منتخب کردہ کالم

ینگ ڈاکٹرز کی ہڑتال، تصویر کا دوسرا رخ – ابوبکر قدوسی

ینگ ڈاکٹرز کی ہڑتال، تصویر کا دوسرا رخ – ابوبکر قدوسی

کسی سبب سے کچھ معاملات سے میں آگاہ بھی ہوں اس لیے ضروری ہے کہ تصویر کا دوسرا رخ بھی پیش کیا جائے – میڈیا اپنے مخصوص مقاصد کے مطابق کام کرتا ہے سو دیانت داری کا خبر دینے میں بھی ویسے ہی فقدان ہے جیسے ہر شعبے میں.

اس میں کوئی شبہ نہیں کہ ڈاکٹرز کی ہڑتال سے مریض بدحال ہو رہے ہیں، ان کی پریشانیاں بہت بڑھ گئی ہیں، ڈاکٹرز کو اس حوالے سے سوچنا چاہیے کہ ہڑتال کے سوا کوئی اور حل کیا ہے؟ یا پھر عوام کو کھل کر ڈاکٹرز کا ساتھ دینا چاہیے تاکہ ان کو وارڈز بند کرنے پڑیں نہ علاج میں دقت پیدا ہو.

لیکن پہلے ایک قصہ.
سال سے اوپر کچھ دن گزرے، میری اہلیہ کو دل کی تکلیف ہوئی. میں انہیں لے کر پنجاب کارڈیالوجی انسٹیٹیوٹ چلا گیا. ہسپتال کے ڈپٹی ایم ایس میرے پرانے دوست ہیں، کتابوں کے شوقین اور ان کا میرے مکتبہ قدوسیہ آنا جانا لگا رہتا ہے، سو میری اہلیہ کچھ دیر کے لیے ہی سہی، لیکن “وی آئی پی” مریضہ ہوگئیں. ہسپتال پہنچے تو ایمرجنسی میں کوئی بیڈ خالی نہ تھا. مجبورا ایک دوسری مریضہ کے ساتھ لٹانا پڑا.

ممکن ہے آپ سوچیں کہ زیادہ مریض آنے میں حکومت کا کا قصور؟ لیکن پنجاب بھر کے دل کے اس مرکزی ہسپتال کی ایمرجنسی میں شاید پندرہ بیڈ بھی نہ تھے. کیا یہ حکومت کی مجرمانہ غفلت نہیں؟ جو اربوں نہیں اب کھربوں روپے ارونج ٹرین جیسے اللوں تللوں پر لگا رہی ہے، چند ہزاروں کے بیڈ اضافی نہیں لگا سکتی؟
اس سے بری صورت حال سروسز اور میو ہسپتال میں ہوتی ہے، جہاں ایمرجنسی میں بیڈ ملنا علاج سے بڑی نعمت جانی جاتی ہے.

ینگ ڈاکٹرز اس صورت حال سے اس لیے تنگ ہیں کہ لواحقین کی گالیاں، مطالبے اور کبھی دھکے اور مکے ان کو برداشت کرنے پڑتے ہیں. وزیراعلی صاحب تو ہر وقت میٹرو اور اورنج ٹرین کے خوابوں میں کھوئے ہوتے ہیں. .ویسے بھی سوچنے کی بات ہے کہ اضافی بیڈ مریضوں کی سہولت میں ہی اضافہ کریں گے. اس لیے ینگ ڈاکٹرز اس مطالبے میں مکمل حق بجانب ہیں کہ ہسپتال میں بیڈ کی تعداد بڑھائی جائے.

ان کا ایک اور مطالبہ انجینئر نجم شاہ کی تبدیلی ہے. انجینیر صاحب سکرٹری ہیلتھ ہیں. ڈاکٹرز کا مطالبہ ہے کہ کسی میڈیکل کے تجربہ کار بندے کو مقرر کیا جائے. دوسرا سبب ساہیوال میں ہونے والے لیڈیز ہاسٹل میں پیش آنے والا واقعہ بنا. وہاں وزیر اعلی صاحب کا دورہ نامسعود تھا، ڈی سی او صاحب نے ینگ لیڈی ڈاکٹر صاحبہ کو دربان کی ڈیوٹی دینے کو کہا. گو وقتی طور پر سہی لیکن انہوں نے انکار کر دیا، کہ “میں ڈاکٹر ہوں مجھ سے علاج کروا لو. دربان نہیں بنوں گی.” اس پر غصے میں سرکار اپنےعملے سمیت ڈاکٹرز کے لیڈیز ہاسٹل میں گھس گئے. ڈاکٹرز کے لیڈیز ہاسٹل کا معاملہ یہ ہے کہ اگر کبھی کسی پرنسپل کو بھی جانا پڑے تو وہ اجازت لے کر جاتے ہیں. اور یہ اخلاق کا بھی عمدہ مظہر ہے. اس پر بھی ڈاکٹرز احتجاج کناں ہیں.

ایک اور اہم مسئلہ سنٹرل انڈکشن پالیسی کا اطلاق ہے، جس کے تحت سو میں سے دس ڈاکٹرز کو نوکری ملتی ہے، باقی جوتیاں چٹخاتے پھرتے ہیں. اس کی مجرم تو بہرصورت حکومت ہے، کہ اگر آپ کے پاس نوکریاں ہی نہیں، تو کس وجہ سے دھڑا دھڑ ڈاکٹر بنائے جا رہے ہیں. اور ان حالات میں پرایئویٹ میڈیکل کالجز کا اجراء تو بنتا ہی نہ تھا. اور کالج بھی تھوک کے حساب سے. ایک پرائیویٹ کالج کو بنانے اور چلانے اور اجازت نامے کے مرحلے میں جو کروڑوں روپے رشوت ملتی ہے، اصل میں یہ اسی کا شاخسانہ ہے کہ آج ہزاروں ڈاکٹرز بے روزگار ہیں.

ینگ ڈاکڑز اور لیڈی ڈاکڑز کی اکثریت چھوٹے شہروں سے ہوتی ہے جب ان میں اکثر ڈاکٹرز لاہور اور بڑے شہروں کا کلچر اپنا لیتے ہیں تو پھر ان کو اپنے آبائی علاقوں میں جانا مشکل ہوتا ہے. سنٹرل انڈکشن میں واضح طور پر لکھا ہوا ہے جو جس ضلع کا ڈومیسائل ہولڈر ہوگا، وہاں کے کسی ہسپتال میں تعینات ہوگا، اور اسے ایک سال لازمی وہاں کے کسی دیہات یا چھوٹے شہر میں جاب کرنا ہوگی، لیکن ڈاکٹرز ایسا کرنے سے کتراتے ہیں. یوں کہیے کہ انھیں شہر کی ہوا لگ جاتی ہے. ینگ ڈاکٹرز کو بھی اس معاملے پر غور کرنا چاہیے کہ حکومت کا یہ مطالبہ ناروا نہیں اور خود ان کے علاقے کا بھی ان پر حق ہے، لیکن یہاں حکومت کو بھی اس بات پر غور کرنا چاہیے کہ کیا وجہ ہے کہ ڈاکٹرز دیہاتی علاقوں میں جانا پسند نہیں کرتے. ظاہر ہے وہاں سہولیات نہ معیار زندگی کی بہتری، وہ بھی کیا کریں، اور اگر بچوں والے ہیں تو اپنے بچے کہاں پڑھائیں؟ اس کا ایک ہی حل ہے کہ دیہات میں جانے کا الاؤنس مزید بڑھایا جائے، کم از کم اتنا ہو کہ کسی کو جانے کا فیصلہ کرنا آسان ہو جائے. صحت عوام کی بنیادی ضرورت ہے. حکومت محض کچھ فضول خرچیوں کو کم کر کے ایسا کر سکتی ہے مگر شرط نیک نیتی ہے.
یہ بھی پڑھیں: تو پیارے بچو! یہ تھی آج کی کہانی – سعود عثمانی

ینگ ڈاکٹرز کا ہڑتال پر چلے جانا بلاشبہ مریضوں کے لیے نہایت مصیبت کا معاملہ ہے لیکن پاکستان کا کلچر بن چکا ہے کہ آپ شریفانہ دائرے میں عمر بھر بھی احتجاج کرتے رہیں تو کوئی آپ کی بات کو جوتے کی نوک پر نہیں لکھے گا، جب تک آپ نظام زندگی معطل نہیں کر دیتے. ینگ ڈاکٹرز اس معاملے میں بدقسمت ہیں کہ اگر وہ نظام معطل کرتے ہیں تو بھی گالیاں ان کا مقدر ٹھہرتی ہیں اور اگر وہ محض بازوؤں پر کالی پٹیاں باندھ لیں، ہفتے میں ایک آدھ بار دھرنا دے لیں تو بھلے تمام عمر ایسا کریں، حکمرانوں کو ان کی آواز تک نہیں جائے گی. اور نجم شاہ ہی ان پر مسلط رہیں گے.

حکومت اس ایشو پر بھی سیاست کر رہی ہے.خبر آتی ہے کہ ڈاکٹرز کی ہڑتال کے سبب اتنے اتنے مریض مارے گئے. اس پر تبصرہ کرنا بھی وقت اور الفاظ کا زیاں ہے. حکومتی نمائندوں کو شرم آنی چاہیے کہ اگر ماضی میں ہڑتال کے سبب یوں سینکڑوں مریض مارے گئے تو کس استحقاق کی بنا پر انہوں نے ان ڈاکٹروں کو معاف کر دیا؟
صاف دکھائی دیتا ہے کہ جھوٹی خبر گھڑی گئی ہے.

اور ہاں!
آخر میں ایک بات ذکر کرتا چلوں کہ پاکستان کے سب سے بڑے ٹیچنگ ہسپتال “میو ہسپتال ” کا سالانہ بجٹ ایک ارب روپے سے کچھ کم ہے اور اورنج ٹرین کا خرچ سوا دو سو ارب روپے تک جا پہنچا ہے کہ جو لاہور کی محض ایک سڑک ہے. یعنی آپ دو صدیاں، جن کو دو سو برس بولتے ہیں، تک اس پیسے سے ایسا ہسپتال چلا سکتے تھے. یا پنجاب میں اس جیسے صرف بیس ہسپتال ٹارگٹ کر لیتے تو اس پیسے سے کئی برس تک ان کو بنا کے چلایا جا سکتا تھا. نہ کوئی مریض بنا علاج کے رہتا نہ کوئی ڈاکٹر بغیر اجرت کے، لیکن کیا کریں ہمارے پنجاب کے حکمران کا قول زریں ہے جو کہ انہوں نے ملتان میٹرو پر مزاحمت پر بولا تھا کہ:
” اگر چاہتے ہو کہ ہسپتال بنیں اور سڑکیں نہ بنیں تو دعا کرو میں مر جاؤں”..
اندازہ کیجیے کہ حکمرانی کا معیار محض جہالت نہیں ضد ہے.


اگلا کالم