یہی وہ نیا پاکستان ہے ! عمار چودھری
ایک تجارتی ادارے کا مالک بوڑھا ہو چکا تھا‘ وہ چاہتا تھا کوئی اس کا کاروبار سنبھالے اور اس کی تمام تر ذمہ داریاں اُٹھائے‘ عام طور پر بزنس ٹائیکونز سب کچھ اپنی اولاد کو منتقل کر دیتے ہیں‘ ایسے بچوں کیلئے سب سے بڑا میرٹ محض اولاد ہونا اور منہ میں سونے کا چمچ لیکر پیدا ہونا ہوتا ہے‘ انہیں بزنس کی الف ب تک معلوم نہیں ہوتی لیکن ان کی مسیں بھیگتے ہی انہیں ادارے کا سب سے بڑا عہدہ مل جاتا ہے‘ وہ والدہ کی گود سے اتر کر سیدھا چیف ایگزیکٹو آفیسر کی کرسی پر بیٹھ جاتے ہیں اور مختصروقت میں باپ کی برسوں کی محنت اور بزنس ایمپائر کو اپنی عیاشی‘ اکھڑ پن‘ نااہلی اور ناتجربہ کاری کے ذریعے زمین بوس کر دیتے ہیں۔ لیکن جیمز نے ایسا نہیں کیا‘ جیمز اپنے بچوں کو بھی تربیت کے تمام مراحل سے گزارنا چاہتا تھا‘ وہ چاہتا تھا یہ ٹرینی کے طور پر کام شروع کریں‘ سی وی لیکر دروازے کھٹکھٹائیں‘ ٹھوکریں اور دھکے کھائیں اور ضروری تجربہ‘ محنت اور اہلیت کے بعد راستہ بناتے ہوئے ٹاپ آف دی لائن پوزیشن تک پہنچیں۔ جیمز اگلا سی ای او اپنے قابل ایگزیکٹوزمیں سے لانا چاہتا تھا۔جیمزنے ایگزیکٹوزکی میٹنگ کال کی۔ تمام لوگ جمع ہوئے۔ جیمز نے میٹنگ روم پر ایک نظر ڈالی اور بولا ” وقت آ گیا ہے میں اس ادارے اور اس عہدے کو خدا حافظ کہہ دوں۔ میں چاہتا ہوں ادارے کا نیا چیف ایگزیکٹو آفیسر تم میں سے ہو اور اس کیلئے میں تمہارا چھوٹا سا امتحان لوں گا‘ ‘ جیمز بولا ”میں تم سب کو ایک ایک بیج دوں گا‘ بہت ہی خاص بیج۔ میں چاہتا ہوں تم یہ بیج گھر لے جائو‘ اسے گملے میں بوئو‘ پانی دو‘ اس کی حفاظت‘ نگہبانی کرو اور آج سے ٹھیک ایک سال بعد جو کچھ اُگے‘ وہ لیکر آ جائو۔ یوں سب سے بہترین‘ خوشنما اور
تن آور پودا لانے والاکمپنی کا اگلا چیف ایگزیکٹو بن سکے گا‘‘ وہاں موجود ایک ایگزیکٹو پال کو بھی ایک بیج ملا۔ وہ بیج لیکر گھر گیا اور بیوی کو ساری کہانی سنائی۔ بیوی ایک خالی گملا لائی‘ پال نے اس میں مٹی بھری‘ کھاد ڈالی‘بیج بویا اور پانی دیدیا۔ تین ہفتے گزر گئے‘ وہ روزانہ پانی دیتے مگر بیج نے سر باہر نہ نکالا۔ جبکہ دیگر ایگزیکٹوز ایک دوسرے کو بتاتے کہ ان کا بیج ننھا منا پودا بن گیا ہے۔ دو چار چھ مہینے گزر گئے۔ پال کے گملے کی گود ہری نہ ہو سکی۔ تاہم اس نے ہار نہیں مانی‘ وہ گملے کو مسلسل پانی دیتا رہا‘ اس کا خیال تھا بیج زندہ ہو جائے گا‘ یہ مٹی کا سینہ پھاڑے گا اور سبز رنگ کے ننھے منے پتے ضرور نظر آئیں گے۔ یہ پال کی غلط فہمی تھی‘ بیج مٹی کے آغوش میں سویا رہا‘ اُسے پانی جگا سکا نہ ہی قسم قسم کی کھادیں۔ یہاں تک کہ ڈیڈلائن ختم ہو گئی۔ ایک سال مکمل ہو گیا اور پال خالی گملا اُٹھا کر بورڈ رُوم میں پہنچ گیا۔ وہ حیران رہ گیا اس کے تمام کولیگزکے سامنے شاندار پودے رکھے تھے۔ جبکہ اس کا خالی گملا کمرے کا منہ چڑا رہا تھا۔ اتنے میں دروازہ کھلا‘ سی ای او جیمز مسکراتا ہوا کمرے میں داخل ہوا اور ایک ایک کر کے تمام پودوں کی بناوٹ‘ سائز اور خوبصورتی کا جائزہ لیا۔ وہ ہر ایگزیکٹو سے ملتا اور اس کے پودے کی تعریف کرتا۔ جب وہ پال کے قریب آیا تو پال پیچھے ہٹ گیا اور گملے کو پائوں کے درمیان چھپا لیا۔ جیمز نے اسے ایسا کرتے دیکھ لیا ۔ پال نے ڈرتے ڈرتے اسے ساری کہانی سچ سچ سنا دی۔ پال نے بتایا وہ مسلسل تین سو پینسٹھ روز کوشش کرتا رہا‘ اس نے اپنی سی پوری کوشش اور محنت کی لیکن شاید خدا کو منظور نہیں تھا۔باس نے ساری کہانی سنی اور چند لمحوں کیلئے خاموش ہو گیا۔ پال سمجھ گیا اسے نوکری سے نکال دیا جائے گا یا پھر اس کی شدید بے عزتی ہو گی۔ تیس سیکنڈ کی خاموشی کے بعد سی ای او نے سر اٹھایا اور بولا ” تمام لوگ بیٹھ جائیں‘ صرف پال تم‘ تم کھڑے رہو‘‘۔ تمام لوگ جھٹ سے بیٹھ گئے۔ پال کو یقین ہو چلا تھا اب اس کی خیر نہیں۔ کمرے میں جنگل کی سی خاموشی تھی۔ پال نظریں جھکائے اپنے گملے کو دیکھ رہا تھا کہ اچانک چیف ایگزیکٹو کی آواز نے
کمرے کا سکوت توڑ دیا ” تمام لوگ اپنے اپنے دل سنبھال لیں‘ میں کمپنی کے نئے چیف ایگزیکٹو آفیسر کا اعلان کرنے والا ہوں‘‘ جیمز لمحے کیلئے رُکا اور بولا ” اس کا نام ‘ جی ہاں کمپنی کے نئے سی ای او کا نام ہے ‘ پال‘ مسٹر پال اینڈرسن‘‘ اپنا نام سنتے ہی پال لڑکھڑا سا گیا‘ اسے چکر آ گیا‘ اسے لگا وہ کوئی خواب دیکھ رہا ہے۔ پال سمیت سبھی اس فیصلے پر حیران تھے۔ جیمز نے سب کے چہرے زرد پڑتے دیکھے تو زوردار قہقہہ لگایا اور بولا ” میں جانتا ہوں‘ تم سب کیا سوچ رہے ہو‘ ایک خالی گملا لانے والا سی ای او کیسے بن سکتا ہے‘ یہی ناں؟ ‘‘ سب خاموش رہے‘ جیمز نے پال کو اپنے ساتھ کھڑا کیا اور ایگزیکٹوز کو مخاطب کر کے بولا ” آج سے ایک سال قبل میں نے تم سب کو ایک ایک بیج دیا تھا‘ تم نے اسے مٹی میں دبا دیالیکن حقیقت میں کسی کا بھی بیج نہیں اُگا‘ کیوں؟ کیونکہ میں نے جو بیج دئیے تھے وہ اُبلے ہوئے تھے‘ ان میں ذرہ برابر بھی جان نہیں تھی‘ یہ مردہ بیج تھے اور جب تم لوگوں نے دیکھا کہ بیج نہیں اُگ رہا تو تم نے اس کی جگہ بازار سے لیکر دوسرا بیج ڈال دیا‘ یہ پودا بنا اور تم یہ پودے لیکر میرے سامنے آ گئے‘ جبکہ پال‘ پال نے پوری دیانتداری کا مظاہرہ کیا‘ اس نے بیج نہیں بدلا‘‘ یہ وہی بیج اور خالی گملا لیکر میرے سامنے آگیا اور سب کچھ سچ سچ بتلا دیا‘‘ یہ کہہ کر اس نے سگار کا لمبا سا کش لیا اور دھواں فضا میں اڑاتے ہوئے بولا ”کسی بھی ادارے کے سی ای او کے لئے محنتی ہونا تو ضروری ہے ہی لیکن ایمانداری اور دیانت کے بغیر وہ کامیابی کی سیڑھیاں نہیں چڑھ سکتا اور پال میں یہ سب خوبیاں موجود ہیں چنانچہ پال کل سے تمہارا ‘ میرا اور اس کمپنی کا نیا چیف ایگزیکٹو آفیسر ہو گا‘‘۔
میںنے جب سے یہ کہانی پڑھی ہے میں سوچ رہا ہوں ہم اس ملک کی باگ ڈور ایسے حکمرانوں کے ہاتھ میں دے دیتے ہیں جو سچ اور ایمانداری کا بیج بونے کی بجائے دروغ گوئی اور چالاکیوں کے سہارے ملک کو چلانا چاہتے ہیں۔ آخرپاناما کیس پر حکمران جماعت میں کوئی ایک شخص تو ایسا ہوتا جو پال اینڈرسن کی طرح سچ بولنے کی ہمت کرتا‘ جو ایمانداری اور دیانتداری کے رستے پر چلتا۔ یہ فلیٹس‘ یہ جائیدایں جو یہیں دنیا میں رہ جانی ہیں تو ان کے لئے ملک ‘جمہوریت اور پورے خاندان کی ساکھ کو دائو پر لگا دینا کہاں کی عقلمندی ہے۔وزیراعظم نواز شریف‘ بیگم کلثوم نواز، حسن نواز‘ حسین نواز اور مریم صفدرکے لندن فلیٹس کے حوالے سے تمام بیانات ایک دوسرے سے مختلف ہیں‘ قوم نے بھی دیکھا اور جے آئی ٹی نے بھی۔ اگر آپ ان سب کی ویڈیوز کو ایک ساتھ چلائیں تو کوئی بتا ہی نہیں سکتا کہ ان میں سے سچ کون بول رہا ہے۔ اس وقت تو حد ہو گئی جب جے آئی ٹی نے وزیراعظم کے داماد کیپٹن صفدر سے پوچھا کہ وہ لندن فلیٹس کی ملکیت کے بارے میں کیا جانتے ہیں تو انہوں کہا کون سے فلیٹس؟ وزیراعظم کی صاحبزادی مریم نواز کی جانب سے جمع کرائی گئی بعض دستاویز میں مائیکروسافٹ کا ‘‘کیلبری ” فونٹ بھی معمہ بن چکا ہے اور ان دستاویز پر 2006 کی تاریخ درج ہے جبکہ کیلبری فونٹ 2007میں باضابطہ طور پر متعارف کرایا گیا تھا۔اگر ان دستاویز کے فورنزک آڈٹ کے بعد ثابت ہو گیا کہ کاغذات پر فونٹ بعد میں استعمال کیا گیا تو حکمران خاندان کا سارا کیس زمین بوس ہو جائے گا۔
کہا جاتا ہے پاکستان میں انصاف کے حصول کے لئے حضرت نوحؑ جتنی عمر‘ حضرت ایوب ؑ جیسا صبر اور قارون جیسا خزانہ چاہیے تاہم جس طرح جے آئی ٹی نے دبائو‘ دھمکیوں اور لالچ کو ٹھکرایا ہے اور اپنی زندگیوں کو دائو پر لگا کر سچ کو سامنے لانے کی کوشش کی ہے‘ اسے دیکھ کر انصاف کی کچھ امید پیدا ہوئی ہے وگرنہ اس سے قبل ایسا کوئی ممبر وزیراعظم کے خاندان کے خلاف تو درکنار‘ کسی رکن اسمبلی کے خلاف بھی اس قسم کی رپورٹ لکھنے کی جرأت تک نہیں کر سکتا تھا۔ شاید یہی وہ نیا پاکستان ہے جس کا عمران خان بار بار ذکر کرتے تھے۔