منتخب کردہ کالم

یو ٹرن سے نیو ٹرن … سعدیہ قریشی

2 نومبر کا دھرنا ملتوی ہونے پر بشیر نان چنے والا بہت خوش ہے۔ ویسے تو اس کو سیاست سے کوئی لینا دینا نہیں، لیکن یہ کمبخت دھرنے‘ لاک ڈائون اور جلائو گھیرائو اس کے کاروبار کو بہت متاثر کرتے ہیں۔ بشیر نان چنے والے کا سیاسی حالات سے اتنا ہی تعلق ہے۔ مگر یہ تعلق ایسا ہے کہ اگر حالات کی خرابی کی وجہ سے وہ اپنی ریڑھی نہ لگا پائے تو اس دن کی دیہاڑی ماری جاتی ہے اور اس کے گھر فاقے کے خطرات منڈلانے لگتے ہیں۔
بشیر نان چنے والے کو اس بات کا ادراک ہے کہ حکومت کوئی بھی آئے اس کے حالات نہیں بدلیں گے۔ وہ ریڑھی لگاتا ہے اور ریڑھی ہی لگتا رہے گا۔ پہلے یہی ریڑھی اس کے باپ کی ملکیت تھی۔ بشیر نان چنے والے کو یاد ہے کہ اس کا باپ نان چنوں کی ریڑھی سے رزق کما کر اپنے سات بچوں کو پالتا رہا۔ کوئی بیمار ہو جاتا تو اس کی ماں گھریلو ٹوٹکوں سے ہی علاج کرتی۔ ڈاکٹر کی فیس دینے کے ہی پیسے نہیں ہوتے تھے تو دوائیں کہاں سے آتیں۔ اس کی تین بہنوں کی شادیاں قرض اٹھا کر ‘ کمیٹیاں ڈال کر‘ مدد امداد سے انجام پائیں۔ اس کی ماں اپنے غریب اور محنتی شوہر کی مدد کے لیے گھر میں کپڑے سیا کرتی اور اسی آمدنی سے کمیٹیاں ڈالتی۔ بشیر نان چنے والا بننے سے پہلے اپنے باپ کا بشیرا پتر تھا۔ اس کے باپ نے اسے پڑھانے کی کوشش کی۔ چند جماعتیں اس نے سکول میں پڑھیں لیکن پھر غربت اور مسائل کا
بوجھ بڑھتا گیا۔ اس نے بھی اپنے باپ کا ہاتھ بٹانا شروع کر دیا۔ بشیرے کو یاد ہے کہ اس کا باپ بڑا خوش فہم تھا۔ حکمرانوں کے وعدوں پر یقین کرنے والا سادہ لوح انسان۔ اس دوران کتنے ہی حکمران آئے اور کتنے مارشل لاء اور جمہوری حکومتیں بھی آئیں۔ غریبوں کے حالات بدلنے کے وعدے اور دعوے کیے گئے‘ بس لفظوں کے ذرا سے ہیر پھیر کے ساتھ۔ روٹی کپڑا اور مکان کا نعرہ لگانے والی پی پی پی کی حکومتیں دیکھیں، پیلی ٹیکسیاں، روزگارسکیمیں‘ آشیانہ گھر‘ صحت کارڈ‘ بے روزگاروں کے لیے قرضہ سکیمیں‘ لیپ ٹاپ کے تحفے… یہ سب کچھ وہ دیکھتا رہا اور دیکھ رہا ہے، مگر خود ان کی زندگیوں میں کوئی فرق نہیں آیا۔ شوکت عزیز کی معاشی اشاریے والی حکومت بھی گزر گئی۔ مشرف کی روشن خیالی بھی ان کے حالات نہ بدل سکی۔
بشیرے کو یقین ہو گیا کہ کوئی بھی حکومت آئے جائے اس سے ان کی زندگی پر کوئی فرق نہیں پڑنے والا۔ پہلے اس کا باپ نان چنے کی ریڑھی لگاتا تھا پھر اس نے بھی یہی کام شروع کر دیا۔ اب وہ اپنے باپ کی ریڑھی لے کر دیہاڑی کمانے گھر سے نکلتا ہے۔ اس کی بیوی چند گھروں میں کام کر کے اس کی معاشی جدوجہد میں اس کا ہاتھ بٹاتی ہے۔ بشیرے کا ایک ہی بیٹا ہے اور وہ ہر قیمت پر اپنے بیٹے کو پڑھانا چاہتا ہے۔ اس کی خواہش ہے کہ غربت کے جس چنگل میں اس کا باپ اور وہ اپنی زندگی گزارتے رہے ہیں اس کا بیٹا اس سے نکل جائے۔ اس نے بڑی محنت اور ہمت سے اپنے بیٹے کو کالج تک پہنچایا۔ لیکن اب بشیرے کی مشکل کچھ اور بڑھ گئی ہے۔ اس کا بیٹا بھی اپنے دادا کی طرح خوش فہم ہے جو سیاستدانوں کے وعدوں اور دعوئوں پر یقین کر بیٹھتا ہے۔ وہ دیکھتا ہے کہ آج کل اس کا بیٹا نیا پاکستان بنانے‘ تبدیلی لانے کی بات کرتا ہے۔ بشیرا اس کو سمجھانے لگے تو وہ بات سننے سے انکار کر دیتا ہے۔ اس کے منہ پر ایک ہی بات ہے کہ ہم نیا پاکستان بنائیں گے۔
2 نومبر کے دھرنے کے اعلان کے ساتھ ہی بشیرے کا بیٹا بھی بے حد پرجوش تھا کہ ”اب کی بار تو ہم حکومت گرا کر ہی دم لیں گے۔ دیکھنا پھر کیسی تبدیلی آتی ہے‘‘۔ اس کا باپ اپنے بیٹے کی باتوں پر ہنس دیتا اور اسے سمجھاتا: اوئے بیوقوف یہ سیاستدان تو بس ہم جیسوں کو اپنے مقصد کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ تو جلسوں میں جا کر ڈنڈے کھاتا ہے‘ کبھی ان کی اپنی اولادوں کو دیکھا ہے جیلیں کاٹتے اور ڈنڈے کھاتے۔ 2 نومبر سے پہلے ہی تحریک انصاف اور حکومت میں محاذ آرائی شروع ہو گئی۔ سیاسی ورکروں کو پکڑ پکڑ کر جیلوں میں ڈالا گیا۔ ان میں بشیرے کا بیٹا بھی تھا۔ بشیرے کا خیال تھا کہ اس کے دماغ میں نئے پاکستان اور تبدیلی کا خناس اس طرح بھرا ہوا ہے کہ ڈنڈے اور جیل کی ہوا بھی اس کو نہیں سدھار سکتی۔ لیکن اسے حیرت ہوئی جب جیل سے چھوٹ کر گھر آیا تو اپنی جماعت اور اپنے لیڈر سے مایوس دکھائی دیا۔ ”اباّ تو ٹھیک ہی کہتا تھا‘ یہ سیاست والے تو بس ہم جیسوں کو استعمال کرتے ہیں۔ ہم ڈنڈے کھاتے رہے اور ہمارا کپتان ڈر کے مارے بنی گالہ کی پہاڑی سے نیچے نہیں اترا۔ اس سے تو جی دار پرویز خٹک اور شیخ رشید اچھے نکلے۔ بہادروں کی طرح ڈٹے رہے‘‘۔ بشیرے کا بیٹا چولہے کے پاس پیڑھی رکھے ماں کے ہاتھ کی روٹی کھاتے ہوئے جیسے اپنے آپ سے ہی بولتا گیا۔ ”ماں صدقے جائے پتر۔ تجھے تو ہم پہلے ہی بڑا سمجھاتے تھے‘‘۔ ماں نے ایک اور گرم روٹی بیٹے کے سامنے رکھی اور محبت سے کہا۔ بشیرے نے لوہا گرم دیکھا تو بولا: ”پتر تو پڑھ لکھ کر بابو بن جا‘ پھر دیکھنا ہمارے لیے نیا پاکستان اپنے آپ ہی بن جائے گا‘‘۔
عمران خان کے تازہ ترین لاک ڈائون کے ‘ایپی سوڈ‘ نے ان کے بہت سے ورکرز کو اور چاہنے والوں کو مایوس کیا ہے۔ سیاسی حالات و مضمرات پر نگاہ رکھنے والے ماہر سیاسی تجزیہ کار بھی یہی رائے دے رہے ہیں اور ایک عام پاکستانی بھی جو ٹی وی سکرینوں کے ذریعے تمام حالات و واقعات کو براہِ راست دیکھتے رہے یہی کہتے ہیں۔ کپتان کی بہادری اور جنون اس وقت کہاں چلے گئے تھے جب ان کے ورکرز بنی گالہ کے باہر پنجاب پولیس کے ڈنڈے کھا رہے تھے۔ احتجاجی سیاست کی گرما گرمی میں کپتان کا اپنے ساتھیوں کے ساتھ محفوظ ماحول میں دبک کر بیٹھ جانا ان کے ورکرز کو کسی طور نہیں بھایا۔ سیاست کے اس ‘ایپی سوڈ‘ نے کپتان کی مقبولیت میں کمی کی ہے۔ وہ آج تک ایجی ٹیشن کی سیاست کرتے آئے ہیں مگر جب ایجی ٹیشن کا اصل ماحول بنا تو وہ اس کی تپش برداشت نہیں کر پائے۔
بشیرے کا بیٹا تو سمجھ چکا کہ اصل تبدیلی سیاستدانوں کے پیچھے بھاگنے سے نہیں اپنی زندگی تبدیل کرنے سے آتی ہے۔ کپتان کے یو ٹرن سے بشیرے کا بیٹا تو اپنی زندگی کے نیو ٹرن کو مڑ چکا ہے۔ لاک ڈائون اور دھرنے سے یوم تشکر منانے کے راستے میں اس بار جو یو ٹرن کپتان نے لیا ہے وہ ان کے بہت سے چاہنے والوں کی زندگیوں میں ایک”نیو ٹرن‘‘ ثابت ہوا ہے