منتخب کردہ کالم

یہاں اہلیت جرم ہے!…راؤ منظر حیات

یہاں اہلیت جرم ہے!...راؤ منظر حیات

یہاں اہلیت جرم ہے!…راؤ منظر حیات

آج پاکستان جس ادنیٰ مقام پرسانس لے رہاہے، اس کی بہت زیادہ وجوہات ہیں۔شایدسیکڑوں یا ہزاروں۔ ایک نشست میں شمارکرناحددرجہ مشکل ہے۔بنیادی غلطیاں متعددہیں مگرایک مستندقومی انحراف ہے کہ ہم نے یاہمارے نظام نے اہلیت بلکہ اہل لوگوں کوہرطریقے سے پیچھے دھکیلنے کی کامیاب کوشش کی ہے۔کوشش میں تمام ملکوں سے زیادہ مستقل مزاج ثابت ہوئے ہیں۔قومی نظام نے ریاضت کرکے ہرمیدان میں لائق اوراہل لوگوں کوچن چن کر باہر نکال دیا ہے۔ یہ مشق کم ازکم ساٹھ برس سے توجاری ہے۔

ہرمیدان میں بالکل ایک جیسے حالات ہیں۔ مگر طاقت کے کھیل میں کامیاب ہونے کے لیے نالائق ہونالازمی ہے۔حق ہے آپکو،کہ اختلاف کریں۔اصغرخان مرحوم کی مثال سامنے رکھیے۔ان کے محب وطن،محنتی اوروطن دوست ہونے میں دوآراء نہیں ہوسکتیں۔ملکی ادارے انتہائی شاندار طریقے سے اس وقت بنائے جب وسائل انتہائی کم تھے۔ غیرملکی،پی آئی اے اورفضائیہ کودیکھنے کے لیے پوری دنیاسے آتے تھے۔

ریٹائرمنٹ کے بعداصغرخان،قومی سیاست میں آئے توان کی بھرپورپذیرائی ہوئی۔اس وقت کے سیاسی قائدین نے لفظی طورپران کاخوب خیرمقدم کیا۔بھٹوکے خلاف تحریک میں اصغرخان بھرپورطریقے سے شامل ہوئے۔ انھیں کامل یقین تھاکہ بھٹوکااقتدارمیں رہناملک کے لیے مسائل پیداکرسکتاہے۔یہ خیال غلط تھایادرست،اس پر بحث ہوسکتی ہے۔مگرعملاًاس دورمیں ان کی موجودگی لاکھوں کے مجمع کی ضمانت ہوتی تھی۔
سیاسی اکابرین نے بھٹوکی حکومت ختم کرنے کے لیے انھیں انتہائی عیاری سے استعمال کیا اورپھرمکمل سفاکی کے ساتھ کھڑکی سے باہرپھینک دیا۔کئی وجوہات ہوسکتی ہیں۔مگرایک وجہ یہ تھی کہ اصغرخان جیسا متحرک اورلائق انسان، جمودمیں مبتلانظام کوبرقراررکھنے میں رکاوٹ بن سکتاتھا۔بہت کم لوگوں کو یاد ہوگاکہ انھیں قید بھی رکھاگیا۔ملک میں ان کی سیاسی جماعت،تحریک استقلال کواقتدارکے ایوانوں کے نزدیک پھٹکنے کی اجازت تک نہ دی گئی۔

ایمانداری اورقابلیت ان کی سب سے بڑی دشمن ثابت ہوئی۔ان کاوہی حشرہواجوہمارے جیسے معاشروں میں ہوناچاہیے تھا۔وفات کے بعدشاندارجنازہ ہمارے جیسے منافق معاشروں کی خاص روش ہے۔چانچہ اس روایت کے تحت بڑی عزت سے اس آدمی کی آخری رسومات اداکی گئیں۔مگرزندگی میں اس سے بالکل فائدہ نہ اُٹھایا گیا۔بلکہ اس کابھرپورمذاق اُڑایا گیا۔

برصغیرمیں ہزاروں سال سے اقتدار، سازش، دولت اوردھوکا دہی کاکھیل ہے۔ڈھائی ہزارسال سے اس میں کوئی تبدیلی نہیں آئی۔ہمارے نظام میں منفی رویہ ہی کامیابی کی دلیل ہے۔اصغرخان کو ایک علامت کے طورپراستعمال کیجیے۔ہرمیدان میں آپ کو ایک جیسی صورتحال نظرآئیگی۔

سیاست کے خاردارمیدان سے نکل کرایک اورسمت کی طرف چلیے۔یہ ہمارے ملک میں مذہبی اورلسانی سیاسی جماعتوں کی غیرضروری اہمیت اورمعتبری ہے۔ 97% مسلمان معاشرے میں مذہبی جماعتوں کی کیاضرورت ہے۔اس پرسنجیدہ بحث ہونی چاہیے۔کیاواقعی ایک مسلم ملک میں دین کے نام پرسیاست کرنے کی اجازت ہونی چاہیے۔یہ تو سیدھا سیدھا،ہمارے عظیم دین کوسیاسی بنیادوں پراستعمال کرنے کی ایک بھرپورکوشش ہے۔

صرف چندبرس پہلے، خیبرپختوانخوا کے صوبے میں مذہبی سیاسی جماعتوں کی پانچ برس تک حکومت رہی۔مشرف دورمیں ایم ایم اے کے نام پر وجود میں آنے والی سیاسی قوت کوبلاشرکت غیرے اقتدارسونپ دیاگیا۔سب سے پہلے ہونے والے وزیراعلیٰ کوداڑھی رکھوائی گئی۔وزیراعلیٰ بننے سے پہلے شائدوہ مسلمان نہیں تھے۔لہذااس ذاتی تبدیلی سے صوبے کی حکومت شروع کروائی گئی۔پانچ برس اس صوبہ میں عام آدمی کی زندگی میں رَتی بھرفرق نہیں آیا۔

اسپتالوں کی حالت،اسی طرح اَبتررہی جیسے پہے تھی۔سرکاری اسکول ماضی کی طرح تباہ حال رہے۔ ہاں،کوشش کی گئی کہ کسی طریقے سے لڑکیوں کوتعلیم سے دور رکھاجائے۔مگرایک کام خوش اسلوبی سے انجام دیا گیا۔ دہشت گردوں کوسوات کی خوبصورت وادی پرایک حکمتِ عملی کے تحت قبضہ کرنے کی اجازت دی گئی۔دہشت گردوں نے سوات میں جوظلم کیا،اس میں ماضی کی صوبائی حکومت کی خاموش تائیدحاصل تھی۔

ڈویژن کی سطح پرکمشنرایک معتبر افسر ہوتاہے۔طالبان نے کمشنرکوپندرہ محافظوں سمیت اغواء کر لیا۔پوری دنیاحیران تھی کہ بالاخرووٹوں کی طاقت سے بنی ہوئی صوبائی حکومت اس درجہ خاموش تماشائی کیوں کرتھی۔ رشوت اور کرپشن کادور دورہ بالکل اسی طرح رہاجیسے پہلے تھا۔سوات کی صورتحال میں وہاں کے مقامی لوگوں پراذیت اورمصائب کے اَن گنت دروازے کھول دیے گئے۔یہ صرف فوج تھی جس نے اپنے طورپرسوات آپریشن خود شروع کیا۔

دہشت گردی کا قلع قمع کیا۔گزارش صرف یہ ہے کہ اس ملک میں مذہبی سیاسی قوتوں نے بھی وہی کچھ کیاجو دوسرے سیاستدان کرتے رہے ہیں بلکہ کررہے ہیں۔ ضرورت تھی کہ مذہب کی بنیادپربنی ہوئی سیاسی جماعتیں، ہمارے معاشرے کے لیے مثال قائم کرتیں۔جہاں جہاں ان کی حکومتیں تھیں، وہاں دودھ اورشہدکی نہریں بہہ رہی ہوتیں۔میرٹ پر عملداری ہوتی مگرایسابالکل نہیں ہوا۔بلکہ ہرچیزاُلٹ ہوئی۔عملی طور پر ہر طریقے سے وہی ادنیٰ کام کیا گیا جو اس نظام کاخاصہ ہے۔

بات اہلیت کی ہورہی تھی۔حکومتی رویوں کوچھوڑ کر معاشرہ کے کسی کونے میں جھانکیے۔میری گزارشات پر یقین آجائے گا۔ڈاکٹری ایک باعزت اورمقدس پیشہ شمارکیا جاتاہے۔اس میں کوئی کلام ہی نہیں کہ ایک انتہائی سنجیدہ اور شریف شعبہ ہے۔لاہورشہرمیں امراض قلب کے ایک ڈاکٹر صاحب لندن سے پنتیس برس پہلے تشریف لائے۔ان کی قابلیت کے متعلق توکیابات کرنی۔ان کی پبلک ریپبلشنگ کمال کی تھی۔

گورنرسے لے کرہراہم عہدے والا شخص ان کا گرویدہ ہوگیا۔دس بارہ سال میں کروڑپتی بن گئے۔ان کی روزانہ کی پریکس،دوڈھائی لاکھ سے اوپرتھی۔آج سے پندرہ سال پہلے،انجیوگرامی اورانجیوپلاسٹی کادورشروع ہوا۔ موصوف،اس شعبہ سے مکمل طورپرنابلدتھے۔مگرانھوں نے کمال فنکاری سے لاہورکے ایک نجی اسپتال میں انجیوگرافی کرنے کابیڑہ اُٹھایا۔جس شعبہ میں ان کادورکاواسطہ تک نہیں تھا۔

اس شعبہ میں انھوں نے ہزاروں مریضوں کوٹھیک کرنے کا عزم کررکھاتھا۔اَن گنت لوگ ان کی ناتجربہ کاری کی بدولت زندگی سے ہاتھ دھوبیٹھے۔مگرمذکورہ ڈاکٹرصاحب نے ڈھٹائی سے کام جاری رکھا۔شاید آج تک کیے جارہے ہیں۔ایک امریکن امراض قلب کے ڈاکٹرنے بتایاکہ وہ ایک مجرم ہے۔اگرامریکا میں ہوتے توان کالائسنس تک ضبط ہوجاتا۔مگریہاں کوئی بھی ان سے پوچھ گچھ کرنے کی جرات نہیں کرسکتا۔جویہ دریافت کریگا،اس پرزندگی تنگ کردی جائے گی۔اس بے مقصدامریکی ڈاکٹرکومعلوم نہیں تھاکہ دراصل ہمارے نظام میں نااہل ہوناسب سے بڑاوصف ہے۔اسی پرمعاشرہ قائم ودائم ہے۔

اب اس شعبہ کی طرف آتاہوں جس پربہت کم غورکیا گیاہے۔پاکستان میں شعراء اکرام اورادیبوں کی فوج ہے۔لکھاریوں کی تعدادکوشمارتک نہیں کیاجاسکتا۔ یاد پڑتا ہے کہ صرف کراچی میں ایک سروے کے مطابق ہزاروں لوگوں نے اپنا پیشہ،شاعری رقم کیاہواتھا۔ اس حساس شعبہ میں بے انتہاہنرمندلوگ موجودہیں۔مگرعرض ہے کہ ادبی شعبہ میں بھی صلاحیت آپکوایک خاص حدتک آگے لیجاسکتی ہے۔

اس کے بعدترقی صرف اس صورت میں ہوسکتی ہے،کہ آپ کسی طاقتورگروہ،سیاسی جماعت یااہم شخصیت کے ساتھ منسلک ہوجائیں۔آپکی تمام خرابیاں ایک دم ختم ہوجائینگی۔بلکہ آپ کی خوبیاں شمارکی جائینگی۔سترسال سے تویہی ہورہاہے کہ جوبھی ادیب،شاعریالکھاری دربارتک رسائی پاگیا،وہی معتبرقرارپایا۔انتہائی اہلیت والے صاحب فن زندگی بھردھکے کھاتے رہے۔ ان کا ٹھٹھا اُڑایا گیا۔ ان کو معاشی طورپرہمیشہ تنگ دست رکھاگیا اوروہ ذلیل وخوار ہوتے ہوتے ملک عدم روانہ ہوگئے۔مرنے کے بعد،انھیں کبھی کبھی ضرورت کے تحت مختلف اعزازات سے نوازاگیا۔

جوادیب یاشعراء اکرام دربارمیں کام کرنے لگ گئے انھیں ایسی سرپرستی حاصل ہوئی کہ ان کاادنیٰ کام بھی ارفع ہوگیا۔وہ عظیم دانشوروں کی اس جعلی فہرست میں آگئے جس کاعملی وجودکوئی بھی نہیں۔نام لکھنے کاکوئی فائدہ نہیں۔یہاں حبیب جالب،منیرنیازی اوراستاددامن جیسے بڑے لوگ اپنی اَنا کے حصارمیں بیٹھے بیٹھے ختم ہوگئے۔ان کاجرم ان کی ادبی اہلیت تھی۔آج بھی یہی حال ہے۔کوئی بھی عنصرتبدیل نہیں ہوا۔

مجموعی طورپرہماراملک شدیدتضادات کاشکار ہے۔ یہاں کوئی بھی سیاسی،سماجی اورمعاشی شعبدہ بازکچھ بھی کر سکتا ہے۔اپنے آپکومافوق الفطرت نجات دہندہ ثابت کرسکتاہے۔عام لوگ اس کی بات پریقین بھی کرنے لگتے ہیں۔اس کے پیروکاربلکہ مریدتک پیداہوجاتے ہیں۔یہ معاملہ کبھی بھی ختم نہیں ہوگا۔موجودہ نظام سیکڑوں برس پختہ ہے۔

اس سے کوئی بھی انحراف نہیں کرسکتا۔سب نے کوہلوکے بیل کی طرح آنکھوں پرکھوپے لگاکربغیرسوال کیے دائرے میں گھومناہے۔یہاں اسی کانام زندگی ہے۔ کوشش کیجیے۔کہ آپ اپنے اندردلیل کی بنیادپرسوالات سوچنے اورپوچھنے کے عمل کاگلہ گھونٹ دیں۔کوشش کریںکہ لوگ آپکوبے ضرربلکہ حددرجہ نالائق سمجھے۔یہی آپکی کامیابی کی سندہے۔صرف اسلیے کہ یہاں اہلیت ایک ناقابل معافی جرم ہے!