوہدری کی ساری کلاس دوست بن گئی۔ رانا محبوب اختر کی انگریزی ڈیپارٹمنٹ کے سارے کلاس فیلو دوست بن گئے۔ یونیورسٹی میں ہمارے دوستوں نے ایک ادبی تنظیم ”التخلیق‘‘ بنا رکھی تھی‘ جس کا ہفتہ وار تنقیدی اجلاس باقاعدگی سے یونین آفس میں ہوتا تھا۔ قطع نظر اس کے کہ یونیورسٹی میں یونین جمعیت کی تھی ‘اس اجلاس میںہر نقطہ نظر کے حامل طلبہ‘ بلکہ جمعیت کے مخالف طلبہ زیادہ تعداد میں اس ہفتہ وار اجلاس میں شرکت کرتے تھے۔ رانا محبوب اختر‘ منیر چوہدری‘نجم اکبر نجمی‘ خالد محمود‘ تنویر زلفی‘ نسرین اختر ترین‘تجمل الطاف‘ مصدق اقبال‘ فاخرہ بتول‘ سلیم حیدرانی ‘ اکرم میرانی اور شمیم عارف۔
پہلا اجلاس تھا اور اس میں ایک گھنگریالے بالوں اور روشن آنکھوںوالا لڑکا ایک نظم پر بڑے زور و شور سے تنقید کر رہا تھا۔ وہ اس تنقید میں انگریزی ادب سے حوالے دے رہا تھا۔ اسے کینٹین پر بیٹھے کئی بار دیکھا تھا ‘مگر براہ راست بات چیت نہ تھی۔ دوران گفتگو ایک دو بار اس نے نظم میں محبت بارے تشبیہ دیتے ہوئے Platonic Love یعنی ”افلاطونی محبت‘‘ کا ذکر کیا۔ یہ شمیم عارف قریشی تھا۔ دو چار دن ہی میں ہماری اس سے گاڑھی چھننے لگی اور پھر وہی ہوا‘ جو عموماً ہوتا ہے ‘یعنی ہم آپس میں تو تڑاق پر اتر آئے۔ میں نے اس کا نام Plato رکھ دیا۔ عشرے گزر گئے ‘مگر میں اپنی ہٹ پر قائم رہا اور اسے ہمیشہ اسی نام سے پکارتا رہا۔ وہ آگے سے صرف مسکرا دیتا تھا۔ یہ مسکراہٹ اس کے چہرے کا لازمہ بھی تھی اور حسن بھی۔
وہ انگریزی ادب پڑھنے پر لگ گیا کہ یہ اس کا شوق بھی تھا۔ وہ ولایت حسین اسلامیہ کالج کا پرنسپل بھی رہا اور ڈائریکٹر کالجز ملتان ڈویژن بھی‘ مگر اس کے دروازے پر نہ کبھی کوئی دربان بیٹھا اور نہ ہی اس کے پاس جانے کے لیے کسی کو کبھی اپنا وزیٹنگ کارڈ یا چٹ لکھ کر بھجوانی پڑی۔ مروت‘ تحمل‘ بردباری اور وسیع القلبی اس کا شعار تھا۔ بے شمار اختلافات کے باوجود ہماری دوستی ایسی تھی کہ لگتا تھا کہ ہمارے درمیان بال برابر بھی کوئی دراڑ نہیں اور اس کا ننانوے فیصد کریڈٹ شمیم عارف قریشی کو جاتا تھا۔ انگریزی ادب کے اس استاد نے زیادہ نام اپنی دانشوری اور سرائیکی ادب و ثقافت کے حوالے سے کمایا۔ سرائیکی شاعری اور سرائیکی ادب کے حوالے سے شمیم عارف نے ایک وسیع حلقے کو اپنا اسیر کر رکھا تھا اور یہ تو اس کی شخصیت کا ایک دوسرا پہلو تھا ‘وگرنہ اسیر کرنے کے لیے تو صرف اس کی مسکراہٹ ہی کافی تھی۔
اس نے نہ کبھی کسی کا گلہ کیا اور نہ کبھی کسی کی غیبت۔اس جیسا دوسرا شخص اب اس شہر میں کہاں؟ گزشتہ اتوار اس کی نماز جنازہ تھی۔ میں نے اس کے سفید کپڑے میں لپٹے جسم کے پاس کھڑے ہو کر بارہا ارادہ کیا کہ اس کا چہرہ دیکھوں اور پھر اتنی ہی بار اس ارادے کو رد کیا کہ میں اس کا مسکراہٹ کے بغیر والا چہرہ دیکھنا ہی نہیں چاہتا تھا‘ پھر ہمت کر کے قریب گیا اور ڈرتے ڈرتے اس کے چہرے پر نظر ڈالی۔ اس کے چہرے پر ویسی ہی مسکراہٹ ‘جو زندگی میں بھی اس کے چہرے کا حصہ تھی۔ میں اطمینان سے جا کر جنازے کی پہلی صف میں کھڑا ہو گیا۔
موت کا فرشتہ مسلسل اطلاع دے رہا ہے کہ تمہارے دوست‘ عزیز اور ہم جماعت جا رہے ہیں۔ ایمانداری کی بات ہے کہ اس یاد دہانی اور بلاوے کا قطعاً کوئی خوف نہیں۔ بس زاد راہ کی کمی کا خوف کسی صورت چین نہیں لینے دے رہا۔ بس اس کی رحمت کا سہارا ہے کہ اس نے خود ہمیں اپنے رحمان اور رحیم ہونے کا یقین دلا رکھا ہے اور اس عاجز کو بھی اس پر پورا یقین ہے‘ اگر یہ یقین نہ ہوتا ‘تو یہ عاجز مرنے سے پہلے مر گیا ہوتا۔