یوں نہ تھا میں نے فقط چاہا تھا یوں ہو جائے…ھارون الرشید
کثرت کی آرزو نے تمہیں ہلاک کر ڈالا
حتیٰ کہ تم نے قبریں جا دیکھیں
بے شک تم جلد جان لو گے
پھر بے شک تم جلد جان لو گے
کس کس نے سجدۂ سہو کرلیا ہے؟ کون کون ہے‘ برامکہ کی طرح‘ آنے والے کل کی جو آہٹ نہیں سن سکا؟
شاہ محمود قریشی اور شیخ رشید کے بارے میں عمران خان نے جو کچھ کہا‘ وہ محض اتفاق نہیں۔ کوئی دن میں کچھ اور لوگوں کو بھی اپنی حیثیت کا اندازہ ہو جائے گا۔
2013ء کے جشن نوروز پر ایران جانا ہوا تو مشہد کی آرزو تھی۔ امام رضاؒ کے مزار پر فاتحہ پڑھنے کی آرزو‘ امام غزالیؒ اور امیرالمومنین ہارون الرشید کے باب میں یادیں تازہ کرنے کی۔ امام رضاؒ کے بعد ‘ غریب الدّیار ہارون الرشید کے لیے فاتحہ پڑھی۔ ایک ہوک سی دل کی گہرائیوں سے اٹھی۔ کاش کہ عرب اس کی ہڈیاں سمیٹ لے جائیں بغداد کی مٹی کو اس کی امانت سونپ دیں۔ ہارون کی قبر فرش کے برابر کر دی گئی ہے۔ ایک ذرا سے فاصلے پر شاعر فردوسی کا سو فٹ اونچا مجسمہ رفعتِ عالی سے سبزہ زاروں کو دیکھتا ہے۔ سوسمار کاگوشت کھانے والے عربوں کے ہاتھوں‘ اس نے ساسانیوں کا چراغ گل ہونے کا ماتم کیا تھا۔ سوسمار کا گوشت کھانے والے کون تھے؟
اللہ کی پوری زمین پر تاریخ کے عبرت کدے ہیں‘ ایران میں بھی بہت۔ارشاد یہ ہے ”زمین میں گھومو پھرو اور دیکھو کہ جھٹلانے والوں کا انجام کیا ہوا‘‘ کچھ سلامت نکل گئے۔ بایزیدؒ جنہوں نے کہا تھا: چالیس برس تک‘ میں اللہ کو تلاش کرتا رہا‘ جب میں نے اسے پایا تو دیکھا کہ وہ میرے انتظار میں ہے۔ غزالیؒ کہ اسمٰعیل صفوی کے وارثوں نے نام و نشان تک مٹانے کی کوشش کی مگر ”احیاء العلوم‘‘ اور ”تہافتہ الفلاسفہ‘‘ کے اوراق میں وہ زندہ ہیں…اور ابدالآباد تک زندہ رہیں گے۔ظہیرالدین بابر نے کہا تھا: دائمی حیات‘ شاعروں اور درویشوں کی ہوتی ہے‘ بادشاہ مر جایا کرتے ہیں۔ ہارون الرشید مر گیا اور فقط داستان رہ گئی۔ بہادر شاہ ظفرؔ رو دیا تھا۔
کتنا ہے بدنصیب ظفرؔ دفن کے لیے
دوگز زمیں بھی نہ ملی کوئے یار میں
لاہور میں مدفون‘ ہندوستان کی جلیل القدر ملکہ نور جہاں نے بھی یہی کہاتھا۔
برمزارِ ماغریباں نے چراغ نے گلے
نے پرے پروانہ سوزد نے صدائے بلبلے
مجھ پردیسی کی قبر پر کوئی چراغ نہ پھول‘ بلبل کی صدا اور نہ پروانے کے پر جلتے ہیں۔ نورجہاں کو مزار نصیب ہوا‘ ہارون الرشید کی قبر بھی ڈھا دی گئی۔ وہ بہادر شاہ ظفر نہیں تھا مگر انجام ویسا ہی۔ سلطنت اس کے فرزند کو ملی مگر اس بیٹے کو‘ جسے اس نے محروم رکھنا چاہا‘ جسے سونپی تھی‘ وہ رزق خاک ہوا۔ اپنے بھائی مامون الرشید کے ہاتھوں امین قتل ہوا تو شاعر نے اس کا مرثیہ لکھا۔
جود و سخا سے میں نے سوال کیا/امین کی موت کے ساتھ تم مر کیوں نہ گئے /انہوں نے جواب دیا/ہم اس لئے ٹھہر گئے کہ ہمیں اس کی موت کا پرسا دیا جائے/ کل ہم بھی چلے جائیں گے
مامون بھی سخی تھا مگر امین سے کیا موازنہ۔ مامون کی ذہانت کا چرچا اب آج بھی باقی ہے مگر امین اس سے زیادہ ذکی تھا۔ ایک بات البتہ وہ نہ سمجھ سکا کہ آدمی کی قدروقیمت اس کے ہنر کے مطابق ہوتی ہے۔ اقتدار اتنا ہی‘ جتنی کہ بساط ہو۔ حکمرانی کے تقاضے سخت ہیں۔ شیر کی سواری‘ جو سوار نہ رہ سکے‘ وہ اس کی غذا بنتاہے۔
پانامہ کیس کے خدوخال واضح ہو چکے تو عرض کرنا شروع کیا کہ کھیل ختم ہو چکا۔ ہمارے ایک رفیق نے‘ جو ہم سے زیادہ جانتے ہیں۔ شریف خاندان کے خیرخواہ بھی ہیں‘ صاف صاف لکھ دیا ”The party is over‘‘ وزیراعظم اپنے ساتھ انہیں ازبکستان لے گئے۔ بار بار پوچھا کہ وہ ان سے کیوں ناراض ہیں۔ خبرنگار نے کہا‘ ناراض نہیں‘ جہاں پناہ‘ آپ کو خبردی ہے۔ بادشاہ مگر مانتے کب ہیں۔ شاہد خاقان عباسی اب بھی نہیں سمجھ رہے۔ رانا ثناء اللہ اب بھی ادراک نہیں کر رہے۔ رہے حنیف عباسی‘ عابد شیر علی اور احسن اقبال قسم کے لوگ تو انہیں کھاد بننا ہوتا ہے۔ کم مایہ درباری بادشاہ کے ساتھ مرتے یا رسوا ہوتے ہیں۔
میں دیکھا قصرِ فریدوں کے در اوپر اک شخص
حلقہ زن ہوکے پکارا ”کوئی یاں ہے کہ نہیں‘‘
برامکہ کی بات بیچ میں رہ گئی‘ سیاست کے شناور‘ دولت کے ڈھیر‘ ادھر ناتجربہ اور متلون مزاج شہزادہ‘ جس پر پہلے ماں مسلّط رہی‘ پھر رفیق حیات۔ برسوں تک جو سمجھ ہی نہ سکا کہ دکھاوے کا وہ امیر ہے۔ سمجھ چکا تو بہت دن زنجیریں توڑنے کی جرأت جمع نہ کر سکا‘ تاآنکہ ایک دن اس نے برامکہ کے قتلِ عام کا حکم دیا۔ برمکی سرداروں میں سے‘ فقط ایک بچ سکا۔ اس کی کہانی عجیب ہے۔ سردار کا نام حافظے میں نہیں ابھرتا‘ نثار علی خاں فرض کر لیجئے۔
امیرالمومنین ہارون الرشید سے جوانی کی دوستی تھی مگر وہ دیوانہ نکلا۔ تخت پروہ براجمان ہوئے تو کوئی بھی منصب ان کے دوست نے قبول کرنے سے گریز کیا۔ خاندانی جاگیر پہ چلا گیا‘ گھوڑے پالنے اور تجارتی کارواں مرتب کرنے میں مگن۔ امیرالمومنین کو اس پہ حیرت تھی۔ کرید کرید کر پوچھا کرتے کسی منصب کا وہ آرزومند کیوں نہیں۔ بصرہ اور دمشق کی گورنری پیش کی لیکن ہر بار وہ سراپا معذرت۔
ایک دن بہت اصرار کیا تو ایک عجیب فرمائش‘ اس نے کی اور ایک عجیب شرط کے ساتھ۔ امیرالمومنین: ایک فرمان مجھے لکھ دیجئے کہ برامکہ سے میرا کوئی تعلق نہیں‘ ایک مردِ آزاد ہوں۔ براہ کرم یہ بھی نہ پوچھئے کہ اس التجا کا سبب کیا ہے۔ امیر وعدہ کر چکے تھے‘ فرمان لکھ دیا۔
پھر ایک دن برامکہ کے قتل عام کا حکم صادر ہوا۔ اقتدار کے خمیر میں مرکزیت ہوتی ہے۔ وہ چند اور بالآخر ایک ہاتھ میں سمٹنا چاہتا ہے۔ ہزاروں برس کی تگ و تاز سے آدمی نے یہ قانون دریافت کیا ہے اور یہ بھی کہ کارِاقتدار میں سب سے بھیانک مرض یہی ہے۔ شمشیر برداروں نے‘ اس کے گھر کو بھی جا گھیرا۔ شاہی فرمان تھامے وہ نمودار ہوا ”نثار علی خاں کا کوئی تعلق برامکہ سے نہیں‘ وہ ایک مرد آزاد ہے‘‘۔
مہم سر ہو چکی تو محل میں وہ طلب کیا گیا اور خلوت میں۔ شب کی خلوت اور آسمان پر دمکتا ہوا مہتاب۔ تجسّس کی شدت میں امیرالمومنین مضطرب‘ بے پناہ مضطرب۔ کہا: انتظار کی تاب نہیں‘ بتائو کہ برسوں پہلے تمہیں اندازہ کیسے ہوا۔ ”کچھ بھی نہیں‘ امیرالمومنین‘‘ تاجر نے کہا‘ جو کبھی ایک نامور جنگجو تھا۔ آپ جانتے ہیں کہ خراسان کے معرکے میں زخم کاری آئے تھے۔ تلوار ہتھیلی پہ بھاری ہونے لگی۔ آپ کی اجازت سے‘ تاکستان آباد کیے اور تجارت میں جی لگایا۔ آپ کو شاید یاد ہو کہ ایک دن‘ اسی طرح مدعو کیا گیا۔ روشنی باقی تھی۔ آپ محل کے باغ میں تھے۔ نگاہ پڑی تو میں ششدر رہ گیا۔ یحییٰ برمکی‘ میرے بد نصیب چچا‘ آپ کے کندھوں پر سوار‘ سیب توڑ رہے تھے۔ ایک خیال نے مجھ دہقاں کو گرفت میں لے لیا: جو امیرالمومنین کے کندھوں پہ سوار ہونے کی جسارت کرے‘ اس کا انجام کیا ہوگا؟ پھر ایک لمحے کو وہ رکا اور اس نے کہا: اللہ اپنے عاجز بندوں کی حفاظت کرنے والا ہے‘ امیرالمومنین۔
بادشاہوں پہ برا وقت آنے والا ہے۔ بادشاہوں پہ آخرکار برے ہی وقت آیا کرتے ہیں۔ قرائن آشکار ہیں مگر جن کے مقدر میں موت اور رسوائی ہو۔ جو خبطِ عظمت و علم کا شکار ہوں؟۔
کثرت کی آرزو نے تمہیں ہلاک کر ڈالا
حتیٰ کہ تم نے قبریں جا دیکھیں
بے شک تم جلد جان لو گے
پھر بے شک تم جلد جان لو گ