تاریخ سے جو سبق نہیں سیکھتا، وہ خود تاریخ کا حصہ بن جایا کرتا ہے۔ تازہ خیالی حضور، تازہ خیالی! اس ہمیشہ زندہ رہنے والے شاعر اسداللہ خان غالبؔ نے یہ کہا تھا ؎
ہم موحّد ہیں، ہمارا کیش ہے ترکِ رسوم
ملتیں جب مٹ گئیں اجزائے ایماں ہو گئیں
وہ قوم اپنی ترجیحات کے بارے کتنی سنجیدہ ہے، کشمیر جس کی شہ رگ ہے اور کشمیر کمیٹی کے چیئرمین مولانا فضل الرحمن ہیں۔ کبھی نواب زادہ نصراللہ خان تھے۔ کہنہ سالی کے باوجود آئے دن وہ کسی ملک کے دورے پر ہوتے۔ ہر بار کسی کشمیری لیڈر اور کچھ اپوزیشن رہنمائوں کو ہمراہ لے جاتے۔ ایسے ہی ایک سفر میں، نام اب یاد نہیں، مغربی اخبار نویسوں نے سوال کیا تو انہوں نے کہا: ایٹم بم ہم نے روز قیامت کے لیے نہیں بنایا۔ حکمتِ عملی کی طرح اظہارِ خیال بھی حالات کے مطابق ہونا چاہئے۔ ناموزوں تو کیا کوئی ادنیٰ لفظ بھی کبھی ان کی زبان پر نہ آتا۔
مولانا فضل الرحمن ریکارڈ پر ہیں کہ کشمیر کے جہاد کو وہ جہاد ہی نہیں سمجھتے۔ افغان طالبان کے البتہ وہ حامی ہیں اور سچ پوچھیے تو پاکستانی طالبان کے بھی، سید علی گیلانی کے بقول جو پاکستان کی جڑیں کھود رہے ہیں۔
کشمیر کی موجودہ تحریک کا آغاز 1989ء میں ہوا تھا۔ جنرل محمد ضیاء الحق نے اس کا بیج بویا تھا۔ وہ ایک خواب دیکھ رہے تھے۔ افغانستان کی آزادی کے بعد، حرّیتِ کشمیر کا۔ پاکستان، ایران، آزاد افغانستان اور ترکی پر مشتمل ایک نئے بلاک کی تشکیل، عربوں کے ساتھ جس کے خوشگوار مراسم ہوں۔ جنرل محمد ضیاء الحق نے بہت سی غلطیاں کیں اور بعض بہت بڑی غلطیاں، مثلاً مذہبی گروہوں پر ایسا اندھا اعتماد کہ بے قابو ہو گئے۔ یہ غلطیاں اپنی جگہ مگر وہ ایک عظیم جنرل اور ایک عظیم محب وطن تھے۔ افراد کی طرح اقوام کو بھی قربانی کے بکروں کی ضرورت ہوتی ہے۔ جنرل محمد ضیاء الحق ہمارے لیے قربانی کا وہ بکرا ہیں۔ جنرل کو دنیا سے رخصت ہوئے 27 سال ہو گئے۔ اس عرصے میں ہم ان غلطیوں کی اصلاح کیوں نہ کر سکے؟ ایک مائوزے تنگ بھی تھا۔ ایک کروڑ ہم وطن جس نے قتل کئے، جس کے عہد میں فی کس آمدن 150 ڈالر تھی۔ سوال یہ بھی ہے کہ جنرل کو تو استعمار نے قتل کر ڈالا۔ موقع ہی نہ ملا کہ مسلح لشکروں کو سمیٹ سکے۔ پھر ساری ذمہ داری اس پر کیسے ڈالی جا سکتی ہے؟ اس کے بعد ہم ایک متوازن، موزوں اور فعال کشمیر پالیسی کیوں نہ بنا سکے؟
1990ء میں بھارتی اخبارات اس فردوس نظیر خطے کے الگ ہو جانے کی پیش گوئی کر رہے تھے۔ ایک بھارتی اخبار کا مضمون اب تک یاد ہے، ”Paradize Lost‘‘ جنت جو کھو دی گئی۔
ہم ایک عجیب قوم ہیں، بھڑک اٹھتے ہیں یا بجھ جاتے ہیں۔ توازن سے آشنا ہی نہیں۔ نائن الیون کے بعد مسلح تحریکوں پر عالمی دبائو پڑا۔ حالات ان کے لیے سازگار نہ رہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ کشمیر کو بھلا دیا جائے، اپنی شہ رگ کو؟ آغاز کار ہی سے، ساری توجہ اگر جارحانہ سفارتی مہم پر ہوتی، نواب زادہ نصراللہ خان کی کشمیر کمیٹی جس کا مظہر تھی، تو عالمی رائے عامہ کو بتدریج ہموار کیا جا سکتا۔ ہمیں تو مگر اپنے داخلی تنازعات ہی سے فرصت نہیں۔ پی آئی اے کے لفڑے ہی کو لیجیے۔ چیخ چیخ کر حقائق یہ کہہ رہے ہیں کہ فضائی کمپنی کی نجکاری کرنا ہو گی یا وہ بند ہو جائے گی۔ یار لوگ مگر اس پر سیاست چمکا رہے ہیں۔ وہ ادارہ جس پر قوم کے 300 ارب روپے ضائع ہو چکے
اور ہر سال تیس ارب مزید ہوتے ہیں۔
نائن الیون کے بعد جنرل پرویز مشرف، زرداری اور پھر نواز شریف نے تقریباً مکمل پسپائی اختیار کر لی۔ جنرل مشرف نے پھر بھی ایک درمیانی راستہ تلاش کرنے کی کوشش کی۔ ذاتی طور پر وزیر خارجہ خورشید محمود قصوری چند اخبار نویسوں سے رابطے میں رہا کرتے۔ کشمیر کی نرم سرحدوں پر بات جب آگے بڑھ چکی۔ ایک فارمولا جب تشکیل دے دیا گیا تو طے یہ پایا کہ من موہن سنگھ، پاکستان آئیں گے۔ ہو سکا تو اس کا اعلان کر دیا جائے گا۔ میرے لیے یہ ناقابل فہم تھا۔ عرض کیا کہ خواہ یہ کتنا ہی خوبصورت فارمولا ہو، پاکستانی اور بھارتی عوام اسے تسلیم نہ کریں گے۔ رائے عامہ کو ہموار کرنا زیادہ اہم ہے۔ قصوری صاحب کی خوبی یہ ہے کہ کج بحثی بالکل نہیں کرتے۔ اپنی بات کھل کر کہتے ہیں اور دوسرے کی توجہ سنتے ہیں۔ ایک لمحہ تامّل کے بغیر انہوں نے جواب دیا: جی ہاں! بنیادی سوال یہی ہے کہ دونوں ملکوں کے عوام اسے قبول کریں گے یا نہیں۔
افسوس کہ بہترین کوشش کے باوجود قصوری صاحب کی تصنیف میں پڑھ نہیں سکا۔ بور سے بور کتاب کے پچاس صفحے لازماً پڑھ گزرتا ہوں۔ پھر اکثر اس میں دلچسپی پیدا ہونے لگتی ہے۔ قصوری صاحب نے داستان کو غیر ضروری طور پر دراز کر دیا۔ پچاس کیا، ایک سو دس صفحے پڑھ ڈالے لیکن پھر بھاری پتّھر کو چوم کر چھوڑ دیا۔ ایک نہیں، دراصل یہ دو تین کتابیں ہیں۔ کاش ڈھنگ کے کسی ایڈیٹر سے انہوں نے مشورہ کیا ہوتا۔ جمعہ خان صوفی کی ”فریب ناتمام‘‘ اور ایک دوسری خود نوشت ”اچھی گزر گئی‘‘ پڑھتے ہوئے بھی یہی احساس ہوا، مگر یہ الگ موضوع ہے۔
پاکستان ایک بارہ سنگھا ہے، جس کے سارے سینگ جھاڑیوں میں الجھے ہوئے ہیں۔ رہنمائوں کو فرصت ہے نہ دماغ کہ ایک جامع حکمت عمل طے کریں‘ مثلاً پاکستان کو امریکی انتظامیہ، سی آئی اے اور پینٹاگان کے سامنے ایک سوال مسلسل اور متواتر اٹھانا چاہیے تھا: اگر اس خطّۂ ارض میں آپ لوگ قیام امن کے اور دہشت گردی تمام کرنے کے آرزومند ہیں تو بھارت کو تخریب کاری سے کیوں نہیں روکتے؟ پاکستان کی تین لاکھ فوج بھارتی سرحد پر تعینات نہ ہوتی تو قبائلی پٹی اور افغانستان کی صورتِ حال یکسر مختلف ہوتی۔ سال گزشتہ چھ ماہ تک کشمیر اور پاکستان کی سرحدوں پر آگ برستی رہی۔ بھارت کو اس سے کیا حاصل ہوا اور امریکہ بہادر کو کیا؟ امریکی اخبارات اور سیاسی حلقوں میں ایک پیغام پہنچانے کی ضرورت تھی۔ مولانا فضل الرحمن کیا یہ کارنامہ انجام دے سکتے ہیں؟
انکل سام نے گزشتہ دنوں یہ کہا: پاکستان دہشت گردوں کے خلاف سنجیدگی اختیار کرے۔ پاکستان یہ بھی نہ کہہ سکا کہ چھ گنا بڑا دشمن جب مشرق میں مسلسل دبائو ڈال رہا ہو تو مغرب میں ہم کیا کریں؟
لطیف اللہ محسود کے انکشافات سے واضح ہے کہ بھارت اور افغان انتظامیہ میں ایک گٹھ جوڑ موجود ہے۔ اسلام آباد کو یہ معاملہ زور و شور سے اٹھانا چاہیے تھا، خاص طور پر مغربی پریس میں۔ یہ مگر کون کرے گا؟ محترم پرویز رشید یا ایوانِ وزیر اعظم میں قائم کردہ میڈیا سیل، رئوف کلاسرا کے بقول، جس نے آزاد اخبار نویسوں کی کردار کشی کا منصوبہ بنایا ہے۔
پاکستان یہ بھی نہ کہہ سکا کہ افغانستان میں امریکی شکست کا ذمہ دار اگر وہ ہے تو عراق میں کون ہے؟ لیبیا کی خانہ جنگی میں نیٹو نے جھک ماری، تو کیا اس لیے بھی ہم قصوروار ہیں۔ عالمی میڈیا میں پاکستان کا نقطۂ نظر پیش کرنے کی فرصت وزارتِ اطلاعات کو ہے اور نہ آئی ایس پی آر کو۔ مئی 2014ء میں میاں محمد نواز شریف جب نریندر مودی سے اظہار خیر سگالی کے لیے مرے جا رہے تھے تو جنرل راحیل شریف نے یاد دلایا کہ کشمیر پاکستان کی شہ رگ ہے۔
امن ہی ترجیح ہونا چاہیے۔ جنگ جنونیوں کا کام ہے مگر یہ مرعوبیت، مگر یہ احساسِ کمتری؟ خوف ذہن کو کند کر ڈالتا ہے۔ سید علی گیلانی، یٰسین ملک اور شبیر شاہ ایسے رہنمائوں کے ساتھ مشورہ کر کے پاکستان کو ایک نئی کشمیر پالیسی اختیار کرنے کی ضرورت ہے۔ مولانا فضل الرحمن کے علاوہ مولانا مسعود اظہر اور حافظ محمد سعید ایسے مہم جو ”جنرلوں‘‘ سے نجات حاصل کرنے کی۔ دہشت گردی کی طرح کشمیریوں کی آزادی کا بھی کوئی شارٹ کٹ نہیں۔ ایک دن مگر دہشت گردی تمام ہو گی۔ ایک دن کشمیر بھی آزاد ہو کر رہے گا۔ تحریک آزادی تحلیل نہیں ہو سکتی، عوامی تحریکیں، دلوں اور دماغوں میں گھر بنا لیں تو مرا نہیں کرتیں۔
تاریخ سے جو سبق نہیں سیکھتا، وہ خود تاریخ کا حصہ بن جایا کرتا ہے۔ تازہ خیالی حضور، تازہ خیالی! اس ہمیشہ زندہ رہنے والے شاعر اسداللہ خان غالبؔ نے یہ کہا تھا ؎
ہم موحّد ہیں، ہمارا کیش ہے ترکِ رسوم
ملتیں جب مٹ گئیں اجزائے ایماں ہو گئیں